2022 ,جون 24
تحریر: فضل حسین اعوان
جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے تو اس عزم کا اعادہ کرتے تھے کہ دہشتگردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑ کر رہیں گے۔ مگر یہ باتیں بیانات کی حد تک رہیں ۔ ان کے اتالیق سمجھاتے کہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ دہشتگردی بڑا ناسور ہے کرپشن اور بے ایمانی بھی کم نہیں۔ جنگوں میں معیشتیں ڈوبتی ہیں۔کرپشن سے بھی ڈوب جاتی ہیں۔ جس سے ریاستیں بھی ٹوٹتی دیکھی گئی ہیں۔ سوویت یونین جدید دور کی مثال ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بطن سے تقسیم بند کا جنم ہوا۔ معیشت ڈوبنے کے باوجود ریاست اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو عوام کا معیار زندگی پستیوں میں گر جاتا ہے۔ آج ایسی نوبت سری لنکا میں آ چکی ہے۔ وہاں پٹرول سمیت انتہائی ضروری درآمدات کی خریداری کے لیے ڈالزر ختم ہوگئے ہیں۔ دو ہفتے کے لیے ملک میں شٹ ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ سری لنکا میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آؤٹ پر بات چیت سے پہلے ہی تیزی سے کم ہوتے ایندھن کے ذخائر کو بچانے کے لیے شٹ ڈاﺅن نافذ کیا گیا ہے۔اس دوران سکول، دفاتر اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں گی۔ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے اپریل میں سری لنکا ڈیفالٹ ہو گیا اور آئی ایم ایف کے پاس "کیپ ان ہینڈ چلا گیاتھا"۔بدترین معاشی بحران کے باعث ہی خونیں عوامی احتجاج کے بعد وزیراعظم راجا پاکسے کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
سری لنکاکی معیشت کے ٹمٹماتے چراغ کے اثرات اس ملک کی بقا اور سالمیت پر تپتے صحرا کے بگولوں کی مانند پڑرہے ہیں۔ یہ ملک ہی اتنا ہے کہ اس کے سکڑنے یا بکھرنے کی گنجائش ہی کم ہے۔ اس کے دوست بھی اسے منجدھار میں دیکھ کر تماشا ہی نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ انہیںاپنے قرض سے غرض تھی۔ چین نے وہ بندرگاہ ہی قرق کر لی جو اسے بنا کر دینے کا احسان کر رہے تھے۔ ہمارے مہربان دوستوں میں چین بھی شامل ہے۔
قرضوں سے معیشت ضرور سنبھالی جا سکتی ہے مگر یہ عارضی حل ہو سکتا ہے۔ قرض درقرض بھی بالآخر معیشتوں اور ریاستوں کو ڈبو دیتے ہیں، قوموں کی زندگی میں اور انفرادی معاملات بھی قرض بے سود نہ ہو تو ناسور بن جاتا ہے۔ قرض کا مطلب کہ جس مد میں لیا اسی میں صرف کر کے لوٹانابھی ہوتاہے۔ جو نہیں لوٹاتے ان کی شہ رگ قرض خواہوں کے نرغے میں اور قضا کے پنجوں میں ہوتی ہے۔ اس کی ہولناک مثال ممبئی کے پڑھے لکھے خاندان کی ہے۔ونمور ٹیچر اس کا بھائی پوپٹ ڈاکٹر تھا۔دونوں نے بھاری قرض لے رکھا تھا قرض خواہ پریشان کرتے تھے۔یہ بھائی الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔ایک ہی وقت میں خاندان کے ۹ افراد نے زہر کھالیا اور ایک پرچی پر خودکشی کی وجہ قرض ہی لکھی یہ قرض اس خاندان کیلئے موت المرض بن گیا۔
تحریک انصاف حکومت کی رخصتی کے بعد میاں شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی۔ پی ٹی آئی اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اس حکومت کے کچھ اکابرین عارف علوی کو صدر پاکستان تسلیم نہیں کرتے مگر یہ دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو دوسرے فریق کو برداشت کرنا ہی پڑ رہی ہیں۔حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 84 اور ڈیزل 120روپے اضافہ کر دیا۔پی ٹی آئی نے اسے مسترد کر دیا مگر اس کے باوجود قیمت برقرار رہی اور اس کے مطابق پی ٹی آئی والے بھی خرید رہے ہیں۔ صدر علوی نے نیب آرڈی نینس پر بھی دستخط نہیں کئے۔آئین کی رو سے وہ قانون کا درجہ اختیار کر گیا۔مگرتاریخ میں یہ رقم ہو گیا کہ اس بل کی "مکمل پارلیمنٹ" سے منظوری نہیں ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ صدر کے ادارے کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ نیب میں ہونے والی ہر ترمیم کو غیر ضروری قرار دے کر اس کی مخالفت نہ ہی ہر ترمیم یا شق کو ناگزیر قرار دے کر حمایت کی جا سکتی ہے۔ بہت سی تبدیلیاں کچھ شخصیات کے مقدمات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں۔ یہ قومی وجود کو بیماری میں مبتلا کرنے سے کم نہیں۔ وقتی مفاد کے لیے کئے گئے فیصلے قوموں کو عرصہ تک بھگتنے پڑتے ہیں۔
ہم بری طرح اس سیاسی کلچر کے دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ جس میں تقرریاں میرٹ پر نہیں اعلیٰ قیادت, پارٹی ممبران کے رویوں کو دیکھ کر کرتی ہے۔ اپنی کاسہ لیسی سے زیادہ دیکھا جاتا ہے کہ مخالف لیڈر شپ کوکون زیادہ رگیدتا ہے اور کون نئے سے نئے بیانیے کی " لے" کواٹھاتاچلا جاتا ہے۔
ہماری معیشت کی زبوں حالی کی جو بھی وجہ ہو اور جو بھی ذمہ دار ہو اس میں کرپشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیب میں ایک ترمیم یہ بھی کی گئی کہ جو افسر کیس بنائے گا ثابت نہ کر سکا تو 5 سال قید ہوگی۔ ہمارے ہاں عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں وہ غنیمت ہے۔ کیس کے اندراج، انویسٹی گیشن اور پراسکیوشن کے دوران کیاکچھ نہیں ہوتا۔ قتل کا ملزم مجرم بننے کے بعد تیسری عدالت سے باعزت بری ہو جاتا ہے۔توکیا مدعی کو سزادی جاتی ہے؟۔
نیب کے دائرہ کار سے کئی معاملات نکال دیئے گئے لیکن دوسرے ادارے تو موجود ہیں۔لہذا احتساب کا پہیہ چلتا رہے گا جس کا انحصار حکومتوں اور متعلقہ افسروں کی نیت اور اہلیت پر بھی ہے۔عمومی رائے ہے کہ کرپشن پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ ہو،اس کے معیشت پر براہ راست اور بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پاکستان گرے لسٹ سے نکلا چاہتا تھا کہ اُڑچن آگئی۔ یقین دلایا گیا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں پاکستان ایف اے ٹی ایف سے کلیئر ہوجائے گا۔یہ بڑی امید افزا پیش رفت ہے۔اس کا کریڈٹ لینے اور دینے کی ایک دوڑ نظر آئی۔ کئی نے شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کی۔بجا طور پر یہ ریاست اور اداروں کا کریڈٹ ہے۔اداروں کو افراد چلاتے ہیں۔پاکستان کو گرے سے نکالنے کےلئے پاک فوج کا جہاں کلیدی کردار رہا وہیں عدلیہ کا کردار بھی کم نہیں مگر عدلیہ کے کردار سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔اس کی طرف سے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے مقدمات میں دئیے گئے فیصلے گرے لسٹ سے نکلنے میں معاون ثابت ہوئے۔اگر حافظ محمد سعید کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ان کو مجموعی طور پر پچاس سال سے زائد کی قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔وہ خود، پروفیسر ظفر اقبال،حافظ عبدالسلام،محمد اشرف اور یحیٰی مجاہد قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ان لوگوں کی کالعدم ہونے والی جماعت کے فدائین موجود ہیں۔ان کا عسکری کام مقبوضہ کشمیر میں رہا ہے۔ پاکستان میں ان کے فلاحی ادارے کام کرتے تھے جو اب حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ان لوگوں کو گرفتارکیا گیا تو کہیں احتجاج کی کال دی گئی نہ مظاہرے ہوئے۔اعلیٰ قیادت نے کارکنوں کو پُرامن رہنے کا پیغام دیا۔صرف اس لئے کہ پاکستان مشکل میں تھا،ان کا احتجاج ملک کے مصائب مزید بڑھا دیتا اور گرے سے پاکستان بلیک لسٹ میں جاسکتا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کا فوکس منی لانڈرنگ پر ہے۔ نیب قوانین جس طرح تبدیل کئے جارہے ہیں،گرے لسٹ سے نکلنے کے اقدام کو خدا نخواستہ ریورس گیئر نہ لگ جائے۔اس کا ادراک وطن کے فیصلہ سازوں کو یقیناً ہوگا۔