قحط زدہ زندگی کے روپ، تصاویر میں

2017 ,مارچ 22




لاہور (سید اسامہ اقبال) میگنم کے ڈاکومنٹری فوٹوگرافر مصطفیٰ سعید نے خیراتی ادارے 'سیو دا چلڈرن' کے ساتھ صومالیہ کے علاقے خود ساختہ جمہوریہ صومالی لینڈ کے طول و عرض کا سفر کیا۔ آٹھ روزہ اس دورے میں انھوں نے خشک سالی کا شکار گلہ بان خاندانوں سے ملاقات کی جہاں ہزاروں بچوں میں غذائیت کی کمی ہے۔

ان گلہ بان خاندانوں کا ذریعہ معاش ختم ہو چکا ہے اور ان بچوں کے والدین بچے کھچے مویشیوں کو بیچنے کے لیے سفر پر گھر سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کی آفات اور ایمرجنسی کی کمیٹی کے مطابق پورے صومالیہ (بشمول صومالی لینڈ)، کینیا، ایتھوپیا اور جنوبی سوڈان میں آباد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد کو خوراک، پانی اور دواو¿ں کی ضرورت ہے۔

سعید کا کہنا ہے کہ 'یہ گلبہ بان خاندان افریقہ کے تمام قحط زدہ علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔'
'ان کے مویشی ان کے بینک اکاو¿نٹ ہیں۔ یہ وہ کرنسیاں ہیں جن پر ان کی زندگی منحصر ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے مویشی مر رہے ہیں۔
'وہ ابھی تک امداد کے منتظر ہیں اور مجھے خوراک، پانی اور سرچھپانے کی جگہ کی اپنی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا: ان کے حالات جذباتی طور پر مفلوج کر دینے والے ہیں کہ اتنے سارے افراد کو ہماری امداد کی ضرورت ہے۔
'مجھے ان تصاویر کو لینے میں جس جذباتی کرب سے گزرنا پڑا ہے وہ ان قحط زدہ خاندانوں کی مشکلات کے سامنے کچھ نہیں۔'
شکری

اپنے زیادہ تر مویشیوں کی موت کے بعد شکری اپنے تین میں سے دو بچوں کے ساتھ ہجرت کرکے براو¿ چلی آئیں اور مقامی ایئرپورٹ کے علاقے میں آ کر آباد ہو گئیں تاکہ ان کی بچی کھچی بھیڑوں کو چراگاہ مل سکے۔
وہ کہتی ہیں: 'ہم یہاں اپنے مویشیوں کے چارہے کے لیے آئے تھے لیکن یہاں گھاس ختم ہو چکی تھی اور ہمارے مویشی ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے۔ اب ہمیں یہیں رہنا ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔'
فردوس

بہت سے گلہ بان اپنی خانہ بدوش زندگی چھوڑ کر اینابو جیسے چھوٹے چھوٹے شہری مراکز میں آباد ہو رہے ہیں۔ وہ عارضی پناگاہوں میں مقامی اور بین الاقوامی برادریوں سے امداد کی امیڈ میں آ رہے ہیں۔
فردوس کہتی ہیں: 'جب سارے مویشی مر گئے تو ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں بچا، نہ پانی تھا نہ مناسب پناہ گاہ۔ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہم یہاں اس لیے چلے آئے کہ ہمارے بچوں کو کھانے کو کچھ مل سکے۔'
سعدو

سعدو قحط زدہ مشرقی علاقے سے سفر کرکے مغربی علاقے میں دیلا شہر کے پاس پہنچیں جہاں وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے ایک سو مویشی مر چکے ہیں۔ ان کے زیادہ تر مویشی یہاں آ کر مرے ہیں اور باقی بچی 50 بھیڑیں اور بکریاں اتنی کمزور ہیں کہ دودھ نہیں دے سکتیں کہ انھیں بازار لے جاکر بیچا جا سکے۔
سعدو اور ان کے چار بچوں کو ایک وقت کا کھانا مل پاتا ہے۔ ایک حالیہ جانچ میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی میں غذائیت کی شدید کمی کا پتہ چلا ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'ہماری سب سے بڑی ضرورت ابھی خوراک ہے۔ ہمیں کھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے مضبوط ہو سکیں۔'
خضرہ محمد

خضرہ محمد کہتی ہیں: 'ہم گلبہ بان تھے کہ قحط کا دور شروع ہو گیا۔ ہمارے تقریبا تمام مویشی مر گئے۔ تھوڑے جو بچ گئے ان کے ساتھ ہم یہاں چلے آئے۔
'جو کوئی بھی یہاں ہے اور جس نے اپنا مویشی کھو دیا ہے انھوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ صرف یہ خیمے ہیں۔ بعض مقامی دکانداروں نے ہمیں کھانا دیا ہے اور حالیہ دنوں بعض تنظیمیں ہماری امداد کر رہی ہیں۔
دیقہ

دیقہ کا کہنا ہے کہ ان کے تقریباً 100 مویشی مر چکے ہیں جو باقی بچے ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ ان کی کوئی قیمت نہیں۔
قحط کے سبب ان کا خاندان مشکلات کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا: 'ہمیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ ایک ماں کی حیثیت سے میرے پاس اتنا بھی کھانا موجود نہیں کہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکوں۔'
اندودیق

اپنے بہت سارے مویشی کھو دینے کے بعد اندودیق اور ان کے کنبے نے قریظ شہر میں پناہ لی ہے اور گلہ بانی چھوڑ دی ہے۔ انھیں شہر کے لوگوں نے یہ جگہ رہنے کے لیے دی ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'ہماری فوری ضرورت کھانا، پانی اور سرچھپانے کی مناسب جگہ ہے۔
انھیں سیو دا چلڈرن کی جانب سے پیسے ملتے ہیں جس سے وہ اپنے بچے کے لیے خوراک، دودھ اور دوائیں خریدتی ہیں۔
یہاں اندودیق اپنی نواسی کو گود میں لیے بیٹھی ہیں۔ ان کے شوہر نور کی بینائ? جاتی رہی ہے اور ان کی بیٹی ہدان ولادت کے دوران بیمار پڑ گئی ہیں
ہدان

پانچ بچوں کی والدہ ہدان نے قریظ میں اپنے دو سالہ بچے ہارون کو سنبھال رکھا ہے۔ ہارون بیماریوں کے سبب بچپن میں ہی نابینا ہو گیا اور اب اس میں غذائیت کی شدید کمی ہے۔ سب سے نزدیک جو ہسپتال ہے وہ بھی کئی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
ہدان کے آدھے سے زیادہ مویشی مر چکے ہیں اور اسے اپنے بچوں کے لیے کھانا حاصل کرنے اور ہارون کے علاج کے لیے دشواریوں کا سامنا ہے۔
اوباہ

ابتدا میں جو کھانے تقیسم کیے گئے تھے ان میں سے اوباہ کو بھی کھانے ملے تھے لیکن انھیں مناسب رہائش اور صاف پانی کے لیے ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
وہ کہتی ہیں: 'ہماری تمام بکریاں اور زیادہ تر اونٹ مر گئے۔ میرے شوہر بچے ہوئے اونٹ کے ساتھ بازار گئے ہیں۔ جب ہمارے مویشی مرنے لگتے ہیں تو ہماری زندگی دشوار ہو جاتی ہے اس لیے ہم یہاں آئے ہیں تاکہ ہمیں بھی امدادی تنظیمیں مستحقین میں شمار کر لیں۔'
فدومو

طلاق کے بعد فدومو اپنے تین بچوں کے ساتھ سفر کرکے یوگوری کے باہر ایک عارضی آبادی میں آئیں۔ ان کے ایک سالہ بچے کلمیہ میں غذائیت کی کمی تشخیص ہوئی ہے اور انھیں نے حال ہی میں سیو دا چلڈرن کی جانب سے نقد رقم کی امداد پانے والے افراد میں شامل کر لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے: 'ہمارے پاس نہ تو مویشی ہے نہ ہی رہنے کی کوئی جگہ۔ مجھے اپنے بچوں کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔'
تمام تصاویر بشکریہ مصطفی سعید۔
 

متعلقہ خبریں