2020 ,جون 15
میاں شہبازشریف پوری احتیاط اور ایس او پیز پر عمل کرنے کے باوجود کرونا کی زد میں آ گئے۔ پاکستان میں کرونا کے تدارک کے لئے لاک ڈاؤن کیا گیا۔ بیرونی پروازیں بھی بند کر دی گئیں تو میاں نوازشریف نے شہباز شریف کو پاکستان آنیوالی آخری پرواز پکڑ کر پاکستان جانے کا حکم دیا۔ اُن کی نظر میں قوم کو ایسے نازک موقع پر شہبازشریف کی ضرورت تھی۔ ویسے تو میاں نوازشریف شہباز شریف سے عمر، مرتبے اور سیاسی قد کاٹھ میں بھی بڑے ہیں۔ ایسے موقع پر ان کی قوم کو زیادہ ضرورت تھی مگر شاید…لندن کی فضاؤں اور ہواؤں میں گزرنے والے ایک ایک دن کی زندگی پاکستانی جیلوں کی ہزارسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ لہٰذا وہیں قیام کیا۔ میاں شہبازشریف پاکستان چلے آئے۔ ان کا ایک مقصد تو کرونا کے تدارک میں کردار ادا کرنا تھا دوسرا کسی طرف سے ان کو وزیراعظم بنائے جانے کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔ اس اشارے سے میاں نوازشریف آگاہ تھے یا نہیں فی الحال تاریخ خاموش ہے۔ ان کے وژن کو گارڈ آف آنر پیش کیا جانا چاہیے۔ جنہوں نے ایسے بدترین حالات میں جب پوری دنیا کرونا کی بدبختیوں کی نذر ہو رہی تھی پاکستان میں وزیراعظم بدلنے کی تھیوری پر یقین کرلیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ فوج کی طرف سے دو صحافی ایسی پیشکش لے کر گئے تھے۔ کسی صحافتی ادارے کے مالک نے کبھی کہا تھا۔" اب حکومتیں ہماری مرضی سے بنا اور ٹوٹا کریں گی"۔ مگر ایسا کبھی ہوا تھا نہ ہوا ہے۔ ایسا پیغام بھی دو صحافیوں کا شاید خود ساختہ ہو جس سے ایک بار تومیاں صاحب کانوں تک راضی ہوگئے مگر اب خود کرونا کی زد میں آگئے ہیں۔ لندن میں رہتے تو شاید کرونا سے بھی بچے رہتے۔ پاکستان آئے تھے توسیاست سے گریز کرتے تو بھی کچھ نہ بگڑتا۔ لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کیلئے لائو لشکر کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت تھی۔تاہم اس کے بعد تو ٹیسٹ منفی آیا تھا مگر ڈیڑھ گھنٹے کیلئے نیب آفس گئے تھے شایدوہیں سے کرونا زدہ ہوگئے۔
میاں شہباز شریف صاحب کے پرزور اصرار پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ کرونا کے ڈر سے اجلاس میں خودشریک نہیں ہوئے۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کا اجلاس یہ کہہ کر بلانے پرمزید زور دیا تھا کہ ’’میں گارنٹی دیتا ہوں کسی کو کرونا نہیں ہوگا‘‘ اس کے بعد خود شاہد خاقان عباسی کا بھی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا اور دیگر بھی درجن بھر ارکان کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ٹیسٹ نہ کرانے والے نہ جانے کتنے مثبت ہوئے پڑے ہوں۔ جہاں ہمیں ایک وہ گارنٹی بھی یاد آگئی جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے وزیراعظم عمران خان سے میاں نوازشریف کے تین دن تک زندہ رہنے کی مانگی تھی ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی بھی گارنٹی نہیں دے سکتے تو فاضل عدالت نے میاں نوازشریف کو لندن علاج کی غرض سے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جناب اطہر من اللہ کی عدالت کی طرف سے آج بھی عوام کے بہترین مفاد کا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں چینی 70 روپے کلو بیچنے کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی سے روک دیا گیا ہے۔ چینی کی فی کلو لاگت شاید 60 روپے خود ملز والوں نے بتائی ہے۔ ان کو 70 میں بیچتے ہوئے بھی گھاٹانہ پڑجائے۔ہمارا موضوع کرونا ہے۔ اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ پاکستان میں اس کا گراف اوپر جارہا ہے۔ چین اٹلی اور جرمنی میں کرونا ختم ہوچکا ہے۔پتہ نہیں پاکستان میں صورتحال میں بہتری کب آئے گی؟۔ بہتری تو اب بھی موجود ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔ یہ کیا بات ہوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی؟
ہر روز کرونا سے سو لوگ موت کی لکیر پار کرجاتے ہیں، پانچ چھ ہزار کے ٹیسٹ مثبت آرہے ہیں، موت سے فرار ممکن نہیں ہے، احتیاط بہرحال لازم ہے۔ جس کو بھی کرونا ہوا ضروری نہیں وہ موت کے منہ میں چلا جائے، پاکستان میں کرونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہوچکی ہے۔ایسے بھی بہت سے ہیں جنہوں نے ٹیسٹ نہیں کرائے اور وہ اس کی زد میں آچکے ہیں۔ ان کی تعداد دگنی تگنی چوگنی ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی صحت یاب ہونے کی شرح بھی دیکھیں ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچاس ہزار لوگ کرونا سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اصل میں یہ تعداد ان اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے شاید دس لاکھ سے بھی زیادہ ہو یہ ان دیکھی بہتری ہے۔
ٹی وی اینکر عمران خان یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں انہوں نے دو تین روز قبل ایک وڈیو اپ لوڈ کی جس میں وہ کہتے ہیں، کرونا سے بچاؤ کے لئے ان کے گھرمیں ہر احتیاط کی گئی۔ شروع سے گھر سے کوئی فرد باہر نہیں گیا۔ عید پر شاپنگ بھی نہیں کی۔ گھر میں بھی کوئی مہمان نہیں آیا۔ وہ خود پروگرام کے لئے جاتے اور واپسی پر اوپر جا کر نہاتے پہلے والے کپڑے الگ رکھ کر دُھلے ہوئے پہن لیتے۔ اس کے باوجود والدہ اور بھابی سمیت 4 افراد کا کرونا مثبت آیا۔ خود ان میں بھی کرونا کی علامات پائی جاتی ہیں۔ بخار رہتا ہے۔تھکاوٹ ہو جاتی ، جسم درد کرتا ہے،سونگھنے اور چکھنے کی حس ختم ہوگئی۔ عمران خان کے گھر کے سب افراد سٹیبل ہیں۔وہ خود بھی روٹین میں کام کررہے ہیں۔ یہ اینکر کرونا کے حوالے سے ایکسپرٹ تو نہیں تاہم ان کی رائے ہے کہ کرونا اتنی احتیاط کے باوجود بھی لوگوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ یہ سب کو ہونا ہے۔ خداوند قدوس محفوظ رکھے۔
ہم نے دیکھا اور سنا کہ بہت سے لوگوں میں کرونا کی علامات نہیں تھیں مگر ٹیسٹ مثبت آیا۔ ان میں سندھ سے وزیر تعلیم سعید غنی اور وزیر ریلوے شیخ رشید بھی شامل ہیں اور یہ صحت یاب بھی ہو گئے۔ ضروری نہیں ہر وہ شخص جسے کرونا ہو اس میں کرونا کی علامات بھی پائی جائیں۔ کسی میں کوئی علامت نہیں ہوتی کسی میں کوئی ایک آدھ ہو سکتی ہے۔ بخار، کھانسی، زکام، جسم درد تھکاوٹ،سونگھنے چکھنے کی حس کا خاتمہ وغیرہ میں سے کوئی بھی علامت ہوسکتی ہے۔جن لوگوں کو کرونا کی علامات نہیں تھیں اور ان کے ٹیسٹ مثبت آئے اگر وہ ٹیسٹ نہ کراتے تو کیا ہوتا؟ کچھ بھی نہیں ہونا تھا ان کو پتہ بھی نہ چلتا اور کرونا خودبخود منفی ہو جاتا۔ ایسا ہو رہا ہے جس میں کرونا کی ایک بھی علامت پائی گئی اسے کرونا ہوا اور پھر ختم ہو گیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد پاکستان میں شاید لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں ہو۔ خدا اس وبا سے نجات عطا فرمائے۔ احتیاط بہرحال لازم ہے۔ پاکستان میں جلد گراف نیچے جاتے جاتے زیرو پر آنے کی امید اور دعا ہے۔