2017 ,اگست 15
لاہور(مہرماہ رپورٹ): سن 1947 میں یہ تو پکا ہو ہی چکا تھا برصغیر کی تقسیم کی جائے گی لیکن اس کا ٹائم فریم طے نہیں تھا۔ تو اسی دوران فرانس میں عالمی بوائے سکاؤٹس کا کنونشن آ گیا جسے جمبوری کہا جاتا ہے۔ تو انڈیا کی جانب سے جو بوائے سکاؤٹس کا دستہ بھیجا گیا اس میں مسلمان سکاؤٹس بھی شامل تھے جن میں سے ایک نوجوان کا نام سرفراز رفیقی تھا جو بعد میں پاکستان ائیر فورس کا ایک لیجنڈ پائلٹ بن کر ابھرا اور پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہلالِ جراءت حاصل کرتے ہوئے 65 کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سب لوگ انڈیا کے سکاؤٹس کے دستے میں اکٹھے بحری جہاز پر فرانس کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی راستے میں ہی تھے کہ انہیں پتہ چلا کہ چودہ اگست کو برصغیر کی تقسیم ہونا طے پائی ہے۔ یہ بات سن کر سب مسلمان سکاؤٹس اکٹھے ہوئے اور آپس میں فیصلہ کیا کہ چاہے جو بھی ہو چودہ اگست کو ہمارا الگ ملک بن جائے گا تو اس دن ہم کسی بھی صورت انڈیا کے جھنڈے کو سلامی نہیں دیں گے بلکہ اس دن ہم اپنے الگ ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے سبز ہلالی پرچم کے نیچے الگ کھڑے ہوں گے۔
یہ بات جیسے ہی سکاؤٹس دستے کے ہندو لیڈر کو پتہ چلی اس نے تمام مسلمان سکاؤٹس کا کھانا بند کروا دیا کیونکہ خرچ کے لیے تمام رقم اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس تمام سفر کے دوران مسلمان سکاؤٹس پورے دن میں مشکل سے ایک وقت کا کھانا کھا کر گزارا کرتے رہے لیکن ان میں سے ایک بھی پاکستان کی نمائندگی کرنے کے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹا۔
اگلا مرحلہ جھنڈا حاصل کرنے کا تھا۔ پاکستان ابھی بنا بھی نہیں تھا تو اس کا جھنڈا کہاں سے ملتا تو سب مسلمان سکاؤٹس نے جھنڈا خود سینا شروع کیا۔ لیکن ایک مشکل اس وقت پیدا ہو گئی جب یہ پتہ چلا کہ سبز رنگ کا کوئی بھی سوٹ کسی بھی مسلمان سکاؤٹ کے پاس موجود نہیں۔ یہ بات جہاز پر ان کے قریبی کیبن میں رہائش پذیر ایک نوجوان ترک لڑکی نے سن لی اور وہ کسی کے کہے بنا اپنے کیبن میں گئی اور اپنے بالکل نئے سبز سوٹ کا دوپٹہ لا کر ان سکاؤٹس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
اس طرح پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تیار کیا گیا۔
اور ارادوں کے پکے مسلم سکاؤٹس نے چودہ اگست کے دن باقی انڈین سکاؤٹس سے الگ ہو کر اپنے علیحدہ آزاد ملک کی نمائندگی کی اور سبز پرچم کو سلامی دے کر پاکستان سے باہر پاکستان کی
نمائندگی کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔