2017 ,مئی 17
”لاہور(مہرماہ رپورٹ): پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ءکو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے صرف ساتویں جماعت تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد وہ اپنے طور پر پڑھتے رہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ریلوے کی ملازمت سے کیا لیکن بعد میں عطریات کی دکان کھول لی۔ اس کے ایک سال بعد اس کام کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
حفیظ جالندھری جوانی میں ہی لاہور آ گئے تھے۔ سترہ برس کی عمر میں ان کی پہلی شادی ہوئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں فوج میں وردیاں سپلائی کرنے لگے۔ شاعری میں انہوں نے مولانا غلام قادر گرامی جیسے معروف شاعر کی شاگردی اختیار کی جو اپنے زمانے کے قادر الکلام شاعر تھے۔ حضرت علامہ اقبال بھی شاعری میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ انہوں نے ہی حفیظ جالندھری کو ”ابوالاثر“ کا خطاب دیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران حفیظ جالندھری برطانوی فوج میں پبلسٹی افسر مقرر ہوئے۔ وہ جنگی گیتوں کے شعبہ کے ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد انہیں پاک آرمی کا ڈائریکٹر جنرل آف مورالز مقرر کیا گیا۔ آزاد کشمیر پبلسٹی ونگ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی۔ وہ معروف رسالوں تہذیب نسواں، ہزار داستان اور مخزن کے مدیر بھی رہے۔ انہوں نے مثال قائم کی کہ کوئی شخص دولت اورسفارش کی عدم موجودگی میں کس طرح اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر کامیابیاں اور عروج حاصل کر سکتا ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے تین مجموعے شائع ہوئے۔ افسانوں کا ایک مجموعہ ”ہفت پیکر“ بھی شائع ہوا۔ انہوں نے بچوں کیلئے بھی ادب تخلیق کیا۔
حفیظ جالندھری نے 1927ءسے ”شاہنامہ اسلام“ لکھنے کا آغاز کیا جو ان کی شہرت کا باعث بنا لیکن پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی وجہ سے انہیں ابدی شہرت حاصل ہوئی۔ آزاد کشمیر کا قومی ترانہ بھی انہوں نے لکھا جو پاکستان کے قومی ترانے کی طرح بہت عمدہ اور بامعنی ہے۔ انہوں نے تین شادیاں کیں۔ ان میں سے ایک بیوی انیلا برطانوی تھی جس نے اسلام قبول کر کے حفیظ جالندھری سے شادی کی۔ اس نے انگریزی زبان میں حفیظ جالندھری کی سوانح عمری بھی لکھی۔ حفیظ جالندھری دھن کے پکے تھے، کسی سے نہ دبتے تھے۔ آخری دنوں میں ہسپتال میں داخل تھے تو چہرے پر ہمیشہ تمکنت رہی۔ احباب کو یہ شعر سنایا کرتے تھے....
زندگی سے نپٹ رہا ہوں
موت کیا ہے میری بلا جانے
21جنوری 1982ءکو وہ بیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے بعد ورثاءاور عقیدت مندوں کا خیال تھا کہ ان کی تدفین ایسی جگہ پر ہونی چاہئے جو ان کے شایان شان ہو۔ ان کی ملی خدمات کے پیش نظر ان لوگوں کی خواہش تھی کہ ان کے جسد خاکی کو بادشاہی مسجد کے باہر حضرت علامہ اقبال کے مزار کی دوسری جانب دفن کیا جائے لیکن آثار قدیمہ کے قوانین کے تحت ایسا ممکن نہ تھا۔ گورنر پنجاب کو درخواست پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جب اعلیٰ حکام سے رابطے کے بعد بھی کوئی حل نہ نکلا تو فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال میت کو امانتاً ماڈل ٹاﺅن کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حفیظ جالندھری کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور بڑے غور و خوض کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے تدفین کا فیصلہ کیا گیا۔
محمد نعیم مرتضیٰ اپنی کتاب ”نیا لاہور“ میں لکھتے ہیں.... جس جگہ حفیظ جالندھری کا مزار بنایا گیا یہ کسی زمانے میں بہت بڑا ٹیلہ ہوا کرتا تھا۔ داراشکوہ نے اپنی کتاب ”سکینتہ الاولیائ“ میں اس جگہ کا نام ”جھنگی“ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کے پیر و مرشد حضرت میاں میرؒ یہاں آیا کرتے تھے۔ حفیظ جالندھری کے مزار کا نقشہ ترک نژاد نصر الدین مرات کی اسی فرم مرات ایسوسی ایٹس نے تیار کیا تھا جس نے مینار پاکستان کا نقشہ بنایا تھا۔ مزار کا ڈیزائن حضرت علامہ اقبال کے مزار سے ملتا جلتا ہے البتہ اس پر سنگ سرخ کے بجائے سنگ مرمر لگایا گیا ہے۔ مزار کے گرد چھوٹا سا باغیچہ ہے۔ منٹو پارک کو اب گریٹر اقبال پارک کا نام دے کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
حفیظ جالندھری کے مزار کے صدر دروازے پر ”مرقد خالقِ ترانہ پاکستان“ کے الفاظ کندہ ہیں۔ راہداری اور مزار کا چبوترہ سرخ ٹائلوں سے مزین ہے۔ مزار کی پیشانی پر قومی ترانہ درج ہے۔لوح مزار پر یہ عبارت کندہ ہے....
یااللہ.... بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرش کی رفعت لئے بیٹھا ہوا ہوں فرش خاک پر
سر مرا آسودہ ہے پائے رسول پاکؐ پر
خالق شاہنامہ اسلام و ترانہ پاکستان
ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم
پیدائش.... 14 جنوری 1900ء
وفات.... 21 دسمبر 1982ء
مینار پاکستان کے سائے تلے موجودگی، دلکش طرز تعمیر اور خوبصورت گریٹر اقبال پارک آنے والے سیاحوں کو متاثر کرتے ہیں۔