فاطمہ جناح کی موت۔۔۔طبعی یاقتل۔۔۔پڑھیں اس تحریر میں

2017 ,مئی 19



لاہور (سیداسامہ اقبال)سابق اٹورنی جنرل اورقائداعظم رح کے سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ اسلام آبادکی ایک کانفرنس کے بعد انکشاف کرتے نظرآئے کہ محترمہ فاطمہ جناح کوقتل کیاگیاتھاانکی موت طبعی نہیں تھی اورقاتل انہی کانوکرتھا۔انہوں نے کہاکہ وہ بتاناچاہتے ہیں کہ کس نے اس کیس کویکسرچھپادیااورپولیس نے کس طرح اس ضمن میں گونگے اوربہرے کاکرداراداکیا۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کل 43ویں برسی اور 44 واں یومِ وفات ہے۔ ان کا 9جولائی 1967 کو انتقال ہوا۔سرکاری طورپر ان کی موت کا سبب دل کا دورہ قرار دیا گیا تاہم کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مادرِ ملت کو قتل کیا گیا۔محترمہ کے قتل کی بازگشت ان دنوں محدود میڈیا میں بھی سنائی دی تھی۔ بی بی سی کی چند سال قبل نشر ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محترمہ کی موت کے بارے میں تنازع کو سب سے زیادہ ہواسائرہ ہاشمی کی کتاب نے دی۔ سائرہ ہاشمی کی کتاب” ایک تاثر دو شخصیات“ میں محترمہ کے قتل کا دعویٰ کیا گیا ہے۔کتاب میں کہا گیاہے کہ محترمہ کے گلے پر نشانات تھے اور ان کے بستر پر خون کے چھینٹے بھی تھے۔
جناب پیرزادہ کہتے ہیں کہ مس جناح ایک شادی سے گھرواپس دیرسے آئیں اورانہوں نے گھرمیں تالالگایااورچابی کودرازمیں رکھ دیاحسب عادت پھرسونے کے لیے چلی گئیں
صبح کوجب وہ نہ اٹھیں توانکی پڑوسن بیگم ہدایت اللہ نے پولیس کمشنر آف کراچی اورانسپکٹرکی موجودگی میں دروازہ کھلوایااورانہیں مردہ حالت میں پایا۔جناب پیرزادہ کہتے ہیں قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان سے کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے، مگرتحقیقات کے لئے ان کی درخواست مسترد کردی گئی تھی شریف الدین پیر زادہ کے بقول پیر بھائی نے ایوب خان سے ملاقات ان کی موجودگی میں کی تھی۔

 


ایک قوم کے لیے اس سے بڑھ کراورکیابدنصیبی ہوگی کہ اس پراحسان کرنے والوں کے ساتھ کیاسلوک کیاگیاشایدہماری بربادی کی وجہ بھی یہی محسن کشی ہی ہے صرف برسی منانے سے ہی مقاصدحاصل نہیں ہوجاتے بلکہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کے ساتھ شایان شان سلوک کرتی ہیں،لیکن صدافسوس کہ ہم مسلمان اس زندہ جذبے سے یکسرعاری ہیں۔فاتح یروشلم صلاح الدین ایوبی رح کی مزارتوخستہ حال ہے لیکن رچرڈکی یادگارشاندارہے،پاکستان کے دفاع کومستحکم کرنے والے کوہم نظربندکردیتے ہیں لیکن ابولکلام کوصدربنادیاجاتاہے،نوازشریف نے جب سرے محل بنائے تووہ ہماراوزیراعظم تھالیکن جب اس نے عالمی دباﺅکے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکارکرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیئے تواسے کوٹ لکھپت جیل بھیج دیاگیا۔یہ ہماراقومی وطیرہ ہوگیاہے زندہ قوموں کایہ وطیرہ نہیں ہوتاہے۔
مادرِ ملت بانی پاکستان کی ہمشیرہ اور پاکستان کی سیاست کا اہم اور سرگرم کردار تھیں ان کی موت کے حوالے سے ایک ابہام پیدا ہوچکا ہے۔یہ ہرصورت کلیئر ہوناچاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح کی موت کے حوالے سے تنازع سامنے آنے پر ایک تاجر حاجی گل احمد نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائے کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی تھی یا ان کو قتل کیا گیا تھا۔یہ درخواست بھی شاید ان درخواستوں کے ڈھیر میں گ±م ہوچکی ہے جن کا مقدر دیمک کا کھا جانا ٹھہرتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے۔ ہمارا تعلق عدلیہ سے ہے یا انتظامیہ سے۔ یا صحافت سے خواہ کسی بھی شعبہ سے۔ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت کے حوالے سے بے حس نہیں ہوناچاہئے حکومت ٹربیونل یا کمشن کے ذریعے تحقیقات کرائے۔اگر واقعتا محترمہ کو قتل کیا گیا ہے تو محرکات سامنے لائے جائیں اور قاتلوں کو بے نقاب کیاجائے۔ اگر کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو اس سے بڑی بے حسی اور احسان فراموشی اور کوئی نہیں ہوسکتی۔

تحریر:زبیر احمد
 


 

متعلقہ خبریں