2020 ,مئی 2
اس نے بھی بیٹے کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ جرمنی میں نوے لاکھ روپے سے علاج کی امید پیدا ہوئی تو وہ 14 سالہ بیٹے کو جرمنی لے گیا۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے لندن جانے کا مشورہ دیا۔ مگر قدرت کے کاموں میں کون مخل ہوسکتا ہے۔ باپ نے لندن میں بیٹے کا دل پھٹتے اور موت کی تاریک غار میں جاتے دیکھا ۔ یہ المناک داستان وہ چینل پرسنا رہے تھے۔انکا بیٹا تو نہ بچ سکا تاہم ایسے ہی مرض کا شکار دیگربچوں کو بچانے کیلئے وہ سرگرم ہوگئے۔ یہ مرض ہے تھیلیسیمیا۔وہ کہتے ہیں انکی تنظیم کو مفلس لوگوں کے تھلیسیمیا کے شکار بچوں کو خون کی فراہمی ممکن بنانے میں سالانہ 3 کروڑ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا انتظام ہو جاتا ہے۔ انکے پاس کس طرح کے والدین بچے لاتے ہیں، اس کا اندازہ اس خاتون کی بپتا سے ہو سکتا ہے۔ اسکے دو بچے خون لگواتے ہیں ان کو ہر ہفتے 6 ہزار روپے کا خون لگتا ہے۔کسی بچے کو سترہ دن خون نہ لگے تو موت کی طرف سفر شروع ہوجاتا ہے۔ اس خاتون نے کچھ مدد کی درخواست کی۔انہوں نے کہا پیسے نہیں دے سکتے۔خاتون گویا ہوئی پیسوں کی ضرورت نہیں، ہمارا گزارا شادی ہالز کے بچے کھچے کھانے پر ہوتا تھا۔ اب کرونا وائرس کے باعث شادی ہال بند ہیں۔ چار دن سے بھوکے ہیں ۔ آپ ہمیں کچھ بھی نقد نہ دیں بچوں کو ہفتے میں چھ ہزار کا خون لگتا ہے ،وہ خون نہ لگائیں۔ ان پیسوں کا ہمیں راشن لے دیں۔ایسی افلاس کی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم توہے ہی مگر اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
کوئٹہ کے مشتاق رئیسانی اور کراچی کے لیاقت قائم خانی یہ سرکاری ملازم تھے۔ انکی جائیدادیں اربوں روپے کی ہیں۔ سونے اور جواہرات کے زیورات کلوگرامز میں ملے ہیں۔ اربوں روپے کے بنک اکائونٹس اور نقدی بھی ان سے برآمد ہوئی۔ یہ معمولی قسم کے بیوروکریٹس تھے۔ بڑے بیوروکریٹس میں کوئی نیب کی حراست میں ہے کوئی ضمانت پر ہے۔ توقیر صادق کتنے ارب روپے لے اڑا،احد چیمہ فواد حسن فواد جیسے لوگ کیسز بھگت رہے ہیں۔ میاں نواز شریف پر کتنی کرپشن کے الزامات ہیں۔ میاں شہباز شریف کس کس کیس میں ماخوذ ہیں ، اسحٰق ڈار کے اثاثے کتنے سے کتنا گنا بڑھ گئے۔ آصف زرداری، فریال تالپور کے کتنے ارب روپے کے جعلی اکائونٹس سامنے آئے۔ گیلانی،پرویز اشرف خورشید جہانگیر ترین ،علیم خان،مجید غنی ،حسین لوائی ،میاں منشاء ملک ریاض کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔انکے علاوہ اور اور۔۔۔ہزاروں ہیں ان میں سے ہر کوئی ملک کے قرض اتارنے کی پوزیشن میں ہے۔ جرم ثابت ہونے تک مظلومیت اپنی جگہ مگر احتساب سے راہ فرارکی کوشش ملزم کو مجرم کی صف کے قریب کردیتی ہے۔
شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب اُس دور کا قصہ لکھتے ہیں جب وہ جھنگ میں ڈپٹی کمشنر تھے" پرائمری سکول کا استادرحمت الٰہی میرے دفتر میں آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ریٹائرہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں‘ رہنے کیلئے اپنا گھر بھی نہ تھا۔ پنشن معمولی ہوگی‘ اسے یہ فکر کھائے جارہی تھی۔ اس نے مجھے سرگوشی میں بتلایا، پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں حضور نبی کریم ؐ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم جھنگ جاکر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتائو‘ اللہ تمہاری مدد کریگا"۔
تشکیک و یقین کی کیفیت کے بعد قدرت اللہ شہاب کہتے۔" یہ شخص اگرغلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کافرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتوں کے بعد دوبارہ آنے کیلئے کہا۔
اس دوران میں نے خفیہ طور پر اسکے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہوگئی کہ وہ سچ کہہ رہاتھا۔ میں نے اپنے مال افسر غلام عباس کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کرائون لینڈ کے آٹھ مربع تلاش کرے ۔ اس نے ایسی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کردئیے۔
دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے قبضہ دلا دیا۔ تقریباً 9 برس بعد میں صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ کام کررہا تھا کہ ایوان صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوایہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھا۔خط کی مطابق رحمت الٰہی نے زمین پر محنت کرکے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی۔ اپنی بیوی کے ساتھ فریضہ حج بھی ادا کرلیا ہے‘ اپنے گزارے اور رہائش کیلئے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا کوٹھا بھی تعمیر کر لیا ہے۔ اس خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں چنانچہ الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جاسکے۔خط پڑھ کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا‘ میں اس طرح گم سم بیٹھا تھا کہ صدر ایوب میرے کمرے میں آگئے ’’کس سوچ میں گم ہو‘‘ انہوں نے حالت بھانپ کر پوچھا میں نے رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا ، وہ بھی نہایت حیران ہوئے۔کچھ دیر خاموشی رہی پھر وہ بولے۔" یہ اراضی اب تم رکھ لو"۔میں نے لجاجت سے گزارش کی ۔" میں اس انعام کا مستحق نہیں۔ آخر میں فقط دو گز زمین ہی قبر کیلئے کام آتی ہے"۔
یہ بھی سن ملاحظہ کر لیجئے۔"شہاب صاحب کو مستری کا ایک ہزار روپے کھراس کا کلیم موصول ہوا۔ اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے اسے 15 سو کا فارم پُر کرنے کو کہا۔ اس نے ایسا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کی مشین کی قیمت ہی ایک ہزار تھی۔ شہاب صاحب نے کہا جب خریدا تو ایک ہزار ہو گی اب قیمت بڑھ چکی ہے۔ نہیں صاحب! کسی بھی چیز کی قیمت اس کے استعمال سے زیادہ نہیں کم ہوجاتی ہے۔
کسی نے ملک کو لوٹ کر جائیدادیں بنائیں یا قرض لیکر جائیدادوں میں بہت اضافہ کر لیا ۔ ’مبارک ہو‘۔ اب ماسٹر رحمت الٰہی کی طرح اصل زر لوٹا دیجئے۔ کرونا نہ جانے دنیا کو کیا کچھ دکھا دے۔کرونا کا عذاب بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بالخصوص امراء کو اپنی خوشنودی کا موقع فراہم کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی طرح بہت سے لوگوں کو دوگز قبر کی خوش گمانی ہو گی۔ 1918ء کے طاعون میں لاشوں کو جلا دیا، دریا میں بہا دیا یا کنویں میں پھینک دیا جاتا تھا۔بے شبہ موت برحق ہے مگر قبرنصیب ہونے پر شک ہے۔ "