قومی حکومت کی جگالی

2020 ,اپریل 25



حبس اور مونجی کی افزائش کا ایک ہی موقع و موسم اوررُت ہوتی ہے جس میں بارشوں کی شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی صورت میں چاول کے علاقوں میں لوگ دلیے کی دیگیں دیا کرتے، دعائیں مانگتے اور بے تکلف لوگوں کا ایک دوسرے پر پانی پھینکنے کا کلچر بھی تھا۔ بچے ایک کے منہ پر کالک لگا کر یہ کہتے گھر گھر جاتے ’’ٹوڈھے دامنہ کالا، ٹوڈھا مینہ منگدا۔کالیاں اِٹاں کالے روڑ مینہ ورھا دے زوروزور‘‘ خواتین ان بچوں کو عموماً دانے گُڑ،یاکوئی بھی اناج دے دیتیں جس سے بچے ہٹی سے بارٹر سسٹم کے تحت "مچھی" (ٹافی کی قدیم قسم) ٹانگری، مرونڈا وغیرہ لے کے کھالیتے۔ ایک بارہم نے معصومیت سے اُس وقت ’’ٹوڈھا‘‘ بنا لیا جب گندم کی کٹائی ہو رہی تھی۔ پہلے گھر سے صرف ’’فٹے منہ فٹے منہ' کہا گیا۔ کچھ سمجھ نہ آئی۔ دوسرے گھر سے بیبیوں نے جوتے اُٹھالئے۔ گندم کی کٹائی میں کسان سونے کا قطرہ بھی نہ برسنے کی دعاکرتا ہے ۔ ہم زور کی بارش مانگ رہے تھے، چھتر تو پڑنے ہی تھے۔

یہ واقعہ قومی حکومت کے قیام کی باز گشت سے یاد آگیا۔پوری دنیاکرونا کی مصیبت میں پھنسی ہے جبکہ کچھ نوزائیدہ دانشوروں نے ’’قومی حکومت‘‘ کی جگالی شروع کر دی۔ باسی کڑھی میں تازہ اُبال لا رہے ہیں۔ہم نے تو معصومیت میں’’ٹوڈھا‘‘ بنا لیاجبکہ اِن کا سازشی ذہن بروئے عمل ہے۔ ان بسنت اور شب دیجور کے اندھوں کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔

ایسے دانشوروںکی ’’ڈھمکیری ‘‘ کی تھاپ پر قومی حکومت کے فرسودہ ’’نظریے اور فلسفے کو Food of thought کہہ کرچینلزپر کچھ سیلف فنانسر عوامی نمائندے تجزیہ کار بن کربھی دھمالیں ڈالنے لگے۔ انکے سکول آف تھاٹ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے:امتحان ہو رہا تھا۔ بوٹی چل رہی تھی۔ بوٹی ساز نے پوچھا پہلا سوال کر لیا تو دوسرا بھیجوں ۔ ’’ابھی ہاتھ بنا رہا ہوں‘‘(ٹیسٹ پیپر میں اہم سوال کے سامنے ہاتھ کا نشان بنا ہوتا ہے اسے بنانے کی کوشش میں تھا)۔ 'بوٹیارے' نے پیپر کے بعد دوستوں کو فخریہ بتایا پیپر گڈ دیا ہے۔ سب کچھ دیکھ کر لکھا ہے۔ کسی نے کہا‘ ایسے تو مارکنگ کرنیوالے کو نقل کا پتہ چل جائے گا۔ "مجھے پھتو سمجھتے ہو، ایک کے بعد ایک سطر چھوڑ کر لکھا ہے"۔ جو نتیجہ آنا تھا وہ ظاہر ہے۔ بالآخر اپنی جگہ بوٹی ساز سے امتحان دلا کر میٹرک کی سند حاصل کی ، اگلی ڈگریاں تو سرِبازار مل جاتی ہیں۔ایسے فاضل حضرات چینلز پر بھاشن دیتے ہوئے قومی حکومت اور تبدیلی ٔ حکومت کی سوچ کا اظہار کرنیوالوں کو دورِ حاضر کا ارسطو و سقراط قرار دیتے ہیں اور وہ خود کوایسا سمجھنے بھی لگتے ہیں۔ان شاعروں کی طرح جن میں سے ایک کو بھارت کے دورے کے دوران کسی نے غالب کے پائے کا شاعر قرار دیا تو وہ اس پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے۔دوسرے کوکسی ایرانی نے شیخ سعدی کا ہم پلہ کہہ دیا وہ بھی اس کی تشہیر بڑے نازو انداز سے کرتے ہیں۔دونوں تلوار بدل حریف بھی ہیں۔

قومی حکومت اور جمہوریت کا آپس میں کیا تعلق اور پھر ضرورت بھی کیا ہے؟ قومی حکومت کی اختراع ان اذہانِ ذکاکی پیداوار ہے جن کے لئے حکومت کا وجوداپنی عدم پذیرائی پر ناقابلِ برداشت ہے اور رہا ہے ۔ نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ’’ننھے منھے‘‘ جمہوری ادوار میں قومی حکومت کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور پھر 2008ء سے 2017ء کے انتخابات تک بھی قومی حکومت کے قیام کی پکار سنائی دیتی رہی۔ مطالبہ ہر دور میں ایک ہی رہا تاہم مطالبۂ فغاں بدل جاتا رہا۔ سیاسی اور کچھ صحافتی حلقوں میں من پسند حکومت نہ ہونے پر بھونچال کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایسی تڑپ جیسے کرِلی کڑھتے تیل کی کڑاہی میں گر جائے۔ کچھ جید دانشوروں کو عمران خان کی شخصیت سے خدا واسطے کا ’’ویر‘‘ہے۔کسی بھی طریقے سے عمران خان کو چلتا کیا جائے۔ ان کی جگہ شہباز شریف آ جائے توفَبِہا، شاہ محمود قریشی ، اسد عمر بھی قابلِ قبول، فوج آ جائے توبھی شہنائیاں تیار ہیں۔اور پھر یہ موقع بھی کونسا ہے کہ حکومت تبدیل کی جائے یا قومی حکومت بنائی جائے۔کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ایسی کرونا سوچ و پکار سے قافلے رُکتے ہیں نہ بددعائوں سے ڈھور ڈنگر مرتے ہیں۔

کرونا وائرس سے دنیا کی ہسٹری اور زندگی کی کیمسٹری بدل رہی ہے۔ عالمی منظرنامہ بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کرونا کی زد میں آنے والے مریض اور لاشیں سنبھل نہیں پا رہیں۔ باقی دنیا کی نسبت پاکستان میں صورتحال کم ہولناک ہے۔حکومت نے لاک ڈائون میں تھوڑی سی نرمی کی تو ڈاکٹرز نے سخت وعید سنائی۔ ان کی نظر میں لاک ڈائون میں مزید سختی‘ مساجد اور کاروبار بند کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ہسپتال کم پڑ جائیں گے۔ مریضوں کا سڑکوں پر علاج کرنا پڑے گا۔ کچھ مذہبی حلقے مساجد مکمل کھولنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ حکومت 20 نکات پر عمل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں اگر ان نکات کی خلاف ورزی کی گئی تو مساجد بند کرنا پڑیں گی۔ اس سے مساجد یقینا آباد رہیں گی۔ حکومت کے سامنے کرونا کے تدارک کے ساتھ لوگوں کو لاک ڈائون کی سختیوں کے جان لیوا اثرات سے بچانا بھی ہے۔ حکومت بے وسیلہ لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ سپلائی لائن ٹوٹنے نہیں دی۔ بدتر حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے گھر گھر راشن پہنچانے کے انتظامات کر دیئے گئے ہیں۔ ٹائیگر فورس کو معاوضہ دیا جائے گا نہ کوئی مراعات ملیں گی۔ قومی حکومت پر زور دینے والے ٹائیگرز فورس کا حصہ بنیں۔ ان کے پروردہ گان وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں حصہ ڈالیں۔ اس فنڈ میں ایک روز کی وزیراعظم کی ٹیلی تھون میں تین ارب روپے جمع ہو گئے۔

کرونا سے زیادہ انسانی المیہ غربت پیدا کر سکتی ہے۔ بھوک‘ غربت‘ مفلسی انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ اس سے احساس معدوم ‘ انسانی جذبے مر جاتے ہیں۔ انسان ایک دوسرے تک کو کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ رشتوں کا تقدس کھو جاتا اور غیرت تک سو جاتی ہے۔ اس سے ہر صورت بچنا ہے۔ یہ وقت حکومت کی تبدیلی اور کسی ایڈونچر کا کام انسانیت کیلئے کام کرنے کا ہے۔ کرونا کی دلدل سے نکل لیں پھر مہم جوئی اور دیگر شوق پورے کرلیں۔ ایک حکومت ہٹائیں دوسری بنائیں۔ قومی حکومت لائیں یا جو بھی مزاجِ ِ یار میں آئے کریں۔کرونا دیہاڑی داروں اور روزگار پر غضب ڈھا رہا ہے۔ کئی لوگ روزگار کی سبیل نکالتے نظر آئے۔ شہروں میں ماسک اور دستانے بیچنے والے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ گرمی شروع ہو رہی ہے۔ ائیر کولر بننے لگے، کئی نے اپنی بند دکانوں کے سامنے جالی بنانا شروع کر دی۔کئی سبزی اور فروٹ بیچ رہے ہیں۔ ایک 'نیک نیت' بیروزگار ہوئے نوجوان کے رابطہ کرنے پر اسے ایسا ہی کوئی کام کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے کہا چھابڑی ریڑھی نہیں لگا سکتا، آپ کینیڈا والے وڑائچ صاحب سے بات کریں۔ مجھے اس کے سٹیٹس کانشس اور ہڈحرامی پر غصہ تو آیا تاہم تسلی دی، ٹھیک ہے۔ ان سے بات کر کے کہتا ہوں آپ کو وڑائچ طیارہ لے کر دے دیں۔

متعلقہ خبریں