اس نے اپنی روح اُس گیت کے عوض ابلیس کے پاس گروی رکھوا دی تھی۔ لیکن کیسے ؟؟ خلیفہ ہارون الرشید کے دور کا سچا واقعہ

2019 ,ستمبر 6



عربی موسیقی کو عباسی خلافت کے زمانے میں عروج حاصل ہوا‘ زیرنظر واقعے کا تعلق عباسی دور ہی سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ابراہیم موصلی کو وہی مقام حاصل تھا جو برصغیر میں تان سین کو۔ اسی طرح موسیقی کی ’گرامر‘ میں موصلی نے وہی کارنامے انجام دیے جو برصغیر میں حضرت امیرخسروؒ نے۔ اس واقعے کا تذکرہ ابوالفرج اصفہانی نے اپنی کتاب ’الآغانی‘ میں رقم کیا ہے ۔
ابراہیم موصلی خلیفہ ہارون الرشید کا درباری موسیقار تھا‘ اُسے پورا ہفتہ دربار میں حاضر رہنا پڑتا تھا تاہم بعدازاں اس کی درخواست پر خلیفہ نے اسے ہفتے کے دن چھٹی کرنے کی اجازت دے دی۔ پہلی چھٹی کے روز ہی یہ واقعہ پیش آیا۔
موصلی نے گھر کے چوکیدار کو ہدایت کر دی کہ کسی کو اندر نہ آنے دے۔ پھر وہ ریاض میں مصروف ہو گیا‘اُس وقت وہ اپنی رقاصہ کے ہمراہ اکیلا تھا ، کسی کو کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی کہ اچانک وہ کیا دیکھتا ہے کہ بہت زیادہ عمر کا ایک بوڑھا اس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ صاف کپڑے‘ چھوٹا سا عمامہ اور ہاتھ میں چاندی سے مڑھی ہوئی چھڑی۔ خوب خوشبو لگا رکھی تھی۔ موصلی بہت مشتعل ہو گیا اور ارادہ کر لیا کہ وہ چوکیدار کو نوکری سے نکال دے گا جس نے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس عجیب و غریب بوڑھے کو اندر آنے دیا۔
موصلی کا بیان ہے ’’’اس بوڑھے نے جس کے چہرے سے رعب ٹپک رہا تھا‘ میرے قریب آ کر شائستگی سے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ اس نے بیٹھتے ہی پرلطف اور معلوماتی باتیں شروع کر دیں جنہیں سن کر میرا غصہ ختم ہو گیا۔میرے اشارے پر رقاصہ ایک طرف مسہری پر نیم دراز ہو گئی۔
میں نے اسے کھانے کی دعوت دی‘ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ پھر میں نے شراب کے بارے میں پوچھا تو اس نے ہاں کر دی۔ میں نے رقاصہ سے کہہ کرایک جام اس کے لیے اور دوسرا اپنے لیے بنوایا۔ پھر وہ بوڑھا مجھ سے یوں گویا ہوا ’’ابواسحق کیا تم مجھے اپنا وہ گانا سناؤ گے جسے ہر خاص و عام نے بہت پسند کیا ہو؟ مجھے اس کی یہ فرمائش بری لگی لیکن کچھ سوچ کر میں نے اپنا ساز اٹھایا اور گانا شروع کیا۔ اس نے گانا سننے کے بعد کہا ’بہت خوب‘ کچھ اور بھی سناؤ۔ یہ گانا سن کر بھی اس نے تعریف کی اور تیسرے گانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا بدلہ چکا دوں گا۔ بدلہ چکانے کی بات پر میں نے تیسری بار خوب دل لگا کر گانا گایا۔ ایسا گانا تو میں نے خلیفہ کے دربار میں بھی نہیں سنایا تھا۔ وہ بوڑھا یہ تیسرا گانا سن کر بہت زیادہ خوش ہوا‘ دل کھول کر داد دی اور یہ سوال کیا۔:
’’کیا تم اس خادم کو گانے کی اجازت دو گے؟‘‘
میں بہت برہم ہوا کہ کیا اس کی عقل ماری گئی ہے کہ میرے سامنے گانا گائے گا لیکن میں رضامند ہو گیا۔ اس نے ساز اٹھایا اور گانا شروع کر دیا جسے سن کر میں دنگ رہ گیا۔ سارے در و دیوار‘ سارا گھر اور گھر کی ہر چیز اس کے گانے کی وجہ سے جھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔حتی کہ رقاصہ بے خود ہو کر اٹھی اور اعضا شکن رقص کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ میری آنکھوں کے سامنے برق سی لہرا گئی ۔ میں تن من کا ہوش کھو بیٹھا۔ مبہوت ہو کر اس بڈھےکا گانا سنتا تو کبھی رقاصہ کے تھرکتے ہوئے وجود پر نظریں جمانے کی ناکام کوشش کرتا۔
بڈھے کے گانے کے بول یہ تھے:
میرے پاس ایک زخمی دل ہے
ہے کوئی جو صحیح سالم دل میرے ہاتھ بیچے
نہیں‘ اس سودے پر کوئی راضی نہیں ہوتا
کون ہے جو کھوٹے کے بدلے کھری چیز دے
اس نے ایک دوسرا کلام بھی اسی لے میں گایا۔ وہ اگر گانا جاری رکھتا تو میں فرط حیرت سے پاگل ہو جاتااور رقاصہ ناچتے ناچتے مر جاتی۔ اس نے گانا ختم کرنے کے بعد کہا کہ ابراہیم‘ اس راگ کو ’غناء ماخوری‘ کہتے ہیں۔ اسے سیکھ لو‘ اپنی باندیوں کو بھی سکھا دو۔ میں نے کہا کہ اسے دہرائیے لیکن وہ بولا کہ نہیں‘ اس کی ضرورت ہی نہیں۔ نہ صرف یہ کہ تمہیں یہ راگ یاد ہو چکا ہے بلکہ تم اس راگ میں کامل بھی ہو چکے ہو۔ یہ کہنے کے بعد اچانک ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ میں بھاگ کر دروازے کی طرف لپکا‘ لیکن دروازہ تو اندر سے بند تھا۔
باہر نکل کر باندیوں سے پوچھا کہ تم نے میرے کمرے کے اندر سے کوئی نغمہ سنا تھا۔ انہوں نے کہا ہاں‘ ایسا اچھا نغمہ ہم نے اس سے قبل کبھی نہیں سنا۔ لیکن کسی نے بھی اس بوڑھے آدمی کو آتے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ میں حیرت میں پڑ گیا کہ اچانک ایک آواز آئی:
’’گھبراؤ مت‘ میں ابلیس ہوں‘ آج میں ہی تمہارا ساتھی اور ہم مجلس تھا۔‘‘
میں گھبرا کر خلیفہ کے محل کی طرف دوڑا اور ہارون الرشید سے سارا قصہ کہہ ڈالا۔ ہارون الرشد نے کہا ’’کم بخت‘ ذرا دیکھ‘ تجھے وہ راگ یاد بھی ہے‘ یا نہیں۔ میں نے ساز اٹھایا اور گانا شروع کیا تو پتا چلا کہ وہ مجھے اچھی طرح یاد ہو گیا ہے۔‘‘
خلیفہ ہارون الرشید یہ راگ سن کر اس قدر خوش ہوا کہ موصلی کو انعام سے مالامال کر دیا۔
اس واقعے کا عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد موصلی پر یہ انکشاف ہوا کہ اب وہ مزید کوئی گیت نہ لکھ سکتا ہے نہ ہی اپنا کوئی گیت اسے یاد ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی حالت عجیب ہوتی گئی ، وہ اپنے ساتھ باتیں کرتا اور کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے ٹھوکریں کھاتا ایک سے دوسری جگہ سفر کرتا دکھائی دیتا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا یہ انجام اسی لیے ہوا کہ اس نے اپنی روح اس گیت کے عوض ابلیس کے پاس گروی رکھوا دی تھی ۔
ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی موسیقی کو روح کی غذا کہتے اور سمجھتے ہیں ۔افسوس اس بات کا کہ ان میں سے اکثریت کو معلوم ہے کہ یہ شیطان کا سب سے موثرہتھیار ہے ، اس کے باوجود وہ دن رات کانوں میں ہیڈ فون یا ہینڈ فری ٹھونسے ، یہ میٹھا زہر اپنی سماعتوں میں گھولتے رہتے ہیں ۔ ایسے احباب کے لیے تاریخ کے اوراق سے اخذ کیے گئے اس عبرت انگیز واقعہ میں بہت گہرا سبق پوشیدہ ہے ، کاش کہ کوئی سمجھے !!!

متعلقہ خبریں