جنگ ستمبر کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام

لاہور(تہذین طاہر): 6ستمبر 1965ء کو ہمارے اذلی دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر تین اطراف سے حملہ کیا۔ غیر اعلانیہ حملے کا مقصد واضح تھا کہ دشمن ہمارے وجود پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس بڑی غیر اعلانیہ یلغار کے سامنے کھڑا ہو سکے لیکن دشمن کو شاید خبر نہیں تھی کہ وطن کی حفاظت کی قسم کھانے والے کبھی سویا نہیں کرتے۔ یہی وہ وقت تھا جب سرفروشان وطن سر پر کفن باندھے نعرے تکبیرکی صدائیں بلند کرتے نکلے اور دشمن کے سامنے فولاد کی دیوار کی طرح سینہ سپر ہوگئے۔ مجاہدین وطن دیوانہ وار لڑے کچھ شہید ہو کر امر ہو گئے اور کچھ غازی رہ کر سرخرو ٹھہرے لیکن دشمن کو اپنی سرحد وں پر تقدس پامال کرنے کی پاداش میں دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ میں پاکستان کا جوش وجذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ، صرف ہمارے فوجی جوانوں نے ہی نہیں بلکہ ہماری قوم نے بھی لازوال حوصلوں اور بے خوف جذبوں کی تاریخ رقم کی۔ 6ستمبر کو ہونے والا معرکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا امتحان تھا۔ جس میں سرخرو ہو کر قوم نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے سرحدی محافظوں کے ساتھ ہیں۔ قوم میں پایا جانے والا اتحاد اور شہریوں کا عزم لاہور سیالکوٹ اور سرگودھا میں لہراتے ہوئے ’’ہلال استقلال‘‘ سے عیاں ہوتا تھا۔ جنگ کا ایک محاذ ہمارے ادیبوں، شاعروں اور گلوکاروں نے سنبھال ااور ولولہ انگیز ترانے اور نعرے تخلیق کئے جو نا صرف قوم کے جذبات کے ترجمان تھے بلکہ میدان جنگ میں مصروف کارعسا کر پاکستان کے جوش اور ولولے کی ضمانت بھی تھے۔ رئیس امروہوی کا لکھا ہوا ملی نغمہ ’’خطۂ لاہور تیرے جانثاروںکو سلام‘‘جب مہدی حسن کی آواز میں ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہوا تو اس نے قوم اور افواج پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔ 6ستمبر کی جنگ میں پاک فوج کی لازوال قربانیوں کا ذکر بی آربی نہر کے معرکے کے شہید ہونے والے میجر عزیر بھٹی کے بغیر ادھورا سمجھا جائے گا۔ گونڈی بارڈر سے بی آربی نہر کا فاصلہ ایک کلو میٹر تھا۔ دشمن نے یہ فاصلہ منٹوں میں طے کیا اور پاکستان کے دل لاہور شہر پر حملہ آور ہوگیا۔اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے دشمن بھاری توپ خانہ لاتعداد ٹینکوں اور ایک ڈویژن فوج کے ساتھ آگے بڑھا۔ دشمن کے اس بڑے حملے کو میجر عزیر بھٹی اور اس کے ڈیڑھ سو ساتھیوں نے بڑی بہادری اور بہادری سے روکا۔ میجر عزیر بھٹی مسلسل 6دنوں تک دشمنوں سے لڑتے رہے ان 6دنوں میں ایک لمحے کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور بالا آخر جام شہادت نوش کرتے ہوئے امرہوگئے۔
6ستمبر کی جنگ میں ہمارے شاہینوں نے بھی جو کارنامے سرانجام دیئے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ ہمارے شاہینوں نے ایسی جنگ لڑی کہ دشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ جنگ کے پہلے ہی دن شاہینوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ پٹھان کوٹ ‘ ہلواڑہ‘آدم پور‘جام نگر اور دیگر ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا اور دشمن کے 22 طیارے تباہ کر دیئے اس کے بعد جالندھر، ممبئی، کلکتہ کے ہوائی اڈوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں دشمن کے 31مزید طیارے تباہ کئے گئے۔ اس جنگ میں شاہینوں نے عزم وہمت کی ایسی لازوال داستانیں رقم کی ہیں جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے شاہینوں نے دشمن کی ہوائی فوج کو مکمل طور پر اپاہج بنا دیا تو یہ غلط نہ ہوگا۔ فضائی جنگ میں دشمن کے کل 129 لڑاکا جنگی طیاروں کو تباہ کیا گیا جبکہ پاکستان کے صرف 19 طیاروں کو نقصان پہنچا۔ ایم ایم عالم نے پاک فضائیہ کی تاریخ رقم کی ۔ان کے ہاتھوں مار گرائے جانے والے بھارتی طیاروں میں سے چار طیارے پہلے 30 سیکنڈ میں گرائے گئے۔ 17 روزہ جنگ میں ایم ایم عالم نے مجموعی طور پر دشمن کے 9 طیارے مار گرائے اور ایک طیارے کو نقصان پہنچایا۔ ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ جنگی ہوا بازی کی عالمی تاریخ میںمعجزہ تصورکیا جاتا ہے۔
عقابوں کے تسلط پر فضائیںفخر کرتی ہیں
خودی کے رازداروں پردعائیںفخر کرتی ہیں
وطن سے جن کے بیٹے پیدا ہوںمحمود عالم سے
وہ دھرتی سر اٹھاتی ہے وہ مائیں فخر کرتی ہیں
چونڈہ کے محاز پر ٹینکوں کی تاریخ کی دوسری جنگ لڑی گئی۔ دشمن کا ایک منصوبہ یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ کے راستے ڈسکہ اور گوجرانوالہ پر قبضہ کرکے سپلائی لائن کاٹ دی جائے خود کو فخرہند کہلوانے والے فرسٹ آرمڈ ڈویژن کے ٹینک بدمست ہاتھیوں کی طرح جب آگے بڑھے تو ہمارے شیر جوانوں نے قربانیوں کی وہ داستان رقم کی کہ سورج بھی اگر دیکھتا تو رشک کرتا ہوگا۔ شیر جوان ایک ایک کر کے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھتے اور بھارتی ٹینکوں کے ساتھ ٹکراتے گئے اور چونڈہ کو بھارتی ٹینکوںکا قبرستاں بنادیا۔
جنگوں کی تاریخ گواہ ہے جنگ زدہ علاقوں میں آبادی گھٹنا شروع ہو جاتی ہے اور لوگ نقل مکانی کرجاتے ہیں مگر 6 ستمبر کی اس تاریخی جنگ میں لاہور جہاں کے حالات سب سے زیادہ خراب تھے وہاں لوگوں کی آبادی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی تھی۔ جونہی فضا میں زرہ سی گڑگڑاہٹ ہوتی لوگ چھتوں پر چڑھ جاتے اور دشمن کے جہازوں کو جوتے لہراتے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک پوری قوم اس قدر یکجا تھی کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں تھا۔ فوجی افسر التجائیں کرتے رہ گئے کہ جب آپ کی ضرورت ہوگی آپ کو بلا لیں گے لیکن عوام تھے کہ ان کے دلوں میں وطن پر مر مٹنے کا جذبہ موجزن تھا۔