2017 ,جون 19
لاہور(مہر ماہ رپورٹ): لاہور علم و ادب اور سیاسی سرگرمیوں کامرکز ہی نہیں لذیز کھانوں کے حوالے سے بھی مشہور ہے جبکہ لاہوری اپنی زندہ دلی اور خوش خوراکی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ لاہور میں سیکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں منفرد، لذیز اور شہرت یافتہ اشیاءکھانے کو ملتی ہیں۔ مچھلی، نہاری، ہریسہ، سری پائے، تکے کباب، مرغ چنے، حلیم، مرغ و مٹن کڑاہی، پٹھورے، دال چاول سمیت کئی کھانے اپنی انفرادیت اور ذائقے کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں دستیاب ہیں۔
لاہور میں گوالمنڈی کی فوڈ سٹریٹ نسبت روڈ بتی والا چوک سے مین بازار گوالمنڈی تک کی سڑک کے دونوں طرف کے گیٹ ٹریفک کے لئے بند کر دیے جاتے ہیں اور یوں شام ڈھلتے ہی یہ سڑک فوڈسٹریٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہاں زیادہ تر گوالے آباد تھے جو انگریزوں کی فوجی چھاونی میں دودھ فراہم کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ علاقہ گوالمنڈی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ جب بھینسوں کو شہر سے باہر منتقل کیا گیا تو گوالے بھی یہاں سے چلے گئے۔
گوالمنڈی کا علاقہ فوڈ سٹریٹ بننے سے قبل بھی لذیز کھانوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ خاص طور پر امرتسر کے مشہور کھانے ہریسہ، نہاری، مغز، بونگ، سری پائے، دیسی مرغ، مچھلی، بریانی، حلوہ پوری، لسی وغیرہ خاصے مقبول تھے۔ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد امرتسر سے آنے والے مہاجرین نے یہاں رہائش اختیار کی اور یہ علاقہ امرتسریوں کا گڑھ بن گیا۔ یہاں کے بہت سے کھانے ان کے دکانداروں کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ دور دور سے کھانا کھانے یہاں آنے لگے۔یہاں کی سب سے قدیم دکان تکے کباب کی ہے ۔ یہ دکان 1947ءمیں قائم ہوئی تھی۔ اس سے پہلے لاہور میں سیخ کباب ہی کھائے جاتے تھے۔ نامور سیاستدان، سرکاری افسر، اہم شخصیات اور امراءیہاں تکے کھانے آتے تھے۔ اہم غیر ملکی شخصیات کی لاہور آمد پر سرکاری دعوتوں میں یہاں کے تکے کباب پیش کئے جاتے تھے۔
گورنر پنجاب کی ہدایت پر جب تجدید لاہور کے پروگرام کا آغاز ہوا تو کھانے پینے کی تہذیبی روایات کو اجاگر کرنے کے لئے انتظامیہ نے گوالمنڈی کا انتخاب کیا۔ 15 مارچ 2000ءکو فوڈ سٹریٹ کے منصوبے کا آغاز ہوا اور صرف سات ماہ میں فوڈ سٹریٹ مکمل ہو گئی اور 20 اکتوبر 2000ءکو اس کا افتتاح کیا گیا۔ فوڈ سٹریٹ کے دونوں اطراف کی دکانوں اور مکانوں کی بالکونیوں کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی گئی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے طلبا نے بھی اس سلسلے میں معاونت کی۔ پرانے مکانوں کی مرمت کر کے ان پر خوبصورت رنگ و روغن کیے گئے۔ بالکونیوں کے نیچے مختلف رنگوں کی لائٹیں لگائی گئیں جن کی روشنی میں بالکونیاں اور جھروکے نہایت دلکش منظر پیش کرنے لگے۔ اس تزئین و آرائش پر تقریباً بائیس لاکھ روپے خرچ ہوئے جس کے لئے مختلف اداروں نے مالی تعاون کیا۔ یہ تمام کام اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اور موجودہ چیئرمین والڈ سٹی اتھارٹی کامران لاشاری کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ان کی نگرانی میں اب بھی اندرون شہر میں کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
جہاں فوڈ سٹریٹ قائم کی گئی ہے وہاں قیام پاکستان سے پہلے امیر ہندو مقیم تھے۔ پاکستان بننے کے بعد امرتسر سے آنے والے مہاجرین یہاں مقیم ہوئے۔ یہاں ایک بلند عمارت میں روزنامہ ”سفینہ“ کا دفتر تھا جس کے ایڈیٹر وقار انبالوی تھے۔ چوک میں امرتسریوں نے دو ہوٹل کھول لیے جہاں رات گئے گاہکوں کا رش رہتا اور فلمی گیت بجتے رہتے۔ ایک ہوٹل کی بالائی منزل پر معروف درویش شاعر ساغر صدیقی نے امرتسر سے ہجرت کر کے رہائش اختیار کی۔ امرتسر سے ہجرت کر کے بہت سے ادیب اور شاعر گوالمنڈی میں رہائش پذیر ہوئے اور رات دیر تک ان کی محفلیں جمتی تھیں۔ اس طرح یہ علاقہ پہلے سے ہی ادب و ثقافت کا گہوارہ تھا۔ فوڈ سٹریٹ بننے کے بعد اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
فوڈ سٹریٹ بننے سے پہلے یہاں تیس سے زائد دکانیں کھانے پینے کی تھیں جبکہ تقریباً پچاس دکانیں فوٹوگرافر، کریانہ مرچنٹ، طبیب، کمہار، جراح، حجام، پتنگ فروش، دھوبی، بجلی کے سامان، سائیکلیں مرمت کرنے والوں کی تھیں۔ لیکن اب 80 سے زائد دکانیں ریستورانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ شام کو فوڈ سٹریٹ کے دونوں اطراف لوہے کے بڑے گیٹ بند ہو جاتے ہیں جبکہ ملحقہ گلیوں کے لوہے کے گیٹ بھی بند کر دیئے جاتے ہیں۔ یوں ٹریفک کی آمد و رفت فوڈ سٹریٹ میں معطل ہو جاتی ہے صرف پیدل چلنے والوں کو راستہ ملتا ہے۔ یہ دروازے شام سے رات دو تین بجے تک بند رہتے ہیں۔
شام ہوتے ہی مختلف کھانوں کے شوقین فوڈ سٹریٹ کا رُخ کرتے ہیں ۔مقامی لوگوں کے علاوہ بیرون ملک سے آئے سیاح بھی کثیر تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ غیر ملکی سرکاری مہمانوں کو بھی یہاں خاص اہتمام سے لایا جاتا ہے ۔تب یہاں بینڈباجے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور پنجاب کے روایتی و ثقافتی لباس میں ملبوس فنکار بھی موجود ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران یہاں سحری اور افطاری کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ لاہوریوں کی بڑی تعداد یہاں سحری اور افطاری کرتی ہے۔ یوں ثواب اور چٹخارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ شام کو جب لوہے کے گیٹ بند کر کے ٹریفک معطل کر دی جاتی ہے تو فوڈ سٹریٹ میں صفائی اور پانی کے چھڑکاو کے بعد مخصوص طرز کے میز اور کرسیاں لگا دی جاتی ہیں۔ یہ میز اور کرسیاں لوہے کی ہیں جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس کے طلبا نے ڈیزائن کی ہیں۔ فوڈ سٹریٹ میں امیر اور غریب مختلف کھانوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں کیونکہ یہاں کھانوں کی قیمتیں دیگر علاقوں میں موجود ہوٹلوں سے کم ہیں۔ فوڈ سٹریٹ گوالمنڈی کا چرچا دنیا بھرمیں رہا ۔غیر ملکی سیاح لاہور آتے تو فوڈ سٹریٹ دیکھنے کی خواہش کرتے۔ روایتی کھانوں کے علاوہ چنگیر میں رکھی روٹیاں، مٹی کی ٹھوٹھیوں میں کھیر، مکئی کی روٹی، ساگ، مکھن سیاحوں کو متاثر کرتی ہیں۔