غم کے طوفان تھم سکتے ،بدحالی خوشحالی میں بدل سکتی ہے‘ اگر
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 19, 2016 | 15:34 شام
!
رب ذوالجلال کا اپنا ایک نظام اور سسٹم ہے۔ جس کا انسان یا بنی نو انسان کو کسی حد تک ادراک بھی ہے تاہم خدا کے پورے نظام کو سمجھنا انسانی عقل سے بعید ہے۔ ہم جو کچھ سمجھ سکتے ہیں اسی کی بات کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے چند سال قبل اخبار نکالا۔ جیسے بڑوں شہروں میں عموماً چھوٹے اخبار نکلتے اور بند ہو جاتے ہیں آپ اس دوست کا نام سمجھ لیجئے نعیم تھا۔ بڑے جوش و جذبے سے کام کا آغاز کیا پہلے دو ماہ تو سلسلہ بھرپور اور زبردست چلا‘ ورکرز کو تنخواہیں بروقت دی جاتیں جس نے جتنا ایڈوانس مانگا دے دیا۔ نمائندوں اور نامہ نگاروں سے وصولیاں بروقت اور ہر وقت جاری اور اکثر ایڈوانس بھی دے دیتے تھے۔ نعیم کو ایک منیجر ملا جو کئی اخبارات کو ڈبو چکا تھا۔ اس کی اگر کوئی ساکھ تھی تو اس کا تجربہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ نعیم صاحب اس کی باتوں میں آگئے۔ جی ایم نے پہلا مشورہ یہ دیا کہ ورکرز کی ایک ماہ کی تنخواہ نیچے لگا کر رکھیں اور ایڈوانس دینے سے توبہ کریں۔ نعیم نے دونوں مشوروں پر عمل کیا۔ اس کے ساتھ کارکنوں کی بددعائیں شروع اور نظام قدرت بھی حرکت میں آگیا۔ نعیم صاحب اخبار نکالنے سے قبل اردو بازار میں پبلشنگ کا کام کرتے تھے۔ اخبار نکالنے پر وہ ٹھپ ہوا۔ کارکنوں کی بددعاوں سے اخبار بند اور کارکنوں کو بغیر تنخواہ کے فارغ کرنا پڑا۔ نعیم نے دفتر خالی کرتے وقت اپنی اداوں پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی ناکامی کی وجہ کارکنوں کے ساتھ ناانصافی اور ترش رویہ تھا۔ نعیم نے خدا کے حضور اپنے رویے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عہد کیا کہ اگر خدائے بزرگ و برتر اسے ہمت دے تو وہ کارکنوں کی پائی پائی ادا کر دے گا۔ ساتھ اس نے یہ پکا ارادہ بھی کیا کہ اپنی آمدن کا ایک مخصوص حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہے گا۔ نعیم نے جان مار کر محنت کی۔ پبلشنگ کا کام جانتا تھا۔ اردو بازار کی ایک گلی میں چوتھی منزل پر ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لے رکھی تھی۔ اسی کو مرکز اور محور بنا لیا۔ خدا کی قدرت اور رحمت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ صرف دو سال کے عرصہ میں نعیم نے خدا سے کیا ہوا عہد نبھایا۔ اس نے اپنے کاروبار میں خدا کو حصہ دار بنایا تھا۔ وہ خدا کا حصہ ایمانداری سے ادا کرتا رہا۔ آج بھی وہ اپنی آمدن کا ایک مخصوص حصہ پہلے دن کی طرح خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے۔ کئی کارکنوں کا قرض اس نے خود ان کو بلا کر ادا کر دیا ہے۔ اس پر خدا کی بے پایاں رحمت ہوئی۔ ایک سال قبل اس نے اردو بازار میں سوا کروڑ روپے کی دکان خریدی۔ اخبار چلاتا تھا تو موٹر سائیکل پر دفتر آتا تھا آج اس کے پاس ٹویوٹا کرولا ہے۔ اپنا گھر اور گھر میں ہر سہولت موجود ہے۔
ایک صاحب نے اس واقعہ سے ملتی جلتی ای میل بھیجی ہے۔ اس سے بھی حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قدرت ہمارے اعمال کا جائزہ لیتی ہے۔ یہ ایک خاتون کرنل ڈاکٹر کی کہانی ہے آئیے کرنل صاحبہ کی داستان ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے ”میرے والد صاحب نے دوسری شادی اس وقت کی‘ جب میں ڈاکٹری کے تیسرے سال میں زیر تعلیم تھی اور میرے چھوٹے دونوں بھائی بالترتیب کالج اور سکول کے آخری سال میں تھے۔ ابو کے اس طرح اچانک شادی کرکے نئی امی کو گھر لے آنے سے ہم سب عجیب صدمے اور دکھ سے دوچار ہو گئے.... ابا جی نے جانے اچانک یہ فیصلہ کس طرح کر لیا تھا کہ ہم سب گھر والوں کو امی سمیت کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی.... اور ابو ایک عدد نو بیاہتا بیوی کے مالک بن گئے‘ وہ لڑکی عمر میں مجھ سے شاید چند سال ہی بڑی ہو گی۔
ابو کے اس اقدام سے ہم اندر سے جیسے ہل کر رہ گئے.... بلکہ گھر میں ایک عجیب سوگواری اور بٹوارے کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی.... امی تو جیسے خاموش مٹی یا برف کا تودہ بن کر رہ گئیں شوہر سے شکوہ کیا؟ نہ شکایت.... لڑیں نہ جھگڑیں.... جیسے اپنے سارے حقوق سے ایک دم دستبردار ہو گئی ہوں.... ابا جی کے اس اچانک اقدام نے ہمیں اور ہماری ماں کو رشتہ داروں‘ عزیزوں‘ گلی محلے کے لوگوں کی نظروں میں تماشا بنا دیا تھا۔ ہمارے پاس رشتہ داروں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب نہیں تھے.... بجز ان آنسو¶ں کے جو ہم سب مل کر تنہائی میں بہا لیتے تھے‘ امی جیسے چپ تھیں.... ویسی ہی چپ رہیں‘ اپنے اندر کے ابال.... اپنے اندر کے ملال کو انہوں نے کبھی ہم بچوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا‘ ابا جی اپنی نئی دلہن کے ساتھ اوپر کمرے میں شفٹ ہو گئے اور یہ بھی غنیمت تھا کہ آبائی گھر موجود تھا اور اوپر کی منزل میں بھی دو کمرے بنے ہوئے تھے‘ ورنہ شاید ماحول اور بھی بدتر ہو جاتا....
ہم بچوں کے ساتھ تو ابا جی کا رویہ پہلے کی طرح شفیق اور مہربان تھا لیکن ہمیں ابا جی پتہ نہیں‘ کیوں سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے بیگانے لگنے لگے تھے‘ ایک غیر محسوس دیوار تھی جو ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہو گئی تھی‘ رفتہ رفتہ یہ حادثہ (ابا جی کی دوسری شادی) ہم نے قبول کر لیا اور اس عورت کو بھی سوتیلی والدہ کے روپ میں قبول کر لیا۔ وہ اکثر نیچے اتر آتی.... اور ہم بچوں کے ساتھ خوب مزے مزے کی باتیں کرتی.... وہ عورت حسن اخلاق سے آراستہ تھی‘ ہمارا غصہ‘ رنج اور کوفت اس سے مل کر دور ہونے لگی تھی.... اور ہم بہن بھائی مل کر کبھی اس واقعے کو ڈسکس کرتے تو سوچتے پتہ نہیں اس سانحے کے پیچھے زیادہ قصور وار کون ہے؟ ابا جی.... جو بغیر بتائے چپ چاپ اپنی بیوی لے آئے تھے یا اپنی امی جنہوں نے کبھی ابا جی سے گھر ہوتے بات تک نہ کی تھی.... ایک عجیب سٹرسی جنگ ان دونوں کے درمیان ہم نے ہمیشہ محسوس کی تھی۔
خیر قصہ کوتاہ.... میں اصل قصے کی طرف آتی ہوں.... ہم سب بچے چند سالوں میں تعلیم سے فارغ ہو گئے.... اور اس دوران ابا جی ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کی جمع پونجی سے ابا جی نے ہم تینوں کی شادیاں کر دیں.... اور ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے‘ اس دوران ابا جی کو اللہ تعالیٰ نے مزید تین بچوں سے نوازا‘ گویا ہمیں تین عدد سوتیلے بہن بھائی اور عطا ہو گئے تھے‘ اس گھر سے ہماری شادی کے بعد جو خلا آیا تھا‘ اس خلا کی کمی کم از کم ابا جی نے تو ہرگز محسوس نہیں کی ہو گی۔ رہی ہماری اماں.... وہ اپنے دکھ اپنی تنہائی اپنے ساتھ ہی شیئر کرتی رہی.... اس نے اپنے اکلاپے کے دکھ میں ہمیں شریک نہیں کیا.... یا ہو سکتا ہے.... ہماری ماں نے اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ لی ہو.... اور اپنی زبان پر خاموشی کے تالے لگا لئے ہوں....
ابا جی ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی طور پر پہلے کی طرح خوشحال نہیں رہے تھے‘ اوپر سے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفالت کا بوجھ اور آن پڑا تھا.... میں چونکہ اس وقت تک برسر روزگار تھی اور میری پریکٹس بھی خوب چل رہی تھی‘ میری تنخواہ اور مراعات اپنے چھوٹے دونوں بھائیوں سے زیادہ تھیں میرے شوہر گو پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے لیکن جدی پشتی گا¶ں میں کافی زمین تھی‘ ابا جی نے ایک دن اپنی معاشی پریشانی کے بارے میں مجھے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنخواہ بہت قلیل ہو چکی ہے‘ کٹ کٹا کر محض چند ہزار روپے جس سے پانی بجلی.... گھر کا ٹیکس اور دوسرے اخراجات کا بار ان سے اٹھانا ممکن نہیں رہا....
اور رہے میرے بہن بھائی.... ان کی تنخواہیں بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے ہیں چونکہ بحیثیت ڈاکٹر میری مالی حیثیت سب سے زیادہ مستحکم ہے اس صورت میں مجھے کچھ رقم ان کی مالی مدد کیلئے ضرور بھجوانا چاہئے‘ ایک باپ بیٹی سے مانگتے ہوئے جس طرح شرمسار اور معیوب اور دکھی سا ہو رہا ہوتا ہے.... وہ دکھ میں نے اس دن ابا جی کی لرزتی ہوئی آواز میں محسوس کیا۔
میں نے ان سے کہا آپ فکر نہ کریں آپ نے مجھے زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ اعلیٰ تعلیم دلوائی‘ اتنے اخراجات اٹھائے اور اب مجھے آپ کی خدمت کرکے خوشی ہو گی.... اور یوں میں ہر ماہ پانچ یا چھ ہزار روپے اپنی بچت کے مطابق بھجوانے لگی اور اس طرح ان کی زندگی کی گاڑی قدرے ہمواری سے چلنے لگی‘ میرے شوہر بہت نیک انسان ہیں۔ انہوں نے میری رقم بھجوانے پر ذرہ برابر بھی احتجاج نہیں کیا۔
میں آرمی کی وجہ سے شہر شہر پوسٹنگ کا لطف اٹھانے لگی‘ دن بدن اپنے بچوں کے ساتھ ہماری بھی ضروریات میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا تھا‘ اچھا گھر.... اچھی تعلیم اور اچھے مستقبل کےلئے خطیر رقم ہمارا مقصد حیات تھی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کچھ رقم جمع ہونے پر ہم نے اسلام آباد اور لاہور میں اچھی جگہوں پر پلاٹ بھی لئے تھے۔
انہی دنوں ابا جی ہارٹ فیل ہو جانے کے سبب انتقال کر گئے‘ اس وقت ہمارے سوتیلے بہن بھائی اتنے چھوٹے تھے کہ بڑا بیٹا صرف آٹھ سال کا تھا‘ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے وہ رقم جو ابا جی کی زندگی میں ابا جی کے کہنے پر شروع کی تھی‘ وہ رقم روک لی‘ شاید یہ سوچ کر کہ ابا جی سے وعدہ کیا تھا.... اور یہ وعدہ تو ابا جی کے ساتھ تھا‘ ان کے بچوں کے ساتھ تو نہیں کیا تھا.... اور پھر یہ رقم میری محنت کی کمائی ہے.... چھ سات ہزار کم تو نہیں ہوتے‘ میں کیوں سوتیلے بچوں پر اپنی رقم خرچ کروں؟ آخر سوتیلی ماں کے اپنے خاندان والے لوگ بھی تو ہیں.... ان بچوں کے نانا نانی‘ ماموں وغیرہ تو ہوں گے.... اب یہ ان کا فرض ہے کہ ان بچوں کی کفالت کریں‘ میری اپنی امی بڑے بیٹے کے پاس رہنے چلی گئی تھیں۔ گویا اس گھر کی ذمہ داری کا مجھ پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔
اپنے اکاونٹ میں رقم جمع کرواتے ہوئے میرے ضمیر نے مجھے جنجھوڑا‘ اس آفس کے سامنے سے گزرتے ہوئے جہاں میں منی آرڈر بک کیا کرتی تھی‘ میرے قدموں کو تھاما.... لیکن میں نے اپنے اندر کی آواز کو خود ہی دبا دیا یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا‘ اب اس عورت کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھائے‘ کہیں چھوٹی موٹی نوکری کر لے‘
بہرحال دوسرا مہینہ شروع ہو گیا.... شاید قدرت میری نیت اور عمل کو دیکھ رہی تھی.... اس بار بھی میرا رقم بھجوانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا.... میں نے پہلی تاریخ کو تنخواہ کا چیک کاٹا تو تھوڑی دیر میں میرا بیٹ مین واپس چلا آیا اور مجھے بتایا کہ میرے اکا¶نٹ میں تنخواہ Credit ہی نہیں ہوئی.... میں دوسرے روز آفس گئی تو وہاں جاکر معلوم ہوا کہ میں پچھلے کئی مہینوں سے ہا¶س رینٹ کی مد میں Overdraw کرتی رہی ہوں اس لئے تنخواہ کئی ماہ کٹتی رہے گی۔ یہ آفس والوں کی غلطی تھی لیکن اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا تھا.... میں گھر لوٹی تو ایک اور بری خبر میری منتظر تھی‘ میرے شوہر جو زمینوں پر گئے ہوئے تھے وہاں ان کا کسی سے جھگڑا ہو گیا جھگڑے کے دوران ان کے ہاتھ سے مخالف پارٹی کے آدمی کو چوٹ لگ گئی اور چوٹ ایسی لگی کہ وہ زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچ گیا۔ مخالف گروپ بھی کوئی تگڑے لوگ تھے۔ انہوں نے فوجداری مقدمے کی FIR کٹوا دی اور پولیس وارنٹ گرفتاری لے کر میرے شوہر کو پکڑ کر تھانے لے گئی....
یہ خبر سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی.... لاکھوں روپے کے اچانک ضمانت کروانے اور پولیس کو کیس خارج کرنے اور مخالف پارٹی کے ساتھ صلح نامے اور علاج معالجے پر لگ گئے.... میرے شوہر کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی‘ میرے گا¶ں میں دس پندرہ دن شدید دوڑ دھوپ میں لگ گئے.... آخر خدا خدا کر کے سارے مرحلے طے ہوئے گھر لوٹی تو میری چھوٹی بیٹی اچانک تیز بخار میں پھنکنے لگی.... میں خود ڈاکٹر تھی.... اسے CMH لے جاکر سپیشلسٹ کو دکھایا‘ لیکن بچی جو صرف سال بھر کی تھی‘ اس کا بخار نہیں ٹوٹ رہا تھا۔
ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں دیں اور بچی سو گئی‘ اگلی صبح مجھے ڈیوٹی جوائن کرنا تھی‘ بچی کی دیکھ بھال کے لئے گھر میں ملازمہ موجود تھی پھر میں فون کرکے خیریت دریافت کر رہی تھی لیکن ڈھائی بجے کے قریب جب میں ڈیوٹی سے واپس لوٹی تو بچی ”ماما‘ ماما“ کہتی میری آنکھوں کے سامنے بے ہوش ہو کر گر پڑی.... میں اسی طرح دوبارہ بھاگی‘ اسے کار میں لئے ہسپتال پہنچی۔ اس لمحے اس کا بخار 104 ڈگری کو بھی کراس کر چکا تھا‘ اسے جلدی جلدی انجکشن لگائے گئے‘ سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی گئیں اور بخار اتر گیا لیکن شام کو پھر Shoot up کر گیا.... اور اسے دورے پڑنے لگے.... لگاتار مرگی کے دورے.... میرے خدایا.... ہم سے ایسی کون سی خطا ہو گئی کہ ہمیں چاروں طرف سے تو نے غم کی آندھی میں گھیر لیا ہے.... میں نماز میں روتے روتے اونچی آواز سے دعا مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پوچھ رہی تھی‘ ذات کریم سے شکوہ کناں تھی‘ تبھی ذہن میں ایک خیال دھماکے کی طرح پھٹا.... اور میری روح تک زخموں سے چور ہو گئی۔
میں نے ایک خطا کی تھی ایک جرم مجھ سے سرزد ہوا ہے.... کہ میں نے اپنے والد صاحب سے کئے وعدے سے انحراف کیا ہے میں نے اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کو پیسے نہیں بھجوائے‘ جانے دودھ پیتے بچے کیسے بلکتے ہوں گے؟ وہ عورت ان کے کھانے کا خرچہ کیسے پورا کرتی ہو گی؟ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے احساس نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا تھا.... میں معافی کیلئے دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گئی‘ میں نے یتیم بچوں کے آٹھ دس ہزار روکے تھے اور میرے پانچ چھ لاکھ روپے لگ گئے تھے‘ میری بیٹی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئی تھی‘ حتیٰ کہ دورے پڑنے لگے تھے۔
میاں کی نوکری جانے لگی تھی.... اگر وہ بندہ مر جاتا تو سیدھا قتل کا کیس بن جانے والا تھا۔ ایک کے بعد ایک دکھ اور آزمائش کے سلسلے نے میرے اوسان خطا کر دئیے تھے۔ اگلی صبح سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کو رقم بھجوائی بلکہ پچھلے ماہ کا بھی حساب کرکے ڈبل پیسے بھجوائے‘ چند دن بعد مجھے دفتر سے اطلاع آگئی کہ آپ کی تنخواہ بحال کر دی گئی ہے۔ اب یہ رقم تنخواہ سے آہستہ آہستہ کٹوتی کر لیں گے‘ بیٹی کو اللہ تعالیٰ نے شفا یاب کر دیا اور دوبارہ الحمدللہ اسے مرگی کے دورے کبھی نہیں پڑے‘ شوہر کے ساتھ مخالف پارٹی کی صلح پائیدار ثابت ہو چکی ہے۔ آج میں جو بھی کماتی ہوں اس میں میرے سوتیلے بہن بھائیوں کے علاوہ ناداروں‘ غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری کمائی میں بہت برکت ہے اور میں سوچتی ہوں‘ یہ برکت‘ یہ فضل و کرم یہ ریل پیل صرف اس وجہ سے قائم ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر خرچ کر رہی ہوں۔
میرے سوتیلے بہن بھائی بہت اچھے ہیں‘ سوتیلی والدہ بہت نیک اور باہمت خاتون ہیں‘ میں ان کی زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی مدد کرتی رہوں گی‘ جیسے کہ ایک سگا باپ بچوں کی کرتا ہے‘ یہ میری ڈیوٹی ابا جی لگا گئے تھے اور اس ڈیوٹی کی انجام دہی میں ہی میری نجات اور میری ساری خوشیاں مضمر ہیں“
خدا اپنے ذمے ہرگز قرض نہیں رکھتا۔ وہ ایک کو دس اور دس کو 100 کرنے پر قادر ہے۔ بادشاہوں کو گدا اور گدا¶ں کو تخت نشیں کر سکتا ہے۔ ہم گذشتہ نصف صدی سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ خدا نے کس طرح جیل میں پڑے لوگوں کو تخت کا وارث بنایا اور ہمیشہ اقتدار میں رہنے کا دعویٰ کرنے والوں کو ذلت و رسوائی کا نشان بنا دیا۔ دولت پر کسی کی مستقل اجارہ داری نہیں۔ روپیہ پیسہ یقیناً ہاتھوں کی میل ہے۔ جو اس پر جتنا مرتا ہے وہ اس کو اتنا ہی زیادہ پریشان کرتا ہے۔ جائز طریقے سے دولت کمانے میں کوئی قباحت نہیں۔ خدا کا حصہ اس میں سے نکالتے رہیں تو خدا کی خدائی میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سب اپنی آخرت اور عاقبت کےلئے کرنا ہے۔ جس کا فائدہ جہان فانی میں بھی ہے۔ ملک عزیز میں بے شمار ادارے زکوٰة و خیرات پر چل رہے ہیں۔ آج سب سے بڑی مصیبت سیلاب کی صورت میں سامنے ہے۔ دو کروڑ پاکستانی بے سرو سامانی کی حالت میں آپ کے منتظر ہیں۔ آپ کے صدقات اور عطیات سے بہت سے ادارے چل رہے ہیں۔ ان دو کروڑ متاثرین میں سے لاکھوں ایسے ہیں جو مستحق افراد کی کفالت کرتے تھے۔ کئی ادارے چلاتے تھے آج خود مستحقین کی صف میں شامل ہیں۔ ان کی طرف سے کی جانے والی خیرات کی کمی بھی دیگر حضرات نے پوری کرنی ہے اور سیلاب زدگان کی امداد کی اضافی ذمہ داری بھی ہماری اور آپ کی ہے۔ آئیے مصیبت زدہ بھائیوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ اس طرح سے مدد کریں کہ حکومت کو ٹیکس لگانے کی ضرورت رہے نہ ہماری حکومت اور متاثرین کو امداد کیلئے غیروں کی طرف دیکھنا پڑے۔ یقیناً خدا اپنے اوپر قرض نہیں رکھتا جو اس کی راہ میں دیا جاتا ہے اسے کئی گنا زیادہ کرکے لوٹا دیتا ہے۔ آخر میں ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیے! تم نے جو کچھ خرچ کیا ہو جو نذر بھی مانی ہو۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اسی طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو‘ اللہ عزوجل کو ہر حال میں اس کی خبر ہے۔“
(البقرہ)