’’کن‘‘ کرونا اور کشمیر

2020 ,مارچ 29



نادیدہ وائرس کے خوف نے دیدہ وروں کے بھی اُوسان گُم کر دئیے ۔ سپر طاقتوں کا تکبر ریزہ ریزہ ، شاہوںکا شکوہ تار تارہے۔ اس مرض کی کوئی دوا نہیں، سائنس بے چارگی سے دوچار سائنسدان لاچار ہیں۔ پوری دنیا بلاامتیاز مذہب مسلک رنگ و نسل کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے حالات میں لوگ اپنے عقائد کے مطابق معبدوں کا رُخ کرتے ہیں مگر آج عبادت گاہوں کو بھی قفل لگے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت مندروں کو پجاریوں ، کلیسائوں کو عبادت گزاروں اور مساجد کو نمازیوں پر بند کر دے ایسا ممکن نہیں مگر آج ایسا ہو چکا ہے۔لاالہ الااللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد میں حکومت کی طرف سے نماز کے اجتماعات 5نمازیوں تک محدود کرنے کو کہا گیا ہے، سندھ میں جمعہ پر بھی پابندی ہے۔علماء نے اس سے عمومی اتفاق کیا ۔ اور تواور عمرہ نہیں ہو رہا، حج کی ادائیگی بھی سوالیہ نشان ہے۔فرض عبادات میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی مگر اُس ہستی کے سامنے کوئی دم بھی نہیںمار سکتا۔ آج یہ سب حالات کے جبر کے تحت ہو رہا ہے۔ پوری دنیا لاک ڈائون کی حالت میں ہے۔ انسان ایک دوسرے سے دور سوچیں قریب ہو رہی ہیں۔ اس عذاب سے شایدآدمی انسان بننے کی طرف مائل ہو جائے وہ انسان جسے شاعر نے فرشتے سے بھی بہتر قرار دیا …؎

فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا

مگر کرنا پڑتی ہے محنت زیادہ

قدر ت کے اس عذاب اور عتاب کو دیکھ کر بھی جس کے غیر انسانی رویے نہیں بدلتے وہ انسان نہیں شیطان ہے۔ اسکی سوچ کرونا زدہ ہے ۔ اسے انفرادی اجتماعی اور عالمی سطح پر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

دنیا میں ہر ملک کرونا سے نجات کیلئے اپنے وسائل و حالات کے مطابق اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اگر وسائل ہی سے تدارک ممکن ہوتا تو امریکہ سے زیادہ کس کے پاس وسائل ہیں۔وہاں یہ وبا بے قابو ہوچکی،سب سے زیادہ مریض ہیں اور ہلاکتیں اٹلی سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ احتیاط حفاظت معالج اور میڈیسن ہی اکسیر ٹھہرتی تو شہزادہ چارلس متاثر نہ ہوتا۔ شایدقدرت کوعالمی سطح پر رویوںمیںتبدیلی مقصود ہے۔ ہرمذہب میں سرکش قوموں کے عذاب سے دوچار ہو کر مٹ جانے کے واقعات بتائے جاتے ہیں۔ آج بھی سرکشی کی سی سرکشی ہے! ظالم طاقتور‘ اور یہ زورآورہی غاصب ہے۔

ظلم کی تاریکی میں انصاف اور انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کو آزادی مل جاتی ہے کشمیر اور فلسطین میںانسانیت پون صدی سے بلک اور سسک رہی ہے۔ آج ایک " کُن" سے نئی دنیا جنم لے سکتی ہے۔ شاید کروناایک وعید ہو۔ اللہ کریم نے مسلمانوں کو کس طرح جھنجوڑا ہے‘ اللہ نے اپنے در اور گھر سے دور کر دیا۔ اقوام عالم کو لپیٹ میںلئے عتاب سے ہم محفوظ ہوسکیں گے یا نہیں ، اس سے علمائے کرام آگاہ کریں گے ، اللہ ہمیں اپنے گھر تک پہلے کی طرح جانے کے حالات ہی پیدا کر دے۔

بلاشبہ حکمرانوں کی توجہ کرونا کے تدارک پر ہے۔ عام آدمی بھی فکر میں ہے۔ کرونا نے لوگوں کو خون کے آنسو رلا دیا ،ناک میں دم کر دیا، کانوں سے دھواں نکلتا ہے۔ مگر ناگزیر معمولات جاری ہیں۔روح اور بدن کے ربط ہی کیلئے سہی لوگ کھا پی رہے ہیں، سانس لیتے ہیں سوتے ہیں۔ کشمیر ایشو بھی ہمارے لئے لائف لائن ہے۔ اسے اپنے خیالوں میں بسانا، سانسوں کی رواں رکھنا ہے۔ کرونا میں ہم ایسے اُلجھے کشمیر کاز صرف نظر ہو رہا ہے۔ ہم گھر بیٹھے کشمیر کشمیر کرتے رہیں یہ بے سود ہے۔ اسے حکومت نے ہر صورت زندہ رکھنا ہے۔ کرونا کی سنگینی کے باوجود مودی سرکار کی کشمیر میں بربریت جاری ہے۔ پاکستان کو بھی بہر صورت بدستور دباؤ جاری ہی نہیں رکھنا بڑھانا بھی ہے۔کشمیریوں پر آٹھ ماہ سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کی سفاکیت جاری ہے۔ کرفیو میں زندہ رہنا کتنا مشکل ہے۔ اس کا اندازہ پوری دنیا کرونا سے محفوظ رہنے کیلئے کہیں سیلف امپوزڈ کرفیو اور کہیں لاک ڈاؤن سے ضرور ہو گیا ۔ بھارت کشمیر اور اسرائیل فلسطین پر جبراً مسلط ہے۔ ایسے مقبوضات دنیا میں اور بھی ہونگے جن کا غاصبوں کو علم ہے۔ ظالم پنجہ استبداد ہٹالیں تو قدرت مہربان ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری انتونیو گوئترس کے بیان ’’وقت آ گیا ہے دنیا بے مقصد جنگیں ختم کر کے کرونا کیخلاف لڑے‘‘ کو غاصب قوتیں گوئترس کی پکار کو امت کی آواز سمجھ لیں۔

پاکستان میں کرونا کی تباہ کاریاں ابھی زیادہ نہیں ہیں۔ اٹلی میں لاشوں کو ٹرکوں میں لا کر آبادیوں سے دور جلا دیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک میں جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ جنازے کیسے ہوتے ہونگے کون شریک ہوتا ہو گا؟حکومت پاکستان اور صوبے کرونا کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہر صورت وباء سے بچنا اور شہریوں کوبچانا چاہتے ہیں۔ حکومت دستیاب وسائل اور حالات کیمطابق مناسب اقدامات کر رہی ہے۔ اسے تنقید کے بجائے اچھی تجاویز کی ضرورت ہے۔ سیاست کاروں کا سیاست چمکانے سے بھی گریز لازم ہے۔ ہم عوام کو بہرحال احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور لاک ڈائون کی پابندی کرنا ہوگی۔ بے شک زندگی اور موت پر قدرت کاملہ قادر ہے مگر احتیاط لازم ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں جو رات قبر میں آنی ہے‘ آکر رہے گی۔ موت ایک اٹل حقیقت مگر خودکشی حرام ہے۔ جو"موت کا دن مقرر ہے"کہہ کر احتیاط سے انکار کرتے ہیں‘ وہ چلتی ٹریفک میں ادھر اُدھر دیکھے بغیر سڑک عبور کیا کریں۔ چھت سے سیڑھیوں کے بجائے پیرا ٹروپر بن کر نیچے آیاکریں۔ تین چار دوست ٹیبل کے گرد بیٹھے بڑے جذباتی ہوکر لاک ڈائون پر حکومت کو کوستے ہوئے کہہ رہے تھے۔"بزدل ہیں جو کرونا سے ڈرتے ہیں۔ موت کو کوئی نہیں روک سکتا"۔ اسی دوران ٹیبل کو معاً کسی کا پائوں لگا۔ میز دفعتاً لرزا ایک سورمے نے کہہ دیا۔زلزلہ آگیا تو سارے باہر کی طرف دوڑ پڑے"۔عقب سے ویٹر کی آواز آئی۔" سر موت سے کیا ڈرنا‘‘ لاک ڈائون سے کچھ لوگ گھبرا اور تھک گئے۔ کہتے ہیں بیٹھ بیٹھ کر‘ لیٹ لیٹ کر کمر درد ہونے لگی۔ وہ اٹھیں‘ سڑک پر جائیں۔ پولیس کے پاس کمر درد کا علاج ہے۔

کچھ لوگ بھوک اور کچھ کھاکھاکر مر جاتے ہیں۔ موخر الذکر کرفیو پر زور دے رہے ہیں۔ ہم تو معاشی طور پر لاک ڈائون کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ کرایہ دارکیسے کرایہ دے گا۔ مالک مکان جس کی گزر اوقات ہی کرائے پر ہے اس کی روٹی کیسے چلے گی۔ کرفیو میں اس حد کی سختی ہوتی ہے۔ سخت گرمی میں شہری دروازے کے باہر منجی پر بیٹھ گیا ۔پولیس نے چھاپہ مارا اور تھانے جانے کو کہا۔ شہری نے منجی اندر رکھنے کی درخواست کی۔ سپاہی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھٹکھٹایا ، شہری کو باہر آنے کو کہا۔ اندر سے آواز آئی باہر کیوں آئوں کرفیو لگا ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں