لالچ نے مصری خواتین اول کو ثریا سے زمین پر دے مارا سادات و مبارک کی بیگمات کی خصلتوں، خواہشات اور انجام میں حیرت انگیز مماثلت

2017 ,نومبر 13



قاہرہ ۔ مصطفیٰ سلیمان

مصری تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک قدیم زمانے سے سیاسی سرگرمیوں اور بڑی بڑی بادشاہتوں کے عروج وزوال کا میدان رہا۔ تاہم اس میں خواتین بالخصوص بادشاہوں کی بیگمات کا کوئی تفصیلی اور مؤثر کردار نہیں ملتا۔ البتہ معاصر تاریخ میں دو نام ایسے ہیں جنہیں کسی صورت میں فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دونوں (سابق خواتین اول) مقتول صدر انور سادات کی بیوہ جیہان صفوت اور حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک ہیں۔ ان دونوں خواتین کی زندگیوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف اپنے شوہروں کےخلاف عوامی بغاوت پھیلانے کا موجب بنیں بلکہ دونوں کی سوچ، خواہشات، خاندان، شادیوں او رانجام سمیت کئی دیگر پہلوؤں میں گہری مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔

جہیان صفوت کی آمرانہ سوچ اور اپنے شوہر مرحرم انور سادات کی شخصی حکمرانی کے تسلسل کی کوشش نہ صرف انہیں صدارتی محل سے باہر نکالنے کا موجب بنی بلکہ سنہ 1981ء میں سابق صدر کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوئی۔ اسی طرح سوزان مبارک کی اپنے بیٹے جمال مبارک کو والد کا جانشین بنانے کی خواہش عوامی غم وغصے کا باعث ہوئی اور عوام کے اٹھارہ روزہ احتجاج کے بعد ان میاں بیوی کو بھی قاہرہ کے قلعہ نما شاہی محل سے نکال دیا گیا جس طرح ایک ممنوعہ دانہ کھانے سے آدم اور حوا کو جنت سے نکال دیا گیا۔

دونوں سابق مصری خواتین اول کی زندگیوں میں پائے جانے والے مشترکات پر"العربیہ ڈاٹ نیٹ" نے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی ابتدائی زندگیوں سے لے کر انجام تک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی قسمت کم وبیش ایک جیسی تھی۔ دونوں عورتیں امیر گھرانوں میں پیدا ہوئیں۔ دونوں کی شادیاں فوجی افسروں لیکن غریب خاندانوں کے افراد سے ہوئیں۔ دونوں فوجی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے صدر بنے اور دونوں کا انجام بھی رسوا کن ہوا۔ ایک جان سے گیا دوسرا نہایت ذلت کے ساتھ زندگی کے دن گن رہا ہے۔


 

جیہان ایک طاقتور شخصیت

سابق مقتول صدر انور سادات اور ان کے خاندان کے مقرب سمجھے جانے والے صحافی و سیاست دان، مشاورتی کونسل کے چیئرمین منصور حسن نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے گفتگو کرتے ہوئے جہیان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ چونکہ منصورکو جہیان کا اچھا خاصا قرب حاصل رہا اور وہ طویل عرصے تک ایوان صدر میں سابق صدرکی معیت میں رہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے بہتر سابق خاتون اول کے عادات واطوار سے کون واقف ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ "میں ایوان صدر میں انور سادات کی اہلیہ کے معمولات کا بڑے غور سے مطالعہ کرتا۔ جیہان کی کچھ عادات ناقابل یقین تھیں۔ وہ بلا کی ذہین، تیز طرار اور طاقتور شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کی اہم بات حکمراں خاندان میں ان کا گہرا اثرو رسوخ تھا۔ وہ صدر کے فیصلوں میں براہ راست دخیل ہوتیں اور سیاسی امور میں اپنے شوہر کی مدد کرتیں۔ جنگ کے ہیروز، شہداء کے ورثاء اور معذور افراد کی کفالت جیہان ہی کی مساعی کا نتیجہ تھا۔

منصور حسن مزید کہتے ہیں کہ "جیہان رائے عامہ سے اچھی طرح آگاہ تھیں اوراُنہیں صدر سے بھی پہلے اندازہ ہو جاتا کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور ان کا موڈ کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں اس بات کا بھی گواہ ہوں کہ سابق خاتون اول نے اپنے شوہر کو عوامی مسائل کے حل میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اور اپوزیشن کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو بھی کم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ملکی معاملات کے بارے میں اہم میشر (بیگم) کی باتوں کے اثرات کے باجود انور سادات سرکاری رپورٹس پر زیادہ اعتبار کرتے۔

انورسادات کے مقرب سابق سیاست دان نے بتایا کہ حکمراں طبقے سے وابستہ سیاست دانوں اور صحافیوں سمیت اعلٰی شخصیات کے درمیان جب کسی معاملے پر نزاع پیدا ہوتا تو اس وقت بھی جیہان حسب توفیق مداخلت کرتیں اور اختلاف دور کرنے کی پوری کوشش کرتیں۔ سفارتی حلقوں میں بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا کیونکہ کوئی بھی سفیرجب ان کے شوہر صدر انور سادات سے ملاقات کےلیے صدارتی محل میں آتا تو وہ جیہان کی با رعب شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں منصور حسن نے بتایا کہ جیہان صفوت انور سادات پر اس وقت اثرانداز ہونے لگی تھیں جب وہ فوج میں ایک جرنیل تھے اور صدر نہیں بنے تھے۔ انہیں صدر بنانے، کئی مقامات پر غلط مشورے دےکر عوام کو ان کے خلاف بھڑکانے کا باعث بنیں۔ وہ اپنے شوہر کے آگے کھڑی ہو کر انہیں بچانے کے بجائے پشت پر کھڑی ہوکران کی مدد کی کوشش کرتیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کا اقتدار بچانے کے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ انہیں قتل ہونے سے بھی نہ بچا سکیں۔ دولت کے معاملے میں جیہان لالچی نہیں تھیں۔ ان کے والد ایک مصری ڈاکٹر تھے لیکن والدہ نے انگریز تھیں، شادی کے بعد وہ بھی مصر آ گئیں۔

سوزان کی سیاست کو موروثیت میں بدلنےکی کوشش

"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کے مطابق مصر کی دوسری مؤثر سابق خاتون اول اور معزول صدر حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کو ملک کا حکمراں خاندان بنانے کی پوری کوشش کی۔ ذہانت، چالاکی اور طاقتور شخصیت ہونے کے اعتبار سے وہ جیہان ہی کی ہم پلہ ہیں۔

حال ہی میں ایک امریکی دانشور کریسٹوفر ڈیکی نے مصر کے معزول صدر حسنی مبارک اور ان کے خاندان کی عادات کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے جو اخبار "نیوز ویک" میں شائع ہوا۔ فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں کہ حسنی مبارک اور ان کے خاندان کے سقوط کا باعث رشوت اور بدعنوانی نہیں بلکہ تکبر انہیں لے ڈوبا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ جیل میں پیشی کے دوران بھی حسنی مبارک کے دونوں فرزند جمال اور علاء اس طرح آ کڑ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے ان کے ساتھ کچھ ہواہی نہیں۔ سوزان مبارک کے بارے میں ان کا تجزیہ یہ ہے کہ وہ ایک ذہین خاتون ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ موجودہ نازک وقت میں ان کی زبان درازی ان کے لیے مشکل پیدا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ ایک سال سے کرپشن سے متعلق اپنے اوپر عائد الزامات کا جواب دینے سے خاموش ہیں۔

خاموشی کا روزہ انہوں نے اس لیے رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ خاموشی ہی عوامی رائے عامہ کو ان کے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔

امریکی مصنف لکھتےہیں کہ سوزان مبارک بحرانی کیفیت میں اپنے خاندان کے ساتھ رہیں۔  جب انقلاب کے ہنگاموں میں ان سے کسی نے پوچھا کہ وہ اب کیا کرنا چاہتی ہیں تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ جلد ہی اقتدار سے علاحدہ ہو جائیں گے تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت بچانے کے لیے ان کی کوششوں کو کافی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ گویا وہ اپنے شوہر کےخلاف جاری عوامی بغاوت کے باوجود حکومت بچانے کے لیے کوشش کرنے کی خواہاں تھیں۔ مسٹر کسٹوفر کے مطابق سوزان مبارک اپنے شوہر کے سیاسی فیصلوں میں اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو ایک سماجی کارکن کے طور پر مصری معاشرے میں زندہ رکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ اب بھی عوامی حلقوں میں انہیں ایک سیاست دان سے زیادہ ایک سماجی رہ نما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

سوزان کی زندگی کے ان مثبت پہلوؤں کے باوجود اپنے بیٹوں کو والد کا جانشین بنانے کی مساعی ان کے شوہر کے تیس سالہ دورحکومت کے زوال کا باعث بنیں۔ جس کا رسوا کن انجام یہ ہوا کہ وہ حسنی مبارک نو رتنوں سمیت آج طرہ جیل کی ایک اسپتال میں قید اور سوزان خود شرم الشیخ کے ایک مکان میں نظر بند ہیں۔

متعلقہ خبریں