دنیا و آخرت........سونے کا رومال

2020 ,مارچ 10



ڈیڑھ مربع فٹ کی سونے کے تاروں سے بُنی جالی جیولر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے فروخت کرنے کےلئے آنےوالے سے پوچھا ”یہ آپ کو کہاں سے ملی“
اجنبی کا یہ درشت لہجے میں جواب تھا“۔ اس سے آپ کو کیا غرض؟ آپ اگر نہیں خریدنا چاہتے تو نہ سہی میں کسی اور کو بیچ دونگا“۔
اس دوران ذرا پرے بیٹھا جیولر کا بڑا بھائی چھوٹے کی پریشانی بھانپتے ہوئے ان کے پاس آگیا۔ چھوٹے نے بغیر کچھ کہے وہ جالی یہ کہہ کر ”بھائی ذرا اس رومال کو دیکھئے“ اس کو تھما دی۔ بڑے بھائی کی بھی وہی کیفیت ہوگئی جو چھوٹے کی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور نہایت ہلکی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا ”ہاں وہی ہے“ جیولر بھائیوں کی حالت دیکھ کر اجنبی کو ترس آگیا اور اس کے چہرے کی کرختگی دور ہوگئی۔ اس نے دونوں بھائیوں کے اگلے سوال کا انتظار کئے بغیر نرم لہجے میں کہا ”آپکو شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ مجھے یہ جالی جسے آپ رومال کہہ رہے ہیں حج کے دوران مدینہ منورہ سے ملا تھا۔ 
”کیا؟“ دونوں بھائیوں نے یک زبان کہا 
ہاں! وہیں سے ملا تھا۔ میں فلاں سیٹھ کا ملازم ہوں۔ وہ حج پر مجھے ساتھ لے گئے تھے وہاں وہ بیمار ہوئے نزع کے وقت اشرفیاں (یا جو بھی سکہ رائج تھا) نگل گئے۔ میں پریشان ہوا‘ کھانے کو پاس کچھ نہ واپسی کا زادِ راہ، میں نے قبر کھود کر سیٹھ کے پیٹ سے اشرفیاں نکالنے کا ارادہ کیا۔ چاقو خریدا قبر کھودنے کا سامان لیا آدھی رات کو قبر کھود ڈالی۔ پیٹ سے کفن اٹھانا چاہتا تھا کہ ہاتھ کو کوئی سخت سی چیز لگی وہ یہی جالی تھی۔ میں نے سوچا خدا کو سیٹھ صاحب کی کوئی نیکی پسند آگئی جس نے اس کی لاش کو بے حرمتی سے بچا لیا اور میری ضرورت پوری کرنے کےلئے یہ جالی رکھ دی۔ وہاں بیچنے کی نوبت اس لئے نہیں آئی کہ اگلے روز کراچی ہی کا ایک سیٹھ صاحب کا دوست مل گیا۔ اس کو میں نے صرف سیٹھ کی موت کا بتایا وہ اگلے دن واپس آرہا تھا میری واپسی کے خرچ کا بھی اس نے انتظام کر دیا۔ دو روز قبل ہی میں پہنچا ہوں“ دونوں بھائی اپنی دانست میں گاہک کی من گھڑت کہانی بڑے غور سے سن اور بے صبری سے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک نے پوچھا آپ کا سیٹھ کب فوت ہوا‘ گاہک نے دن اور تاریخ بتائی دونوں بھائی یہ سن کر بھی چونک گئے۔ گاہک نے کہا ”آپ کی تسلی ہوگئی اب اس جالی کی بات کریں“
”تسلی نہیں ہوئی آپ نے مزید الجھا دیا“ چھوٹے نے کہا۔
”آپ بھی بتائیے معاملہ کیا ہے“ گاہک نے باقاعدہ پریشان اور سونے کی جالی ہاتھ سے جاتے محسوس کرتے ہوئے کہا ”یہ رومال ہماری بہن نے بنایا تھا۔ نہایت نیک اور عبادت گزار تھی۔ والد کے ساتھ حج پر جارہی تھی محلے سے نادار خاندان کی بے بسی پر رنجیدہ تھی۔ اس خاندان کی تین بیٹیوں کی شادیاں معمولی اخراجات کی سکت نہ ہونے پر نہیں ہو رہی تھیں۔ فاطمہ نے اپنے حصے کی حج کی رقم اس خاندان کو دےدی اور بالکل اس روز انتقال ہوگیا جس روز آپ کہتے ہیں آپ کے سیٹھ کا ہوا تھا ہم نے یہ رومال اس کی قبر میں رکھ دیا تھا“ بڑے جیولر نے اپنی بات بھرائی آواز اور بہتے اشکوں کے ساتھ ختم کی۔
قصہ مختصر حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کےلئے جیولرز اپنی بہن کی قبرکشائی پر تیار ہوگئے۔ قبر کھودی گئی تو رومال موجود نہیں تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے اجنبی کو چور قرار دے دیا۔ اس دوران بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں میں سے ایک آواز یہ بھی آئی کہ قبر میں دیکھ لو نعش کس کی ہے۔ جس کی مخالفت ہوئی تاہم حمایت میں بھی آوازیں آنے لگیں۔ اجنبی ان لوگوں کے درمیان گھبرایا ہوا کھڑا تھا بالآخر نقاب اٹھانے کا فیصلہ ہوا۔ نقاب اٹھا تو نعش عورت کی نہیں تھی۔ مرد کی تھی اور وہ وہی سیٹھ تھا جو کراچی سے حج پر گیا وہیں مرا اور دفن ہوا تھا۔
نیک بندوں کے اجسام کو مقدس مقام پر لے جانا اور دنیاداروں کو مقدس مقامات سے لوٹا دینا قدرت کاملہ کےلئے قطعاً قطعاً مشکل نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کہانی کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہ آئی ہو۔ ایک مختصر واقعہ گناہوں میں لتھڑے ہوئے شخص کی موت ہوگئی۔ چند روز بعد اپنے کسی عزیز کی خواب میں آیا۔ اس سے قبر کے معاملات کے بارے میں پوچھا تو بتایا ایک سانپ ڈنک مارنے کی کوشش کرتا ہے اس کے منہ میں کھجور کی گٹھلی ہے اس لئے میں عذاب سے محفوظ ہوں یہ اسی کھجور کی گٹھلی ہے جو میں نے خیرات کی تھی۔
آج ہمارے معاشرے میں غربت مفلسی اور بے چارگی کا عفریت پھیلا ہوا ہے۔ لوگ فاقوں پر مجبور ہیں‘ خودکشیاں کر رہے‘ اولادیں بیچ رہے ہیں‘ ہم میں سے بہت سے ان کی مدد کر سکتے ہیں اللہ اپنے اوپر بھی قرض نہیں رکھتا۔ 

متعلقہ خبریں