2017 ,اپریل 26
صوابی(مانیٹرنگ ڈیسک) نور البہاءکو آٹھ سال کی عمر میں اس کے آبائی گھر صوابی سے اغواءکیا گیا، اور قبائلی روایت ولور کے تحت اسے بیچ دیا گیا ۔ قبائلی علاقوں کی روایت کے مطابق دلہا دلہن کے خاندان کو شادی کے لئے پیسے دئیے جاتے ہیں ، نور کے اغواکاروں نے 70ہزار لے کر اس کی شادی کرادی اور کوئی سوال نہیں پوچھا ۔ بعد ازاں اسے دو مختلف مردوں کو بیچا گیا۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے نو رالبہا کا کہنا تھا ” میں گھر کے باہر گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی ایک عورت آئی اور مجھے اٹھا کر لے گئی میں مدد کے لئے چلائی مگر کسی نے میری نہیں سنی، مجھے اگلی جس بات کا پتا چلا وہ یہ تھی کہ مجھے شادی کے لئے بیچ دیا گیا ہے۔ وادی تیرہ میں خواتین کو شادی کے لئے بیچنے کی روایت عام ہے اور لڑکی کی خوبصورتی، جسامت اور تعلیم کو مد نظر رکھ کر اس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ مجھے قبائلی رسوم و رواج اور طرز زندگی کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا، یہاں تک میں فاٹا میں بولی جانے والی پشتو کو بھی نہیں سمجھتی تھی“۔نورکے مصائب یہاں ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ تین سال کے بعد اس کے خاوند نے اسے طلاق دے کر دوبارہ بیج دیا ۔ اس کا دوسرا خاوند مزدوری کے لئے قطر چلا گیا اور وہاں فوت ہو گیا اس کے سسرالیوں نے دوبارہ تیسرے آدمی کے ہاں اسے بیچ دیا ، اب کی بار اسے ایک بوڑھے آدمی کے ہاں بیچا گیا جس کی پہلے سے دو بیویاں تھیں۔ایک خاوند سے دوسرے خاوند کو منتقلی کے بعد نور نے صوابی میں اپنے خاندان سے رابطے کی کوششیں شروع کیں، وہ اپنی آواز میں آڈیو کیسٹیں ریکارڈکرتی اور اپنی جاننے والوں سے اپنے گھروں والے کے لئے خط لکھواتی، اس نے اپنے گھروالوں کو30خط لکھے اور 10آڈیو کیسٹیں بھیجیں، مگر ان میں سے کسی ایک کا کوئی بھی جواب نہیں ملا ، اس کے بعد نور نے تقریبا اپنی ساری کوششیں ختم کردیں تھیں۔
کئی دہائیاں گزرنے کے بعد نور کو گذشتہ سال اپنے خاندان سے ملنے کی ایک اور امید دکھائی دی۔کرم ایجنسی میں بے گھر افراد کے لئے قائم درانی کیمپ میں رہائش کے دوران ایک دن اسے خبر ملی کہ ایک بارات نوشہرہ جارہی ہے ، نوشہرہ صوابی کا سرحدی علاقہ ہے ، اس نے اپنے بڑوں سے اجازت لی کہ وہ بھی اس بارات کے ساتھ جائے گی،نور کو خاندان کے بڑوں سے اجازت مل گئی ،اس نے 3دنوں تک بے صبری سے بارات کے چلنے اور اپنے خاندان سے ملاقات کا انتظار کیا۔اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے نور کا مزید کہنا تھا ” میں اپنے گاﺅں میں دوپہر کے وقت پہنچی مگر وہاں ہر چیز بدلی ہوئی تھی،مجھے اپنے جاننے والا کوئی نہیں ملا اور نہ ہی اپنے والدین کی خبر ملی ، خوش قسمتی سے مجھے ایک دکاندار ملا جسے میں یاد تھی، اس دکاندار نے مجھے بتایا کہ میں میرے والدین کی وفات کی خبر سنائی، میں بے چینی میں ادھر ادھر گھومنے لگی، مجھے ایک موبائل نمبر ملا جس کا مجھے بتایاگیا کہ میرے بھائی کا ہے ، میں نے اپنے بھائی سے بات کی اپنے والدین اور خاندان والوں کے نام باربار دھرانے کے بعد میرے بھائی کو یقین ہوا کہ میں نور ہوں“۔
صوابی میں اس کا بھائی نور کو واپس بھیجنا نہیں چاہتا تھا مگر ایک سال کی کوششوں کے بعد اس نے اپنی بھائی کو منا لیا کیوں کہ نور کاماننا تھا کہ وادی تیرا کی سنگلاخ چٹانیں ہی میرا اصلی گھر ہیں ۔ نور نے قبائلی علاقوں کا طرز زندگی اپنا لیا ہے اور اب وہ اپنا وقت پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنے میں گزار رہی ہے، نور ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان ترجمان کے طور پر بھی کام کر رہی ہے۔