ڈائری کا پہلا ورق۔

2019 ,نومبر 23



زلیخا کا شوہر جو ایک موٹر مکینک تھا ایک سال ہوئے شہر سے کچھ سامان خریدنے گیا اور وہیں ایکسیڈنٹ میں اس کی موت ہوگئی۔۔

بھری دنیا میں کوئی نہیں تھا جس سے زلیخا اپنے دکھ درد بانٹ سکتی، لہٰذا وہ بازار سے ایک ڈائری خرید لائی اور جب رات کو رُستم سو جاتا تو وہ ڈائری لکھا کرتی تھی، جس سے اس کے دل کا غبار ہلکا ہوجاتا

ڈائری کا پہلا ورق۔

مجھے نہیں معلوم کہ ڈائری کیسے لکھی جاتی ہے، تمھارے ہوتے ہوئے کبھی ڈائری لکھنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ آہ میرے پیارے رشید! تم نے تو ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھی اور اب دیکھو میں اور تمہارے جگر کا ٹکڑا رُستم بھری دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں۔

ایک مرد کے بغیر عورت کس قدر تنہا ہوجاتی ہے یہ مجھے اب معلوم ہوا ہے۔ مقبول دکاندار مجھے بُری نظروں سے دیکھتا ہے حالانکہ اس بڈھے کے پوتے پوتیاں ہیں۔ معلوم نہیں یہ کچھ مردوں کی ہوس ختم کیوں نہیں ہوتی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی دکان سے کچھ نہ خریدوں لیکن اس کے علاوہ اتنے ادھار پر راشن کون دے گا؟

گھسے جوتے اور پھٹا یونیفارم

کافی دنوں کے بعد آج لے کر بیٹھی ہوں ۔ مجھ سے روز ڈائری نہیں لکھی جاتی بس دل جب بہت گھبراتا ہے، اور اداس ہوتا ہے تو لکھنے بیٹھ جاتی ہیوں ۔۔۔ اب رُستم باقاعدگی سے اسکول جاتا ہے لیکن اس کے جوتے اور یونیفارم پرانا ہے۔ میں نے اس سے کہہ رکھا ہے کہ جب بہت سے کپڑے سِلنے کو آئیں گے تو اسے نئے جوتے اور یونیفارم ضرور خرید کر لے دوں گی۔ وہ روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے مجھ سے پوچھتا ہے کہ آج زیادہ کپڑے سلنے کو آئیں گے؟

’ہاں ضرور میرے چاند۔ آج ڈھیر سارے کپڑے آئیں گے‘، ہاں ۔۔ ضرور میں اس کو جواب دیتی ہوں ۔

مقبول دکاندار

وہ کہتا ہے کہ اماں گلی کے سرے پر جو انکل مقبول دکان دار ہیں وہ بہت اچھے ہیں کیونکہ وہ مجے مفت میں ٹافیاں دے دیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے اچھے لوگ بہت کم کیوں ہوتے ہیں؟

مقبول دکان دار کی کریانے کی دکان ہے اور اس کے تینوں بیٹے شادی کے بعد دوسرے شہروں میں جا بسے ہیں۔

اج میرے سامنے اس کے بیٹے کا فون آیا تھا لیکن اس نے زیادہ بات نہیں کی اور فون بند کردیا بس مجھے مسکرا مسکرا کر آنکھیں پھاڑے دیر تک دیکھتا رہا۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح میں اس سے شادی کرنے کے لیے مان جاؤں ۔

حد ہی ہوگئ۔۔۔۔۔

آج تو مقبول دکان دار نے حد ہی کردی۔ مجھے کہتا ہے کہ آپ کا آگے زندگی گزارنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

بڈھے کھوسٹ میرا جو بھی پلان ہو تمہارا کیا واسطہ تعلق؟ کاش میں نے اس سے 10 ہزار کا قرض سامان نہ خرید رکھا ہوتا تو منہ توڑ دیتی۔ لیکن سلائی کے لیے اس ہفتے صرف 2 ہی جوڑے آئے ہیں۔ شادیوں کا سیزن آنے والا ہے رقم جمع ہوتے ہی سب سے پہلے اس منحوس مقبول کا قرض لوٹاؤں گی۔

رستم کا ٹوٹا جوتا۔۔۔۔

کل میں نے رُستم کا جوتا تیسری دفعہ مرمت کرایا تھا اور اب کی بار موچی نے دونوں جوتوں کا تلوا بدل دیا۔ ایک جوتے کے نیچے کچھ موٹا چمڑا لگایا اور دوسرے پر پتلا جس کی وجہ سے اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ایک ٹانگ لمبی اور دوسری چھوٹی ہوگئی ہے۔

معلوم نہیں یہ اچھے رنگوں کے کپڑے سِلنے کب آئیں گے؟

رشتہ کرانے والی۔۔۔۔۔

کل اس نے ایک رشتہ کرانے والی خاتون بھیجی تھی کہ وہ مجھ سے اس کے رشتے کی بات کرے اور کہے کہ راشن کے جتنے روپے باقی ہیں وہ سب چھوڑنے کو تیار ہے۔ دوسرا وہ مالک مکان کو کرایہ بھی ادا کردے گا۔ اسے لگتا ہے کہ میرا دل نرم ہوجائے گا ورنہ میں تو وہ اسے ایسے دیکھتی ہوں جیسے پتھر اس کے سر پر مارنا چاہتی ہو۔

مہلت مانگی ہے میں نے۔۔۔۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ مقبول دکان دار نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ آج دوبارہ سے رشتہ کرانے والی خاتون مقبول کا رشتہ لے کر آئی تھی۔ میرا جی چاہا کہ خاتون کا منہ توڑ دوں کہ اسے ذرا شرم نہ آئی اس بوڑھے کا رشتہ لاتے ہوئے، لیکن پھر خیال آیا کہ جب تک شادیوں کا سیزن نہیں آتا، زیادہ کپڑے سِلنے کے لیے نہیں آئیں گے اور پھر اس موئے پیٹ کی آگ بھی تو بجھانی ہے۔ چلو میں تو بھوکی سو لوں گی لیکن بیچارے رُستم کا کیا قصور ہے وہ کیوں فاقے کاٹے؟ میں نے کہہ دیا ہے سوچنے کے لیے کچھ مہلت چاہیے۔

نیا یونیفارم اور جوتا۔۔۔۔

آج رستم بہت خوش تھا کیونکہ اس کے اچھے انکل مقبول نے اس کے خراب جوتے دیکھے تو وہ اسے بازار لے گئے اور وہاں سے نئے جوتے اور یونیفارم خرید کردیا۔ اب وہ اس انتظار میں تھا کہ کب اگلا دن شروع ہو اور وہ یہ جوتے اور یونیفارم پہن کر اسکول جائے۔

میں نے اس کمبخت سے سوچنے کے لیے کچھ مہلت مانگی تھی مگر اس کمینے سے ایک پَل بھی نہیں گزر رہا ہے۔ اس نے میرے بیٹے کو جوتے اور یونیفارم لے کر دیے ہیں تاکہ میرے دل میں گھر کرسکے۔ اس کا خیال لگتا ہے کہ شادی کے بعد وہ اس میرے بیٹے کو بورڈنگ اسکول میں داخل کرادے گا۔

رستم کی خوشی۔۔۔۔

آج رُستم اسکول سے آیا تو خوشی سے اس کا چہری دمک رہا تھا، نئے یونیفارم اور نئے جوتوں کا خوشی اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی مقبول دکان داراپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے ۔ میرا جی چاہا کہ دونوں چیزیں لے کر جاؤں اور مقبول کے منہ پر کھینچ کر دے ماروں، آخر اس نے کیا مجھے بھکاری سمجھ رکھا ہے؟ ابھی تو میرے ہاتھ سلامت ہیں سلائی کڑھائی کرلیتی ہوں لیکن پھر رُستم کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آگیا۔ وہ یہ دونوں چیزیں حاصل کرکے بہت خوش تھا۔ بہت دنوں بعد میں نے اسے اتنا خوش دیکھا تھا اور ویسے بھی میں روز جھوٹ بول بول کر اب تھک چکی تھی اسی لیے دونوں چیزیں رکھ لیں۔

معلوم نہیں یہ شادیوں کا سیزن کب آئے گا

آج میرا مالک مکان مجھ سے گھر خالی کرانے کا مطالبہ لے کر آیا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا مقبول دکان دار وہاں موجود تھا، اس نے فوراً 3 ماہ کا کرایہ ادا کیا اور بات رفع دفع ہوگئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ شام کو رشتہ کرانے والی خاتون جب میرے پاس آئی تو میں نے کہہ دیا تم مقبول سے کہو وہ تمھارا منہ میٹھا کردے۔۔ اس کو بولو زلیخا نے ہاں کردی ہے ۔

آخر میں کیا کرتی ؟

مالک مکان گلی میں کھڑا شور مچا رہا تھا۔ میں رستم کو لے کر کہاں جاتی؟ ایک اکیلی عورت کی ساری دنیا دشمن بن جاتی ہے۔ مجھے مقبول بے حد بُرا لگتا ہے لیکن اگر آج اس نے کرائے کی رقم ادا نہ کی ہوتی تو ہمیں یہ مکان خالی کرنا پڑتا۔ پھر وہ ہمیں کئی ماہ سے گھر کا راشن بھی دے رہا تھا۔

رشید میرے پیارے، میں مجبور تھی۔ شادیوں کا سیزن آنے میں ابھی بھی کچھ ماہ رہتے ہیں اور یہاں حالت یہ ہے کہ پچھلے 2 ہفتوں سے ایک جوڑا بھی سِلنے کے لیے نہیں آیا اور برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ کل رات اتنی بارش ہوئی کہ اس کمرے کی چھت کے 3 کونوں سے پانی بہنے لگا اور ہم ماں بیٹے نے چوتھے کونے پر بیٹھ کر ساری رات آنکھوں میں گزار دی۔ مقبول دکاندار نہ ہوتا تو شاید ہمارے پاس کل یہ چوتھا کونا بھی نہ ہوتا۔ میں نے رُستم کو بھی کافی سمجھایا ہے کہ اب میں اس کے انکل مقبول سے شادی کرنے لگی ہوں۔

آہ! زندگی بھی کیسا وقت دکھاتی ہے۔ انسان کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے، اگرچہ مقبول دکان دار مجھے اب بھی بہت بُرا لگتا ہے لیکن یہ پیٹ ۔۔۔

بس یہ میری ڈائری کا آخری ورق ہے، اس سے شادی کے بعد میں نہیں سمجھتی کہ تم سے کبھی بات کرسکوں گی۔۔

متعلقہ خبریں