بھارت کا سرِغرور۔۔۔پاکستانی جوڈیشل نظام

2019 ,ستمبر 16



وزیر اعظم نریندر مودی بڑے کروفر اور تکبر کے ساتھ خلائی تحقیق کے ادارے اسرو کے مرکز میں، اس ادارے کے سربراہ کے سیوان کے ساتھ چندریان ٹو کی خلائی گاڑی و کرم کے چاند پر اترنے کا براہ ِ راست منظر دیکھ رہے تھے۔ یہ نشریات پوری دنیا میں بھی دیکھی جا رہی تھیں۔ بھارتی چینلز اس پر بڑے پُرجوش اور جذبات کی رو میں زیادہ ہی بہہ کر اپنی کامیابی کے ڈنکے بجاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہذیان بھی بک رہے تھے۔ ’’دونوں ملک ایک دن آزاد ہوئے، بھارت چاند کی بلندیوں پر پہنچ گیاجبکہ پاکستان زمین کی پستیوں میں جا گرا۔ ہم چاند پر پہنچ سکتے ہیں، لاہور تو دو منٹ میں فتح کر لیں گے…‘‘ بھارتی میڈیا کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شدت پسند بھارتی حکمرانوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ذہنیت اور سوچ کا پَرتَو ہے۔ وزیر داخلہ راجناتھ اور آرمی چیف بپن راوت کے پاکستان کو سبق سکھانے کے رعونت آ گیں بیانات کی بھی سیاہی خشک نہیں ہوئی۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس اور اینکرز و تجزیہ نگاروں کے تبصروں سے لگتا تھا کہ چند ریان ٹو مشن انسانیت کی خدمت کیلئے نہیں پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے ہے۔

چندر یان ایک طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے چاند پر اترنا چاہتا تھامگر۔۔۔ اس کی لانچنگ کے موقع پر اس پروگرام کے سربراہ کے سیوان کا خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر شاید کسی کی توجہ نہیں تھی۔ ڈاکٹر سیوان نے کہا تھا ’’جب لینڈر کو چاند کے جنوبی قطب کی طرف پھینکا جائیگا تو سائنسدانوں کیلئے وہ 15 منٹ کا وقفہ خوف والا ہو گا جو لوگ اس وقت تک خلائی گاڑی کو کنٹرول کر رہے ہوں گے اس کے بعد سے اس وقفے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ حقیقی لینڈنگ خود کار ہو گی اور یہ اسی صورت میں محفوظ ہو گی اگر تمام چیزیں حسبِ توقع کام کر رہی ہونگی۔ بصورت دیگر لینڈر چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہو جائے گا۔‘‘

بھارت میں چندریان کی چاند پر لینڈنگ سے قبل ہی جشن شروع ہو چکا تھا۔ وہ 15 منٹ بھی شروع ہو چکے تھے جس دوران خلائی گاڑی خودکار سسٹم پر منتقل ہو چکی تھی۔ کے سیوان دم سادھے بیٹھے تھے اور پھر…؎

قسمت تو دیکھئے کہ ٹوٹی کہاں کمند

دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا

اِدھر رابطہ ختم ہوا اُدھر کے سیوان کے آنسو بہہ نکلے نو سو کروڑ ڈالر ’’کھوہ کھاتے‘‘ کئی سال کی محنت غارت اور مہارت سوالیہ نشان بن گئی۔اسرو اسپرو بن کر رہ گیا،اسپرو کا متبادل آج ڈسپرین کی صورت میں سامنے ہے۔ وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کے سیوان نے کیا تھا۔ اُن 15 منٹ کے آخری دو تین منٹ میں خلائی گاڑی تباہ ہو گئی ۔ سیوان نے ڈبدبائی آنکھوں اور بھرائی آواز میں مودی کو بتایا: مہاراج ! لینڈر تباہ ہو گیا، ہمارا مشن فلاپ ہو گیا۔ اس پر مودی کی رعونت ہوا ہو گئی۔ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ایک لمحے میں بھارت کے غرور کا سر چکنار ہو گیا۔ بھارتی چینلز پر حقیقت آشکار ہوئی تو صف ماتم بچھ گئی ۔ پاکستان کے خلاف پھر بھی زبانوں سے انگارے برستے رہے، زہر اگلا جاتا رہا۔ ایک اینکر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اس مشن کو آئی ایس آئی نے ناسا کے ساتھ مل کر ناکام بنایا ہے۔

بھارت کے غرور کا سر اس سے قبل بھی مالک کائنات کی طرف سے نیچا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کی تخلیق ایک معجزہ اور اس کے قیام کے بعد بھی معجزات رونما ہوتے رہے۔ 65ء میں بھارت نے پاکستان پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ لاہور پر قبضہ کرنا ان کی پلاننگ تھی، راستے خالی تھے۔ کوئی مزاحمت نہیں تھی مگر وہ اپنے مذموم مقصد میں ناکام رہے۔ اُڑی چھائونی مجاہدین نے جلا ڈالی۔ بھارت نے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے پاکستان کیخلاف سرجیکل سٹرائیک کی منصوبہ بندی کی۔ لائن آف کنٹرول کراس کرنے کی کوشش کے دوران پچاس فوجی جہنم واصل کر دئیے گئے۔ کل کی بات ہے پاکستان میں داخل ہو کر مدرسے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اپنے اندر کے خوف کے باعث بھارتی پائلٹ پے لوڈ جنگل میں گرا کر بھاگ نکلے۔ اس ’’آپریشن ‘‘ میں دو درخت گرے اور ایک کو امرا۔ اگلے روز پاکستانی شاہین اس احمق بنیے کو پاکستان گھیر لائے۔ دو جہاز مار گرائے، ایک کا پائلٹ آنجہانی دوسرے کا پاک سرزمین پر گرفتار ہوا۔؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی

فضائے بدر پیدا کرنے کے حوالے سے عدلیہ سمیت ہرادارے کا کردار رہا ہے اور پھر فرشتے قطار اندر قطار اترتے بھی دیکھے گئے ہیں،جس کی اوپر مثالیں دی گئی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ کئی خامیوں کجیوں اور کمیوں کے باوجود پاکستان کا جوڈیشل سسٹم فعال اور متحرک رہا ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ پاکستان کی عدلیہ نے انصاف کے معاشرے کے قیام کی حتی الوسع کوشش کی جو ہنوز جاری اور اب زیادہ ثمربار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا بطور چیف جسٹس نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر پُر مغزخطاب میرے سامنے ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ غیرمتوازی اور سیاسی انجینئرڈ احتساب کا بڑھتا ہوا تاثر ایک خطرناک سوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس کے اختیار کو آئندہ فل کورٹ میٹنگ میں ہمیشہ کیلئے حل کرلیا جائیگا۔ انکے بقول جو طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم پر ناخوش تھا آج وہی طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم نہ ہونے پر ناخوش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سووموٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔ انہوں مقدمات کی تعدادپر قابو پانے کے حوالے سے بھی تفصیلی بات کی جہاں ان کا خطاب دہرانے ضرورت نہیںہے۔

جسٹس کھوسہ Living Legend ہیں۔ انہیں اور انکے ساتھی ججوں کو میرٹ پر فیصلے کرتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑامگر انکے عزم وارادے میں سرِ مو فرق نہیں آیاایسے انجینئرڈ احتساب کا تاثر واقعی خطر ناک ہے۔ جسٹس کھوسہ کو عدلیہ کی کمانڈ کرنے کا مختصر وقت ملا تاہم انہوں نے اپنی اہلیت اور مہارت کے بل بوتے پر دہائیوں کا کام کر دکھایا۔ مقدمات کی تعداد کم ہو رہی ہے، جھوٹی گواہیوں مقدمات کی بے جا طوالت کیخلاف ان کے اقدامات ماضی کی کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہیں۔ ای کورٹس دنیا میں پہلی بار متعارف کرائی گئی ہیں۔ اس کا دائرہ کار ہائیکورٹس تک بڑھائے جانے سے بہت سے شہروں میں ہائیکورٹ کے بنچ بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسٹس کھوسہ نے عمر قید کی سزا کی وضاحت کیلئے بنچ تشکیل دیا ہے۔ عمر قید کے مجرم آدھی سزا کے بعد آزاد ہو کر ان جرائم کا پھر ارتکاب کرتے پائے گئے جن میں سزا ہوئی تھی۔ عمر قید دوسروں کیلئے تبھی عبرت کا سامان ہوگی جب اس پر اس کی روح اور ان الفاظ کے حقیقی معنوں کے مطابق عمل ہو گا۔ عمر قید یعنی پوری عمر کی قید زندگی کی آخری سانسیں بھی جیل میں۔ سو موٹو کے حوالے سے چیف جسٹس کا Concept Clear ہے۔ وہ اسے شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے تاہم اس کے استعمال میں نہایت محتاط ہیں۔ ماضی میں سوموٹو ملکی و قومی معاملات اور مفادات میں لیا جاتا رہا ہے تاہم ’’بعض حضرات‘‘ کی طرف سے اس کا بے جا اور بھیانک استعمال بھی ہوا۔ سوموٹو کے حوالے سے کمیٹی بن جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

مقدمات ایک طرف تیزی سے نمٹائے جاتے ہیں دوسری طرف اتنی ہی تیزی یا ان سے بھی زیادہ نئے آ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یونین کونسل یا بلدیاتی وارڈز کی سطح پر ثالثی کونسلیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ ان کا دائرہ کار تحصیل اور ضلع کی سطح پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب بھی لاکھوں مقدمات ہیں۔ ان سے ایک بار جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوئر کورٹس سے سپریم کورٹ تک 5 سال جج حضرات کی ریٹائرمنٹ کو آپشن قرار دیدیا جائے۔ کسی جج کی سنیارٹی کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے ضوابط کار طے کئے جا سکتے ہیں۔ دو تین سال قبل ریٹائر ہونیوالے ججز کی خدمات بھی عارضی طور پر مقدمات جلد نمٹانے کیلئے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میں نے دو تین سال قبل ریٹائر ہونیوالے ججز کی خدمات کی بات ہے۔ اس ضمن میں راقم نہیں آتا۔

متعلقہ خبریں