مجھے کیوں نکالا

2017 ,اگست 30



مروان بن رضوان اپنی گفتگو کے دوران لمحہ بھر کیلئے رُکے‘ پہلے ایک اور صاحب کی طرف روئے سخن پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا“۔ سوا ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے دوران مروان نے شرکائے مجلس کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئیے۔ انکی گفتگو ایک بہترین ڈپلومیٹ اور سفارتکار کی تھی۔ نپی تلی اور احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے۔ قطر اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات پر بالخصوص بات ہوتی رہی۔ ان دنوں قطر کےخلاف سعودی عرب نے متعدد ممالک کے ساتھ مل کر اس کا سخت بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ مروان بن رضوان سعودی عرب کے قائم مقام سفیر بنا کے اسلام آباد بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے لاہور کے صحافیوں کے ساتھ ایک نشست رکھنے کا پروگرام بنایا۔ حبیب اللہ سلفی اس نشست کے کوآرڈی نیٹر تھے۔ انہوں نے اپنی دانست میں جسے سینئر کالم نگار اور صحافی سمجھا دعوت دیدی۔ مجیب الرحمن‘ سعید آسی‘ رﺅف طاہر‘ نوید چودھری‘ یٰسین وٹو‘ مزمل سہروردی‘ عمار چودھری‘ عرفان اطہر قاضی سعودی عرب سے آئے مہمان کے لاہور میں مہمان تھے۔ میرے سوا تمام احباب سینئر کالم نویس اور صحافی تھے۔ مجلس خوب رہی۔ ویسے بھی محفل میں جناب مجیب الرحمن شامی ہوں تو اس کا معتبر نہ ٹھہرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ہی فرمایا تھا کہ سعودی عرب پاکستانی صحافیوں کو اہلیہ سمیت حج کیلئے بلائے تو مناسب ہے۔ انکو دعوت دی گئی تھی شاید وہ اکیلے نہیں گئے تھے۔

ڈیڑھ گھنٹے کے انٹرایکشن کے بعد کھانے کیلئے پی سی کے بڑے ڈائننگ ہال میں ہم لوگ چلے گئے۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو جناب مروان بن رضوان کے ساتھ گروپ فوٹو کےلئے ڈائننگ ہال سے نکلتے ہوئے میں ان سے دو آدمیوں کے پیچھے تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انکے کندھے پر رکھا تو وہ چلتے چلتے رُکے اور میری طرف متوجہ ہوئے۔ میں نے کہا کہ ”میں ہلکے پھلکے انداز میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔“ انہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ یہ یکم جولائی کا دن تھا۔ اس دن محترمہ مریم نواز کا اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا تھا۔ ”عرش والے کا فیصلہ چلے گا“۔ یہ وہ دن تھے جب میاں نوازشریف کے بیٹوں حسن اور حسین کو بار بار جے آئی ٹی میں بلایا جارہا تھا۔وزیراعظم میاں نوازشریف خود او رمسلم لیگ ن کے اکابرین جے آئی ٹی پر گرج اور برس رہے تھے۔ اکثر شرکاءکا خیال تھا کہ میاں نوازشریف کے سزا سے بچنے کا امکان نہیں ہے تاہم ”جیالے“ جلال میں جے آئی ٹی اور عدلیہ پر ریمارکس بھی ”کس“ رہے تھے۔

میرے سوال کہ ”آج سعودی عرب کے گہرے دوست وزیراعظم نوازشریف سخت مشکل میں ہیں۔ سعودی عرب ان کو بچانے کیلئے کیا کررہا ہے؟“ مروان نے سوال کی صورت میں جواب دیا کسی بھی ملک کیلئے کیا دوسرا ملک اہم ہوتا ہے یا شخصیات؟ یہ بھی ان کا باقی دو اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کی طرح ڈپلومیٹک جواب تھا۔ اڑھائی گھنٹے گفتگو اس لئے ہوگئی کہ کھانے کی میز پر بھی بات ہوتی رہی۔ اس جواب کے بعد وہ آگے بڑھ گئے اور دو قدم چلنے کے بعد پھر مڑے اس دوران مزمل سہروردی درمیان میں تھے۔ سعودی سفیر کے اب چہرے پر کوئی خوشگوار تاثرات نہیں تھے۔ انہوں نے جو کہا وہ آف دی ریکارڈ تھا اور نہ ہی ڈپلومیٹک انداز اظہار تھا۔” اب نوازشریف سعودی عرب نہیں مدد کیلئے قطر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔“ اس سے پاک سعودی عرب تعلقات میں کشیدگی میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔ جو بات سعودی سفیر نے آخری لمحات میں کی وہ کئی سینئرز نے سنی مگر احتیاطاً کسی نے بھی اپنے کالم میں اس کا تذکرہ نہ کیا۔ اب مروان سعودی عرب لوٹ چکے ہیں۔ فیاضی عربوں کے اوصاف میں سے اہم ہے مگر وہ اپنے ساتھ بے وفائی کو نہیں بھولتے دھوکہ دہی تو انہیں آمادہ انتقام کردیتی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جو میاں نوازشریف کو جہنم زار جیل سے نکال کر جنت نشاں سرور پیلس لے گیا۔

اللہ رب العزت نے ایک بار پھر عزت سے نوازا، تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے۔ سعودی عرب کے ساتھ خاندانی مراسم مضبوط تر ہوگئے تھے۔ ایک موقع پر سعودی عرب نے انہی تعلقات کے پیش نظر ڈیڑھ ارب ڈالر گفٹ کردئیے۔“ سعودی عرب پر کڑا وقت آیا۔یمن جنگ شروع ہوئی تو وزیراعظم نوازشریف نے اگلے پچھلے قرض چکانے اور احسانات اتارنے کا فیصلہ کیا۔ شاہ سلمان کو فون کرکے یمن کیخلاف جنگ میں اپنی فوج بھجوانے کی پیشکش کی۔ سعودی شاہی خاندان اپنے گہرے دوست کی پیشکش پر بڑا مسرور و مطمئن تھا۔ اچانک مولانا فضل الرحمن گویا ہوئے کہ ایسا فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ زرداری کے کان بھی کسی نے بھر دئیے۔ انہوں نے ایک اے پی سی بلالی جس میں زرداری اور مولانا کی ہم خیال چند ننھی منی پارٹیاں شامل ہوئیں ۔ حکومت نے انکے مطالبے پر پارلیمان کا اجلاس بلایا جس نے سعودی عرب فوج بھجوانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ میاں نوازشریف کے بھارتی ہم بزنس سٹیل ٹائیکون سجن جندال کلبھوشن کو چھڑانے پاکستان آکر وزیراعظم کے مہمان خاص بنے تو مبینہ طور پر جندال کو معاملہ عالمی عدالت لے جانے کا مشورہ دیا گیا۔ یہی فنکاری سعودی عرب کی نظر میں مولانا فضل الرحمن سے کرائی گئی۔

میاں نوازشریف کو اپنی پیشکش پرمضبوط قدموں کے ساتھ کھڑا رہنا چاہیے تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ خاندانی مراسم کا تقاضہ تھا کہ فوج بھجوانے سے قاصر ہونے پر استعفیٰ دیکر گھر چلے جاتے تو وہ وقار‘ ساکھ‘ اعتماد اور اعتبار کے اعلیٰ مقام پر ہوتے۔ مولانا فضل الرحمن کی تحریک پر پارلیمنٹ نے سعودی عرب فوج بھجوانے سے انکار کیا تو وزیراعظم نوازشریف نے نہ صرف ان کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ برقرار رکھا بلکہ مزید دو وزارتیں بھی ان پر نچھاور کردیں اور پھر وزیراعظم نوازشریف مسلم امہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے آرمی چیف جنرل راحیل کو لے کر سعودی عرب کی ایران سے صلح کرانے چل پڑے۔ عربوں کی روایتی مہمان نوازی کو اپنی پذیرائی سمجھتے رہے، سعودی عرب کے کرب اور غصے کو نہ بھانپ سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خاقان عباسی سعودی عرب گئے تو سعودی عرب نے آئینہ دکھایا۔ نواز شریف کے نیب کیسز میں نرمی، نئے این آر او،اور بیرون ملک جانے سمیت دیگر معاملات میں سعودی عرب سے مدد کی درخواست کی۔سعودی فرمانروا اور ولی عہد نے سرد مہری کا رویہ اختیار کیا۔ سعودی حکمران یمن، قطر اور ایران کے ساتھ معاملات میںبھی نواز شریف کی طرف سے ساتھ دینے کے وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے نالاں ہیں جبکہ سابق جنرل (ر) راحیل شریف کے حوالے سے منفی پراپیگنڈہ بھی بے اعتمادی کا سبب بنا۔

خود اپنا رویہ بھی ”منکسرالمزاجی“ کی عمدہ اور عمومی مثال ہے۔ ایک بار لاہور سے چند صحافیوں کو اسلام آباد بلوایا ۔جہاز میں ایک صحافی نے کہہ دیا کہ حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ یہ خبر ان سینئر صحافیوں کے وزیراعظم ہاﺅس پہنچنے سے قبل پہنچ چکی تھی۔ وزیراعظم مہمانوں سے ملے، اس صحافی سے ہاتھ ملاتے ہوئے انکی آمد کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی خدا حافظ کہہ دیا۔ اسکے بعد سے یہ کالم نگار انہیں چوراہے میں کھڑا کئے ہوئے ہیں۔ یہ نوے کی دہائی کی روداد ہے۔ اب ایک کالم نگار نے ”پارٹی از اوور“ کے عنوان سے کالم لکھا۔ اسے بھی وزیراعظم اپنے ساتھ تاجکستان لے گئے۔ جہاز میں انہیں آڑے ہاتھوں لیا جس کی روداد نواز رضا نے اپنے آرٹیکل میں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ کچھ لوگ میاں نوازشریف کے اندازِ حکمرانی کو شاہانہ قرار دیتے ہیں کچھ مغل بادشاہوں کے اطوار سے تعبیر کرتے ہیں مگر ایسا ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو پارٹی از اوور کالم لکھنے والے کو جہاز سے نیچے گرا دیتے مگر انہیں یہ سنائی کرنے پر ہی اکتفا کیا کہ پیسے آپ نے بھی بنائے ہیں۔

آج وہ جہاں جاتے ہیں ایک ہی سوال کرتے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ آخر کیوں نکالا۔ پھر نکالنے والوں کو تجویز یا مشورہ دیتے ہیں کہ مجھے نااہل قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ ساتھ ہی طاقت اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ توڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم عوام آج تک چلاتے رہے کہ احتساب صرف غریب کا ہوتا ہے ، بڑے لوگوں کا نہیں ہوتا۔ اب اگر وقت کے وزیراعظم کو حساب دینا پڑا ہے تو واویلا کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے غریب ہی کا حساب ہوتا رہنے دیں۔ امیر محفوظ رہیں بلکہ قانون ہی بنا دیا جائے تاکہ مقدمات کے تکلف کی ضرورت ہی نہ رہے۔ ”مجھے کیوں نکالا“ پر بڑے لطیفے بنے ہوئے ہیں بٹوے سے نوٹ نکالا تو وہ کہہ رہا تھا ”مجھے کیوں نکالا“ اسے واپس رکھا جاسکتا ہے۔ دودھ دہی سے مکھن نکل کر کہہ سکتا ہے ”مجھے کیوں نکالا“ اسکی پہلے والی شکل میں واپسی ناممکن ہے۔ میاں صاحب پر دیکھیں کیا منطبق ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں