2017 ,جون 29
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا کل رقبہ 347190 کلو میٹر ہے ، یہ پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد بنتا ہے۔ صوبہ بلوچستان کی سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے۔ یہ صوبہ تیل ،گیس ،تانبے سمیت قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ صوبہ بلوچستان قیام پاکستان کے وقت پانچ حصوں پر مشتمل تھاجس میں چار شاہی ریاستیں مکران، خاران، لسبیلہ ،قلات جبکہ ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔ مکران ،خاران ،لسبیلہ،قلات کے علاقے کم و بیش وہی ہیں جو آج اسی نام کے ڈویژن سے موجود ہیں جبکہ برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کے پشین ،ژوب ،چمن،قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ کے علاوہ چاغی اور کوئٹہ کے علاقے شامل تھے۔ اس وقت گوادر کا علاقہ عمان کا حصہ ہوا کرتا تھا جو کہ خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔ تحریک پاکستان میں بلوچستان کے عوام اور سرداروں نے بھرپور حصہ لیا ۔ 3جون 1947ء کو مائونٹ بیٹن نے ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دینے کا اصول تسلیم کرلیا‘ تو مسلم لیگ کے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور وہ ہر سازش کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہوگئی۔ بلوچستان میں ریفرنڈم کی تاریخ 29جون مقرر ہوئی تھی لیکن اس سے قبل ہی بعض ایسی مشکلات پیدا ہو چکی تھیں جن کی وجہ سے پاکستان کے حق میں فیصلہ ہونا آسان نظر نہیں آتا تھا۔ مسلم لیگی زعمائ‘ قبائلی سردار اور سرفروش حالات کا رخ موڑنے کے لیے سر دھڑ کی باڑی لگائے ہوئے تھے۔ دوسری جانب کانگرس بھی سازشوں میں مصروف تھی جبکہ انگریز بھی مسلمانوں کی یکجہتی کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنا پر برصغیر کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کا مطالبہ 1946ء کے آخر تک مختلف مرحلوں‘ کانفرنسوں‘ مذاکروں‘ کمیشنوں اور جائزوں کے بعد ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا تھا کہ اب اُسے نہ تو انگریز مسترد کرسکتا تھا اور نہ کانگریس کا واویلا اُس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ چنانچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ قیامِ پاکستان کے سوا برصغیر کی آزادی کے مسئلہ کا کوئی بھی حل قابلِ قبول نہیں ہوگا‘ تاہم بعض علاقوں کے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کے حتمی فیصلے کے اعلان سے پیشتر استصوابِ رائے(ریفرنڈم) اُصول طے کیا گیا۔ ان علاقوں میں مشرقی بنگال میں سلہٹ کا علاقہ اور اس جانب صوبہ سرحد اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔انگریز اور کانگریس کی ملی بھگت اب بھی اپنی جگہ کام کررہی تھی اور برطانوی حکمران اب بھی بلوچستان کو برصغیر سے علیحدہ ایک ایسی خود مختار ریاست کی صورت دینے پر تلے ہوئے تھے جو برصغیر میں اُن کے اقتدار کی آخری آماجگاہ بن سکے۔ اس لیے سلہٹ اور صوبہ سرحد میں تو اُنہوں نے استصوابِ رائے عامہ کرانے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ شاہی جرگے کے سپرد کردیا۔ قائداعظمؒ نے اس سلسلے میں 25جون کو مندرجہ ذیل بیان جاری کیا۔’’اب یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں 29جون کو استصواب رائے ہوگا۔ میں ہر مسلمان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کی بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیں‘ مجھے اُمید ہے کہ رائے دہندگان‘ جو شاہی جرگہ کے ارکان(ماسوائے نمائندگان ریاست قلات) اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیرسرکاری نمائندوں پر مشتمل ہیں‘ اپنا فیصلہ دیتے وقت اس چیز کا احساس کریں گے کہ بلوچستان مملکت پاکستان میں ہی باعزت طور پر زندہ رہ سکتا ہے۔
علاوہ ازیں سیاسی‘ جغرافیائی اور اقتصادی نقطۂ نگاہ سے بھی بلوچستانی عوام کا مفاد اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ پاکستانی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہوں کیونکہ ان کی تعلیمی‘ سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لیے صرف پاکستان ہی بلوچستان کا ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔’’میں بلوچستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں تمام طبقوں اور مفادات سے انصاف ہوگا اور مجھے اُمید ہے کہ ہمارے دشمنوں نے جو گمراہ کن پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور جس کے مطابق وہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف اور ایک مفاد کو دوسرے مفاد کے خلاف آرا کررہے ہیں‘ وہ بلوچستان میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گا۔‘‘’’مسلمانوں کی نجات اُن کے اتحاد و یکجہتی اور تنظیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔اس کے علاوہ اس لیڈر کی ذات پر اعتماد بھی ضروری ہے۔‘‘’’جو گزشتہ دس سالوں سے آپ کی خدمت کررہا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ متفقہ طور پر پاکستانی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے حق میں رائے دیں گے۔‘‘قائداعظمؒ کے اس بیان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ چنانچہ باہمی تبادلۂ خیال کے بعد نواب جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی نے پاکستان کی حمایت میں مشترکہ بیان جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
نواب محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی کا مشترکہ بیان معاصر ’’نوائے وقت‘‘ میں اِن الفاظ میں چھپا تھا کہ ’’دستور ساز اسمبلی کے رکن نواب محمد خان جوگیزئی اور مقتدر بلوچ سردار میر جعفر خان ایم ایل اے(سندھ) نے ایک مشترکہ بیان میں یہ اعلان کیا ہے کہ بلوچستان کے سرداروں نے کامل غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کی آزادی کا بہترین تحفظ صرف پاکستان میں شامل ہونے کی صورت میں ممکن ہے۔ اس طرح جہاں انہیں اپنے داخلی اُمور میں آزادی حاصل ہوگی وہاں وہ ہمسایہ اسلامی صوبوں کے شانہ بشانہ اقتصادی اور سیاسی ترقی کی شاہراہ پر بھی گامزن ہوسکیں گے
پاکستان میں بلوچستان کے لوگوں کے لیے شرعی نظام رائج ہوگا۔ان سرداروں نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ قائداعظمؒ کی مساعیٔ جمیلہ سے بلوچستان کے عوام ہندو تسلط کے خطرہ سے محفوظ ہوگئے ہیں اور انہیں کی ذات گرامی کی بدولت ہم ایک اسلامی ریاست میں آزادی کے زینہ پر کھڑے ہیں۔ ’’ان سرداروں نے کانگریس کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو دولت کی پیشکش سے گمراہ نہ کرے۔ اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ جو لوگ آزاد بلوچستان کے نعرہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوشاں ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے مرد‘ عورتیں اور بچے پاکستان کے لیے ہر ممکن قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں‘ جو لوگ پاکستان کے مخالف ہیں وہ اسلام کے دشمن ہیں۔‘‘
اس بیان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ پھر بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے کیونکہ کانگریس نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا تھا اور ایک ایک سردار کی جانب رجوع کیا جارہا تھا۔ اب ریفرنڈم میں فقط تین دن باقی تھے اور میر جعفر خان جمالی ابھی تک کراچی سے واپس نہیں آئے تھے۔ اس دوران میں نسیم حجازی اور عبدالغفور درانی نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورہ کرکے نواب محمد خان جوگیزئی کو جلوس کی صورت میں سارے شہر میں پھرانے کا پروگرام بنایا۔ یہ پروگرام فوری نوعیت اور ڈرامائی انداز کا تھا جس سے منتظمین کی حاضر دماغی عیاں تھی۔ اس موقع پر بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم نیشنل گارڈز نے بڑی سرگرمی کا مظاہرہ کیا تھا۔ بہرحال نواب صاحب کو ایک سجی سجائی کار میں بٹھایا گیا‘ ہار پہنائے گئے اور فضا ’’فخر بلوچستان نواب جوگیزئی زندہ باد‘‘ کے نعروں سے معمور ہوگئی۔ہر سو انسان ہی انسان نظر آرہے تھے۔ فلک شگاف نعرے ایک ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا کرنے کا موجب بنے جس میں مخالفین کے لیے وہاں ٹھہرنا آسان نہ رہا۔ ان دنوں شاہی جرگہ کے زیادہ تر ممبر کوئٹہ میں ہی اقامت پذیر تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے عوام کا بے پناہ ہجوم اور اُن کے فلک شگاف نعروں کے روح پرور مناظر دیکھے۔ چنانچہ وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اور نتیجتاً اُن کے دل کی دھڑکنوں میں پاکستان اور صرف ’’پاکستان‘‘ سما گیا۔ اس عظیم الشان جلوس نے نواب جوگیزئی کے دل و دماغ کو بھی بہت متاثر کیا۔ وہ تشکیل پاکستان کی راہ میں دیوانہ وار آگے بڑھے اور گویا ہوئے: ’’ہم دیکھیں گے ہمارے راستے میں اب کون حائل ہوتا ہے۔ بلوچستان، پاکستان اور صرف پاکستان کا حصہ بنے گا۔‘‘ 27جون کو میر جعفر خان جمالی بھی پہنچ گئے۔ بلوچستان میں پاکستان کے لیے اور بھی زیادہ انہماک کے ساتھ کام شروع ہوچکا تھا۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام پاکستان پر نچھاور کیا جارہا تھا۔ بلوچستان کے سردار کانگریس کی عظیم پیش کشوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا رہے تھے۔ نتیجتاً 28جون کی رات کے دس بجے تک 5سرداروں کے علاوہ تمام سردار پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کا وعدہ کرچکے تھے۔ لیکن اسی رات اے جی جی نے بتایا کہ 29جون کو ریفرنڈم نہیں ہوگا‘ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا 3جون والا اعلان پڑھ کر سنایا جائے گا اور اس کے 24گھنٹے بعد 30جون کو سرداروں کی رائے لی جائے گی۔
یہ بڑی گہری چال تھی۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر کچھ اور بھی رونما ہوسکتا تھا۔ چنانچہ ہندو اور انگریز کی اس ملی بھگت کے خلاف تحریک پاکستان کے دیوانے ڈٹ گئے۔ اُنہوں نے نواب جوگیزئی کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جیسے ہی اے جی جی مسٹر جیفرے پرائر اپنا بیان ختم کرنے لگیں‘ یہ کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ ہم سب سردار فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم پاکستان کے حق میں ہیں اور جو صاحب مخالف ہیں وہ جدا ہوجائیں۔ سب کو یقین تھا کہ اس جرأت مندانہ اور پرعزم طریق کار سے مخالف عناصر کی سازش ختم ہوجائے گی۔ رات بھر تیاریاں ہوتی رہی۔ دوسرے سرداروں کو بھی ذہنی طور پر تیار کرلیا گیا۔ سردار دودا خان مری نے کہا کہ پاکستان کے لیے بلوچوں اور پٹھانوں میں مسابقت ہوگی۔ دیکھیں کون بازی لے جاتا ہے۔ 29جون کو ٹائون ہال کوئٹہ میں دس بجے سب سردار یکجا ہوئے۔ پریس والوں کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی۔ کانگریس اس اجلاس کے بارے میں کچھ زیادہ پریشان نہ تھی۔اس کے سامنے 30جون کی تاریخ تھی اور وہ اس مناسبت سے اپنی چالیں چل رہی تھی۔ ٹائون ہال کے باہر ہجوم ہی ہجوم تھا۔ ایک جانب بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کا کیمپ لگا ہوا تھا۔
ٹھیک دس بجے مسٹر جیفرے پرائرہال میں داخل ہوئے۔ اُنہوں نے پروگرام کے مطابق لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان پڑھنا شروع کیا۔ وہ ابھی یہ اعلان ختم نہ کر پائے تھے کہ نواب جوگیزئی بڑے اعتماد سے اٹھے اور مسٹر جیفرے پرائر سے مخاطب ہوئے: ’’ہم یہ بیان پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے کے لیے مزید وقت نہیں چاہیے کیونکہ شاہی جرگے کے سردار پاکستان کی حمایت میں فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں بیٹھے گا۔ وہ حضرات جو اس فیصلے کے خلاف ہیں‘ ایک طرف ہوجائیں۔‘‘ سردار ودا خاں مری نے بھی پاکستان کے حق میں تقریر کی اور پھر چند ہی منٹ میں تائید کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔ صرف چار سردار درمیان میں کھڑے رہے۔ اُنہوں نے پوچھا: ’’کیا یہ بلوچستان اور قلات کا مسئلہ ہے؟‘‘ مسٹر جیفرے اُردو میں بولے: ’’یہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ قلات کا اس میں کوئی دخل نہیں۔‘‘اس پر ان چاروں سرداروں نے بیک زبان کہا: ’’ہم خان آف قلات سے عہد کرچکے ہیں کہ ان کا ساتھ دیں گے‘ مگر یہ تو پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ ہے ہم اپنا ووٹ پاکستان کو دیتے ہیں۔‘‘ مسٹر جیفرے پرائر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے اُردو میں کہا: ’’اچھا ہم وائسرائے کو تار بھیج دیں گے کہ شاہی جرگے کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے۔‘‘ پورا ہال تالیوں کی گونج اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔
’’نوائے وقت‘‘ نے بلوچستان کے اس اہم ترین فیصلے کی خبر یوں شائع کی:’’بلوچستان نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے منتخب ارکان کا مشترکہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا کہ بلوچستان موجودہ دستور ساز اسمبلی میں شامل ہو یا پاکستان کی مجوزہ دستور ساز اسمبلی میں۔ اس مشترکہ اجلاس میں کل 54ارکان شامل ہوئے۔ سب نے متفقہ طور پر پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیئے۔ آٹھ غیر مسلم اراکان شریک اجلاس نہیں ہوئے تھے۔‘‘
ممتاز دانشور مؤرخ اور صحافی نسیم حجازی کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو منوانے میں نواب محمد خان جوگیزئی‘ میر جعفر خاں جمالی‘ سردار غلام محمد خاں ترین‘ عبدالغفور درانی‘ حاجی جہانگیر خاں اور سردار محمد خان جوگیزئی نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں مسلم لیگ‘ قاضی محمد عیسیٰ‘ بلوچستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ مسلم نیشنل گارڈز‘ ممبران شاہی جرگہ اور دوسرے متعدد کارکنوں کی خدمات بھی قابل صد ستائش ہیں۔ ان سب کی وجہ سے آج بلوچستان دولت خداداد پاکستان کا جزولاینفک ہے۔