ذیابیطس اور ہومیوپیتھک ....ڈاکٹرسلیم اختر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 05, 2016 | 10:32 صبح

لبلبہ انسانی جسم کا ایک اہم عضو ہے‘ یہ شکم میں بائیں جانب جگر کے قریب سینے کے نیچے واقع ہوتا ہے اور چھوٹی آنت اور پتے سے منسلک ہوتا ہے۔ بناوٹ کے اعتبار سے یہ بڑی مچھلی کی مانند ہوتا ہے۔ یہ 17.7 سینٹی میٹر (تقریباً سات انچ) لمبا اور 3.8 سینٹی میٹر (تقریباً ڈیڑھ انچ) چوڑا ہوتا ہے اس کا وزن تقریباً 98 گرام ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں ہر عضو کی طرح لبلبے کا بھی اہم کردار ہوتا ہے‘ اسکے اندر بافتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں‘ جو انسولین بناتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے انسولین کی کمی ہو جائے تو ذیابیطس کا مرض
لاحق ہو جاتا ہے۔ انسولین خون میں شکر کی مقدار کم کرتی ہے جبکہ لبلبہ میں تیار ہونے والا ہارمون گلوکاگون (Glucagon) خون میں شکر کم ہو جانے کی صورت میں اسکی مقدار کو بڑھاتا ہے۔ یہ ہارمون لبلبہ کے آئیلٹس آف لینگرہانز کے الفا خلیوں میں پیدا ہوتا ہے اور گلائیکوجن کو گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے اور فاقے کی حالت میں شکر کو مزید کم ہونے سے روکتا ہے۔ لبلبے میں دو قسم کی رطوبتیں تیار ہوتی ہیں‘ ایک رس ہاضم خمیر ہوتا ہے‘ جو پروٹین‘ نشاستے اور چکنائیوں کے ہضم میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لبلبے میں تقریباً دس لاکھ خلیات ہوتے ہیں جو گچھے کی شکل میں ہوتے ہیں‘ انہیں لینگرہانز کے جزیرے (Langerhans Islets) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاص رس (Juice) تیار کرتے ہیں جو انسولین کہلاتا ہے۔ یہ رس نالی کے بغیر ہی براہ راست خون میں شامل ہو جاتا ہے‘ اگر یہ رس کم مقدار میں پیدا ہو تو خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے‘ جو پیشاب میں شامل ہو جاتی ہے۔ لبلبہ کی سوزش جو حاد اور مزمن ہر دو نوعیت کی ہو سکتی ہے‘ اسے ایک عام بیماری سمجھا جاتا ہے۔ یہ مرض عموماً اس وقت لاحق ہوتا ہے جب لبلبہ سے خارج ہونے والے ہاضمے کے ہارمونز خوراک پر عمل کرنے کے بجائے لبلبہ پر ہی عمل شروع کر دیتے ہیں جس سے لبلہ اپنے دیگر افعال انجام دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس عمل سے لبلبہ کے خلیات سوزش زدہ ہو جاتے ہیں‘ جس سے ذیابیطس کا مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد جو حد سے زیادہ شراب نوشی کرتے ہیں‘ وہ اس مرض میں آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سے لبلبہ کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ پتہ کی پتھری یا دیگر بیماریاں‘ لبلبے کے مقام پر چوٹ لگنا‘ مختلف قسم کی ادویات‘ خون میں کولیسٹرول کی زیادتی‘ بالخصوص ٹرائی گلیسرائیڈ اور وراثتی وجوہات عموماً اس عارضے کا سبب بنتی ہیں۔ اسکے علاوہ اس مرض کو پیدا کرنے میں کیمیائی عمل‘ بیکٹریا کا حملہ‘ اپنڈکس کا پھٹ جانا‘ جگر کے پھوڑے کا رسنا‘ فیلوپین ٹیوب کی سوزش‘ پیٹ کی رسولی سے مادہ کا اخراج‘ کھانے میں بے تحاشہ مرچ مسالے کا استعمال اس بیماری کی اہم وجوہات بنتی ہیں۔ سفید چینی ذیابیطس کے مرض کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا زیادہ استعمال لبلبہ اور جگر کیلئے انتہائی مضر ہے‘اس میں مٹھاس کے علاوہ کوئی حیاتین ‘ ریشہ (Fibre) اور معدنی نمک نہیں ہوتا کیونکہ سفید چینی کو جب تیار کیا جاتا ہے تو اس سے تمام غذائی اجزاءالگ ہو جاتے ہیں اور اس میں مٹھاس کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔اسکے زیادہ استعمال سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ جن میں چند ایک کے بارے میں درج ذیل ہیں۔ ٭ سفید چینی کے زیادہ استعمال سے لبلبہ کے افعال میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہاضمے کے مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ ذیابیطس جیسا مہلک مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ٭ زیادہ چینی استعمال کرنے سے شکر کی کمی کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے شکر کی طلب بڑھ جاتی ہے جسے پورا کرنے کیلئے چینی کا استعمال وافر مقدار میں کیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کے خون میں شکر کی مقدار کم اور بڑھتی رہتی ہے‘ اسکی وجہ سے انہیں تھکاوٹ‘ لرزہ اور انکے دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے‘ حافظہ کمزور ہو جاتا ہے اور ایسے افراد میں دماغ کو ایک جگہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے‘ جذباتی ناہمواری جیسے مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں۔ ٭ سفید چینی کے زیادہ استعمال سے جسم میں چربی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور عضلات گھلنے لگتے ہیں۔ قلب اور شریانوں کی تکالیف لاحق ہو جاتی ہیں‘ رگیں تنگ ہو جاتی ہیں اور وقت سے پہلے بڑھاپا طاری ہونے لگتا ہے۔ ٭ جسم میں وٹامن بی1 کی کمی ہو جاتی ہے کیونکہ چینی کو ہضم کرنے میں اس وٹامن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٭ اس سے دل کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے‘ کیونکہ وٹامن بی1 کی کمی پیدا ہونے کی صورت میں دل کے پٹھوں میں انحطاط پیدا ہو جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے دل کے خانے کمزور ہو کر خون کو ٹھیک طرح سے پمپ نہیں کر پاتے جو بالآخر ہارٹ اٹیک کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ٭ اضافی شوگر جسم میں گلائیکوجن کی شکل میں دخیرہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں ایک خاص مقدار ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو ضرورت کے وقت جسم کو مہیا کی جاتی ہے‘ جو شکر بچ جاتی ہے‘ وہ چربی کی صورت میں ذخیرہ ہونے لگتی ہے جو مضر صحت ہوتی ہے۔ ٭ زیادہ چینی خون میں تیزابیت کی مقدار بڑھا دیتی ہے کیونکہ چینی ایک تیزابی غذا ہے‘ لہٰذا تیزابیت سے متعلقہ امراض میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس سے پیدا ہونےوالی تیزابیت سے لبلبہ اپنے افعال ٹھیک طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتا۔ ٭ چینی میں کسی قسم کا فائبر (ریشہ) نہیں پایا جاتا‘ اس لئے یہ نظام ہضم کے امراض کا باعث بنتی ہے اور قبض جیسے عارضہ عموماً دامن گیر رہتا ہے۔ ٭ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چینی کی زیادتی یورک ایسڈ‘ گٹھیا اور ہائی بلڈپریشر کو جنم دیتی ہے جو انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ٭دانتوں میں کیڑا اور مسوڑوں کے کئی امراض بھی زیاد ہ چینی استعمال کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ذیابیطس کے مرض کو ہم آسان الفاظ میں ہم اس طرح واضح کر سکتے ہیں کہ لبلبہ ایک ہارمون پیدا کرتا ہے‘ جسے انسولین کہتے ہیں۔ انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے‘ بالخصوص میٹھی اور نشاستہ والی اشیائ‘ مثلاً روٹی‘ آلو شوگر میں تبدیل ہو جاتے ہیں جسے گلوکوز کہا جاتا ہے۔ یہ گلوکوز خون کے ذریعے جسم میں گردش کرتا ہے۔ کئی افراد میں ذیابیطس کے علاوہ کسی دوسرے عارضے کے سبب ایسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں‘ جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ انہیں ذیابیطس ہو چکی ہے۔ حاملہ خواتین میں حمل کی وجہ سے زیادہ پیشاب کی حاجت ہو سکتی ہے‘جب گردے خون میں شوگر کی زیادتی کو کم کرنا چاہتے ہیں تو وہ زیادہ پیشاب پیدا کرکے اسے خارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوران حمل جسمانی ہارمونز کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ ان میں کچھ ہارمونز ایسے ہوتے ہیں جو شوگر کی مقدار بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے خون میں بھی شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ مرض موروثی بھی ہو سکتا ہے۔ البتہ تحقیق سے ثابت ہے کہ ماں کو ذیابیطس ہو تو پیدا ہونیوالے بچے کو یہ مرض ہونے کا صرف ایک فیصد امکان ہوتا ہے جبکہ باپ کو شوگر کا مرض ہو تو بچے میں اس مرض کے منتقل ہونے کے 6 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ اقسام کے لحاظ سے ذیابیطس تین قسم کی ہوتی ہے۔ اس کا طبعی نام Diabetes Mellitus ہے‘ ذیابیطس کی پہلی قسم بچوں کو پیدائشی طور پر لاحق ہوتی ہے‘ اس کا علاج صرف انسولین کی صورت میں کیا جاتا ہے‘ اسے ذیابیطس ٹائپ 1 کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس کی دوسری قسم عموماً پختہ عمر کے لوگوں میں ہوتی ہے‘اسے ٹائپ 2 کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس ٹائپ 3 میں دوران حمل خواتین کو وزن کی زیادتی سے لاحق ہوتی ہے‘ اسے Gestational Diabetes کہتے ہیں۔ یہ عموماً زچکی کے بعد خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔ ٹائپ 3 کی تشخیص دوران حمل 24ویں ہفتے میں ہو سکتی ہے۔ذیابیطس کی وجہ سے کوئی نقص ضروری نہیں‘ لیکن دماغ‘ ریڑھ کی ہڈی اور دل کے نقائص کے امکانات 3 گنا بڑھ جاتے ہیں بلکہ ان میں شدت بھی ہو سکتی ہے۔ صحت مند جسم میں شوگر کا لیول کتنا ہونا چاہیے ناشتہ سے قبل Preparandial 70-100 mg/dl ناشتہ کے بعد Postparandial 1hr ۷140/dl 2hr۷120 mg/dl ناشتہ یا کھانے کے دو گھنٹہ بعد شوگر کا کنٹرول: 80-126 ملی گرام فیصد قابل قبول کنٹرول : 126-180 ملی گرام فیصد ہومیوپیتھک علاج ہومیوپیتھک میں لبلبہ کے ان جملہ امراض کا شافی علاج موجود ہے‘ علامات کے لحاظ سے مختلف ادویات استعمال کی جاتی ہیں‘ جن میں: سائزی جیم جمبوQ (مدرٹنکچر)‘ انسولین‘ یورینیم نائٹریکم 3x‘ کلکیریا فاس6x‘ کالی فاس 6x‘ آرسینک ایلبم‘ کیوپرم میٹ‘ کیکٹس‘ ایکونائٹ‘ ایٹروپین سلف‘ بیلاڈونا‘ برائی اونیا‘ رسٹاکس‘ فیرم فاس‘ لیکسس‘ مرک سال وغیرہ علامات کے مطابق مریض کو دی جائیں تو مریض شفایاب ہو سکتا ہے۔ اگر مرض کثرتِ شراب نوشی سے ہوا ہے تو مفید اور آزمودہ نسخہ آرسینک ایلبم‘ کیوپرم آرس‘ نکس وامیکا اہم ادویات ہیں۔ حاد قسم کی سوزش میں آرسینک ایلبم‘ بیلاڈونا اور نکس وامیکا خاص ادویات سمجھی جاتی ہیں۔ جبکہ مزمن سوزش کیلئے تھوجا‘ فائسوسٹگما اور کینابس سٹائیوا کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ dr.4health4@yahoo.com +920321-4368474- 0300-4309720