داتا دربار حاضری اور فاروق لینارڈکی کہانی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 12, 2021 | 18:09 شام

پاکستان میڈیا رائٹر کلب کے وفد کی طرف سے داتا دربار حاضری دی گئی ۔ وفد میں کلب کے چیئر مین افتخار خان ، وائس چیئر مین محمد شعیب مرزااور میرے سمیت ممبران ظفر اقبال ظفر، محمد ذیشان، عثمان حیدر اعوان شریک تھے۔واقعی یہ ایک روحانی حاضری تھی۔ روح پرور مناظر تھے۔ مزار کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک طرف لنگر تقسیم ہو رہا تھا دوسری طرفپاپوش رکھے جا رہے تھے۔یہاں کبھی افراتفری اور ہلہ گلہ ہوتا تھا۔ اب جوتوں کا کوئی کرایہ اور معاوضہ نہیں لیا جاتا ۔ لوگ بڑے سکون سے آرام سے پر امن طریقے سے جوتے جمع کروا رہے تھ
ے اور واپسی پر وصول کر رہے تھے۔ ہم لوگ مسجد سے ہوتے ہوئے دربار کی طرف گئے۔ ہمیں دربار کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہیں پر دربار کی انتظامیہ نے ہم لوگوں کی مزید عزت افرائی کرتے ہوئے تحفہ میں چادریں بھی عنایت فرمائیں۔اس جگہ ایک نگران تھا جس نے اپنا نام شہباز بتایا اور دوسرا وہاں پر ایک اور شخص بیٹھا تھا وہ مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا اور ہمارے ساتھ گفتگو بھی کرتا رہا۔کبھی کبھی رونے بھی لگ جاتا۔اس نے اپنا نام محمد آصف بتایااور کہا کہ وہ پی سی آر کا ممبر ہے۔ پی سی آر شاید مزار کی انتظامیہ کمیٹی ہے۔ داتا صاحب کے حضور اس حاضری کے دوران میں فاروق احمد لینارڈانگلستانی کی قبر بھی دیکھنا چاہتا تھا۔ محمد آصف نے پوچھنے پر بتایا کہ قبربیس منٹ (تہہ خانے) میں ہے۔ ہم لوگ وہاں بھی گئے۔اس مقام پر برابر برابر دو قبریں ہیں ۔ ایک کے کتبے پر عنایت اللہ خان (آئی سی ایس) لکھا تھا۔ ان کی تاریخ وفات1979ءتحریر کی گئی تھی۔ ان کو اس جگہ کیوں دفن کیا گیا اس بارے میں کچھ نہیں لکھا تھا۔دوسری قبر کے مکین کی داستان عجیب ہے۔اس کی قبر کے کتبے پر فاروق احمد لینارڈ انگلستانی لکھا ہوا ہے۔اس کا بنیادی تعلق لندن سے ہے۔ وہاںوہ مبلغینِ اسلام کی ترغیب پر مسلمان ہو گیا۔ اس کا نام لینارڈ تھا۔مسلمان ہونے پر اس کا اسلامی نام فاروق احمد رکھا گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے قرآن پاک کا مطالعہ شروع کیا۔ اس میں حضرت سلمانؑ کا واقعہ ہے۔جس کا مفہوم یوں ہے:۔ملکہ سبا ''بلقیس'' کا تختِ شاہی اَسّی گز لمبا اور چالیس گز چوڑا تھا، یہ سونے چاندی اور طرح طرح کے جواہرات اور موتیوں سے آراستہ تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور اُس کے ہدایا و تحائف کو ٹھکرا دیا اور اُس کو یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ مسلمان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہوجائے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے دربار میں آجائے چنانچہ آپ نے اپنے دربار میں درباریوں سے یہ فرمایا:۔(النمل): اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں۔ ایک بڑا جن بولا میں وہ تخت حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔جنّ کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجائے۔ یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت ''آصف بن برخیا جو اسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: میں آپکے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔چنانچہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تخت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا۔تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواءہے سب خوبیوں والا ہے۔ اب آجائیں فاروق احمد لینارڈ کی طرف۔ اس نے یہ واقعہ پڑھا تو حیران ہوا کہ کیسے ایک شخص اتنی کم مدت میں سیکڑوں میل دور سے تخت لا سکتا ہے۔ یہ سوال اس نے مبلغوں سے کیا جس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ ان مبلغین ہی کی دعوت پر شاید وہ اس علاقے میں یعنی لاہور آیا تو داتا دربار کے سامنے سے گزر نے کا اتفاق ہوا۔لوگوں کو در جوق مزار کی طرف جاتے دیکھا تو اسے خود بھی اشتیاق ہوا۔ سامنے ایک دربان یا نگران بیٹھا تھا۔اس نےزائرمہمان کے ساتھ ہاتھ ملایا حال احوال پوچھا۔ اسی دوران مہمانداری کے طور پر پوچھا کیا کھائے پیئے گا۔ فاروقاحمد لینارڈ نے چائے پینے کی خواہش کی تو نگران نے مزید پوچھااور کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس نے کہا ہاں ہے۔ میں اس جستجو میں ہوں کہ ملکہ بلقیس کا تخت کیسے ایک لمحے میں حضرت سلمان کے دربار میں پہنچا تو اس پرنگران نے کہا۔”ایسے “ یہ کہتے ہوئے اس نے ہاتھ اپنے کندھے تک اُٹھاتے ہوئے اس کے سامنے کردیا۔اب اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔انگریز نے کپ تھاما۔اس میں گرما گرم چائے تھی جس سے بھاپ اُٹھ رہی تھی۔کپ تھامتے ہوئے اس غور سے دیکھا اور مہمان بے ہوش ہو کر گر گیا۔ ہوش میں آیا تو بتایا کہ یہ کپ تو میرے گھر میں تھا۔لندن سے کسی طرح ایک لمحے میں لاہور پہنچ گیا۔ اس واقعہ کے بعد فاروق احمد لینارڈ یہیں اسی دربار کا ہو کر رہ گیا۔کتبے پر فاروق احمد لینارڈ انگلستانی کی پیدائش 28 فروری 1913ءکندہ ہے۔ستمبر 1930ءکو مشرف با سلام ہوا اور 13فروری 1930 ءداعی¿ اجل کو لبیک کہدیا۔ گنج بخشِ فیض عالم مظہرِ نورِ خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما