دریائے نیل کی سچی کہانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 23, 2022 | 20:23 شام

دریا نیل میں کشتی چلانے والے ایک ملاح کا بیان ہے کہ ایک دن میرے پاس پہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا تم اللّٰہ کے نام پر دریا کے پار اتار دو گے؟ میں نے کہا جی ضروردریا کے پار پہنچ کر وہ کشتی سے اترے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اگر میں تمہیں ایک امانت سونپوں تو کیا تم اسے قبول کروگے؟ میں نے جواب دیا جی حضور۔وہ مجھ سے کہنے لگے کہ کل میرے پاس ظہر کے وقت اس درخت کے پاس ملنا۔ وہاں تمہیں میری لاش ملے گی۔ مجھے غسل دینا اور لاش کے سرہانے جو کفن پڑا ہوگا وہ مجھے پہنا

کر اسی درخت کے پاس دفن کر دینا۔میرے کپڑے، عصا، اور مشک کو اپنے پاس رکھنا اور جو آدمی تم سے ان چیزوں کا سوال کرنے آئے اسے یہ تینوں چیزیں دے دینا۔
ملاح کا بیان ہے کہ مجھے یہ بات بھول گئی اور مجھے ظہر کی بجائے عصر کے قریب یاد آیا۔ میں اس جگہ کی طرف بھاگا اور واقعتاً وہاں ان بزرگ کی لاش پڑی تھی۔ میں نے وصیت کے مطابق انہیں غسل دیا، کفن پہنایا اور جنازہ تیار کیا۔ اس جگہ سے مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ جنازہ تیار ہوتے ہی اچانک ایک جمِ غفیر وہاں جمع ہوگیا اور میں نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ انہیں اسی درخت کے قریب دفن کر دیا اور گھر آکر سوگیا۔صبح ایک نوجوان جو ناچنے گانے والا تھا۔ میرے پاس آیا۔ اس نے نہایت باریک لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی تھی اور بغل میں ستار دبایا ہواتھا۔ میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے سلام کیا، میرے جواب دینے پر اس نے مجھے کہا کہ فلاں بن فلاں تم ہی ہو ؟ میں نے کہا جی ہاں میں ہی ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ پھر جو امانت میری تمہارے پاس ہے وہ مجھے دے دو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ تمہیں اس کی خبر کیسے ہوئی؟ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ مت پوچھیں۔ میرے اِصرار پر اس نے مجھ سے کہا کہ بھائی میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ میں ساری رات ایک شادی میں گاتا ناچتا رہا۔ فجر کے بعد میں نے گانا بجانا بند کیا اور جا کر سو گیا۔ سوتے ہوئے کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا اور کہا کہ اللہ کے وہ ولی وفات پاگئے ہیں اور اللہ نے تمہیں انکا قائم مقام چنا ہے۔ فلاں ملاح سے جاکر ان کے تبرکات وصول کر لو۔ میں نے وصیت کے مطابق وہ تینوں چیزیں اس کے سپرد کر دیں۔ چیزیں ہاتھ میں لیتے ہی اس پر انقلابی و جذباتی کیفیت طاری ہوگئی اور اس نے وہ باریک لباس اتار کر پھینک دیا اور مجھ سے کہا کہ اس کو جیسے چاہو صدقہ کر دو۔
 خود ان بزرگ کا لباس پہن کر اور عصا اور مشک لے کر چلا گیا۔ مجھے اس لڑکے کی خوش قسمتی اور اپنے نصیب پر رونا آگیا یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ میں روتے روتے سوگیا۔ رات کو خواب میں کوئی مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تم پر یہ گراں گزرا کہ ہم نے اپنے گنہگار بندے پر رحمت فرمائی اور اسے نیکی کی ترغیب دی۔ اے ملاح یہ میرا فضل ہے اور میں اپنا فضل جسے چاہتا ہوں عطا فرمادیتا ہوں۔