رواں سال مناسک حج کے اوقات اور ترتیب میں رد و بدل کیا گیا۔ مدینہ میں بھی مقامی نوجوانوں کیلئے ”ڈیٹنگ“ کے لئے محفوظ ترین علاقہ. جدہ میں میاں نواز شریف کی ایک ایسی جائیدادجو ابھی تک کسی کی نظروں میں نہیں آئی. شاہی مہمان ہونے کے باوجود مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،ایک موقع پر جدہ ہی سے واپسی کا خطرہ بھی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 03, 2016 | 15:26 شام

سعید آسی کے قلم سے... فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران شرف انسانیت کے لاثانی مظاہر کو اپنی آنکھوں میں سموتے اور ربِ کائنات کی فیوض و برکات کے سدابہار چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے ملک واپس لوٹا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنا دل اور آنکھیں وہیں چھوڑ آیا ہوں۔ پرکیف سفرِ حج کی یادوں کو ذہن سے کاغذ پر منتقل کرکے محفوظ کرنے کا ارادہ ہے جس کے لئے ذاتِ باری تعالیٰ سے قلم میں استقامت اور ذہن کی کشادگی کا خواستگار ہوں۔ فی الوقت مجھے فرزندانِ توحید کے اس ڈسپلن کی گواہی دینا ہے جو امن و آشتی کے حوالے سے فرزندانِ توحی
د میں بدرجہ اتم موجود ہے اور انسانی ڈسپلن کا یہی وہ شاہکار ہے جو دوسرے مذاہب اور اقوام میں ناپید ہے۔ مسلم امہ کا یہی وہ طرہ امتیاز ہے جس سے لادین قوتیں خوفزدہ ہیں اور امتِ واحدہ کو انتشار کا شکار کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں۔ مجھے سعودی وزارتِ ثقافت و اطلاعات کی دعوت پر شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل ہوئی چنانچہ مجھے اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایات کے تابع کئے گئے سعودی حکومت کے ان اقدامات و انتظامات کا مشاہدہ کرنے اور جائزہ لینے کا بھی موقع ملتا رہا جو سعودی دھرتی پرآئے لاکھوں مہمان حجاج کرام کی حفاظت، نگہداشت، قیام اور صحت و تندرستی کے لئے ضروری سمجھے گئے تھے۔ چونکہ عیدالفطر سے قبل ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسلام دشمن بدبختوں نے ہمارے ایمان و ایقان اور مقصدِ حیات کے محور حضرت نبی¿ آخرالزمان کے روضہ اقدس کے باہر دہشت گردی کی فتنہ پرور واردات کے ذریعے مسلم امہ کو منتشر کرنے کی اپنی ذہنی پراگندگی کا مظاہرہ کیا تھا جس پر پوری مسلم امہ غم سے نڈھال تھی اس لئے حج کے اجتماع کے دوران بطور خاص نظم و ضبط برقرار رکھنا اور دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو پنپنے نہ دینا سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا اس لئے حج کے انتظامات کو بطور خاص امن و آشتی پر ہی فوکس رکھا گیا جس کے لئے سعودی ڈسپلنڈ فورسز کو پوری مشاقی کے ساتھ بروئے کار لایا گیا تو سعودی باشندوں اور رضاکار تنظیموں نے بھی حج کے موقع پر پاک سعودی دھرتی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے رکھنے کے لئے بے مثال کردار ادا کیا۔ سکیورٹی انتظامات کے اس حسنِ تدبر و تدبیر کا مشاہدہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں پھیلے مسلم ممالک میں سے مجموعی 39میڈیا پرسنز کو مدعو کیا گیا تھا جنہیں شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ¿ حج کی ادائیگی کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے لنچ میں ان سے تبادلہ خیال اور مصافحہ کرتے ہوئے ان کی انتظامی فہم و بصیرت کا مشاہدہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ مکہ میں سعودی فوجی ہیڈ کوارٹر میں اہتمام کردہ فوجی پریڈ سعودی فوج کی بے پایاں مشاقی کی پل پل گواہی دیتی رہی جس کا افتتاح سعودی پرنس، نائب وزیراعظم اول اور وزیر خارجہ نائف بن عبدالعزیز نے کیا۔ اس پریڈ میںبالخصوص گن شپ ہیلی کاپٹروں، لڑاکا طیاروں، گھن گرج والی توپوں اور ٹینکس کا مظاہرہ دیدنی تھا۔ حج کے دوران دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو کیسے ناکام بنانا ہے۔ سعودی فوجی جوانوں نے آگ و بارود میں کود کر اور دہشت گردوں کے ہدف کو محفوظ کر کے اس کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ سعودی فورسز کی اس مشّاقی کا جائزہ لیتے ہوئے اس پاک دھرتی کے مضبوط ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی گواہی ملی۔ منیٰ میں سعودی وزیر اطلاعات الشیخ عادل نے اپنے ظہرانہ میں انٹرنیشنل میڈیا کو حج کے موقع پر کئے گئے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ خادم حرمین شریفین کے اس فلسفہ کو بھی اجاگر کیا جو مسلم امہ کے اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اخوت و بھائی چارہ کے جذبہ سے ہم آہنگ ہے۔ اس فلسفہ میں بطور خاص دین اسلام کے دہشت گردوں سے لاتعلق ہونے کا اعلان و اعادہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جو عناصر خدا کے نام پر بے گناہ و معصوم انسانوں کو اپنی سفاکانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں وہ ہرگز ہم میں سے نہیں ہیں۔ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی تصور ہے نہ دہشت گردوں کی گنجائش۔ حج کا عظیم اجتماع اس کی گواہی ہے کہ فرزندان توحید اپنی ذات کی نفی کر کے بارگاہ ایزدی میں ”لبیک الھم لبیک لاشریک لکَ لبیک، انا لحمد ونعمتَ لکَ ولملک، لاشریک لک“ کا ورد کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اپنی کسی بڑائی اور برتری کا کوئی خلجان نہیں ہوتا۔ بلاامتیاز رنگ، نسل و جنس وہ سب توحید کی لڑی میں پروئے نظر آتے ہیں۔ اپنی جھوٹی اناﺅں اور بلند شملوں کو تج کر آتے ہیں اور اپنی ذات کی نفی کا اس شعر کے مصداق شاہکار بن جاتے ہیں کہ.... توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے منیٰ کے شاہی پیلس میں صدر پاکستان ممنون حسین اور متعدد دوسرے مسلم ممالک کے سربراہوں، مذہبی پیشواﺅں، ڈپلومیٹس اور انٹرنیشنل میڈیا کے ارکان سمیت ایک ہزار کے قریب افراد سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے روبرو تھے جنہوں نے سعودی رائل فیملی کے ارکان کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک کھڑے ہو کر ہال میں موجود اپنے ہر مہمان کو فریضہ حج کی سعادت پر مبارکباد دیتے ہوئے مصافحہ کا شرف بخشا، اپنے مہمانوں کی عزت افزائی کی اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ پرتکلف ظہرانہ بھی اس عزت افزائی کا حصہ تھا جس میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ حج کے ایام میں سکیورٹی انتظامات اتنے سخت کئے گئے تھے کہ صرف حج کا ویزہ رکھنے والوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی، چنانچہ مقامی سعودی باشندوں اور روزگار و سیاحت کے سلسلہ میں مقیم غیر سعودی باشندوں کا دوران حج ان دونوں مقدس شہروں میں داخلہ ممنوع رہا جنہیں چیک پوسٹوں پر تفتیش و تلاشی کے کٹھن مراحل کا سامنا کرتے ہوئے واپس لوٹنا پڑا۔ سکیورٹی کے ان سخت انتظامات کے باعث ہی سعودی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال 16 لاکھ 50 ہزار کے قریب فرزاندان توحید حج کی سعادت حاصل کر پائے اور ان کی جسم و جاں کو 46 ڈگری سنٹی گریڈ والی شدت کی گرمی کی حدت برداشت کرنے کے علاوہ گزند تک نہ پہنچی۔ سعودی حکومت نے ہر عازم حج کے جسم و جاں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اس سال خصوصی انتظامات کے پیرامیٹرز متعین کر کے تمام مسلم ممالک کو ایک معاہدے کے تحت ان پیرامیٹرز سے کسی قسم کی روگردانی نہ کرنے کا پابند بنایا تاہم ایران نے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا۔ نتیجتاً ایرانی باشندوں کو اس سال فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم ہونا پڑا ماسوائے ان ایرانی باشندوں کے جو کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے ممالک سے حج ویزہ حاصل کر کے سعودی عرب آئے تھے۔ کسی مسلم ملک کے باشندوں کا مجموعی طور پر مذہبی فریضے کی ادائیگی سے محروم ہونا بلاشبہ اتحاد امت کے تصور میں کمزوری سے تعبیر ہو سکتا ہے مگر اس سے فریضہ حج کی پرامن ادائیگی پر دوسرے مسلم ممالک کے باشندوں کے چہروں پر نظر آنے والے اطمینان اور پھر ان کی زبانوں پر اس اطمینان کے اظہار سے برادر ایران کے حاکمانِ وقت کو اپنی سوچ اور پالیسیوں کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔ ہم اتحاد امت میں دراڑیں ڈالنے والی لادین قوتوں کی سازشوں کا خود کو چارہ بنائیں گے تو اپنی کمزوری کی خود ہی بنیاد رکھیں گے۔ اس عظیم اجتماع میں رنگ، نسل اور جنس کا کوئی فرق نہیں رہتا۔ خانہ خدا کا طواف کرتے ہوئے سفید رنگ کے احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید اور عفت مآب خواتین کو اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ انسانی معاشرے کی ریاکاریوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں رہتا۔ ہر ایک کا شوق غلاف کعبہ کو چھونے، بوسہ دینے، رحمت کے پرنالے سے گزرتے ہوئے ذاتِ باری تعالیٰ سے اپنے لئے رحمتوں کی بارش کی تمنا کرنے کا ہوتا ہے اس لئے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی کوشش اور استلام کرتے ہوئے اور طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز واجب طواف پڑھتے ہوئے فرزندان و دخترانِ توحید کو دنیاوی آلائشوں میں لپٹی اپنی اناﺅں کا ہرگز خیال نہیں آتا۔ کالے، گورے، ناٹے، لمبے، جوان و ضعیف، فقیر و تونگر، تنومند و لاغر سب بسم اللہ اللہ اکبر وللہِ الحمد کا ورد کرتے حجراسود کی طرف منہ کرکے طواف کا آغاز کرتے ہیں اور خانہ خدا کے دائرے میں سات چکر پورے ہونے تک بس یاد الٰہی میں مگن رہتے ہیں۔ طواف کے بعد صفا و مروا پر سعی کرتے ہوئے بھی اپنی اناﺅں کا شائبہ تک ان کے ذہن رسا میں نہیں آتا۔ پھر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کرتے ہوئے اور جمرات میں تین روز تک شیطان کو کنکریاں مارنے والی رمّی کی رسم ادا کرتے ہوئے خدا کے حضور اپنی عاجزی کے سوا انسانی جبلت کے کسی دوسرے اظہار کا خیال ہی سجھائی نہیں دیتا.... یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے“ گزشتہ برس فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر چونکہ دو مختلف سانحات رونما ہوئے جن میں سینکڑوں حجاج کرام نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں ایک سانحہ خانہ کعبہ میں ایک تعمیراتی کمپنی کی بھاری بھرکم کرین گرنے سے اور دوسرا سانحہ جمرات میں رمی کی رسم کے دوران بھگدڑ کے باعث رونما ہوا جبکہ اس سال ماہ رمضان المبارک میں جدہ اور قطیف کے علاوہ مدینہ منورہ میں بھی روضہ¿ رسول کے باہر دہشت گردی کی مذموم وارداتیں ہوئیں اس لئے سعودی حکومت نے حفاظتی انتظامی اقدامات میں اس حکمت کو بھی پیش نظر رکھا کہ مناسسک حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کرام کا سارا اجتماع بیک وقت ایک جگہ پر نہ ہونے دیا جائے، اس کیلئے مفتی اعظم سعودی عرب سے فتویٰ حاصل کر کے انسانی جانوں کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے مناسک حج کے اوقات اور ترتیب میں رد و بدل کیا گیا۔ رمی کے تینوں دن شیطان کو کنکریاں مارنے کا دورانیہ 12 گھنٹے سے بڑھا کر 24 گھنٹے کر دیا گیا تاکہ حجاج کرام اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت یہ فریضہ ادا کر سکیں۔ اسی طرح منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج کی ادائیگی کی ترتیب میں رد و بدل کیا گیا اور یہ حکمت عملی انتہائی کامیاب رہی جس کے باعث حجاج کرام گزشتہ سال جیسے کسی بھی سانحہ سے محفوظ رہے۔ اسے حالات اور وقت کی مناسبت سے اجتہاد کی عملی شکل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ سعودی عمائدین اور حکام نے بھی اسی ترتیب کے ساتھ مناسک حج ادا کئے اس لئے فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے مراحل میں کسی وسوسے کی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ حنیف خالد اور شوکت پراچہ تو ویسے ہی مطمئن تھے۔ ہمارے ساتھی حبیب اللہ سلفی نے پاکستان میں بعض جید علمائ کو فون کر کے ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بھی وقت کی مناسبت سے مناسک حج کی ترتیب میں رد و بدل کو درست قرار دیا چنانچہ اس بارے میں دل میں کوئی وسوسہ تھا تو وہ بھی دور ہو گیا اور پھر ذات باری تعالیٰ ہی ہمارے ایمان و ایقان کی محافظ ہے جس کے روبرو لاکھوں سر جھکے تھے تو اس کی رحمت و برکت کے خزانوں کو ہی سمیٹ رہے تھے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کو امسال بہترین حج انتظامات کا کریڈٹ لیتے ہوئے مجھے اس حوالے سے حیرت ہوئی کہ اس میں وزیر موصوف کا کیا کمال ہے۔ ہمارے دوست جاوید اقبال بٹ نے مدینہ منورہ میں سردار یوسف کے لئے ہم وطنوں کا اکٹھ کیا جس کی سوشل میڈیا پر تصویریں چلیں تو مدینہ منورہ میں جاوید اقبال بٹ کی ہم وطنوں کے لئے آﺅ بھگت کے کئی مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ اڑھائی سال قبل مجھے اہلیہ کے ہمراہ عمرہ پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی تو مدینہ منورہ میں بٹ صاحب دیدہ و دل فرشِ راہ کئے نظر آئے۔ ان کا گھر جنگ بدر کے عین مقام پر واقع ہے۔ انہوں نے اپنے گھر تناول ماحضر کی نشست کے دوران اپنے رہائشی علاقے کے تاریخی پس منظر سے بھی آگاہ کیا اور اس بار تو انہوں نے مدینہ منورہ کا ”چپہ چپہ گاہنے“ کی مثال کو عملی قالب میں ڈھال دیا۔ وہ اپنے دوست احمد داﺅد بن لیاقت کے ہمراہ ہوٹل تشریف لائے اور مجھے اور حبیب اللہ سلفی کو لے کر رات بھر مدینہ منورہ کے چپے چپے میں گھماتے پھراتے رہے۔ انہوں نے مدینہ منورہ کا ایک ایسا مقام بھی دریافت کر رکھا ہے جہاں رات کے وقت پورا مدینہ منورہ ایک محور میں سمٹا جگ مگ جگ مگ کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ایک کٹی پھٹی پہاڑی کا بالائی حصہ ہے جس تک گاڑی کے ذریعے سفر بھی انتہائی دشوار گزار ہے مگر احمد داﺅد صاحب نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے یہ راستہ انتہائی مشاقی سے طے کیا اور ہم پہاڑی کے دامن تک پہنچ گئے۔ وہاں جا کر ماحول کا مشاہدہ کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ رات کے وقت مقامی نوجوانوں کی ”ڈیٹنگ“ کے لئے محفوظ ترین علاقہ ہے چنانچہ ایسی سرگرمیوں کی جھلک ہمیں بھی دیکھنے کو مل گئی۔ ہماری فرمائش پر جاوید اقبال بٹ صاحب نے ایک پاکستانی ہوٹل پر ہمیں دال روٹی سے لطف اندوز کیا اور رات گئے پہاڑی کے کونے پر موجود کیفے میں گرم گرم کافی کی چسکیاں۔ ذہن کو ایسی تراوت محسوس ہوئی جیسے عمر بھر کی اوڑھی ہوئی تھکن کافور ہو گئی ہو۔ سفر حجاز مقدس کی ان حسین یادوں کا تذکرہ تو میں نے بہت بعد میں کرنا تھا مگر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف کے ساتھ ہمارے دوست جاوید اقبال بٹ کی اٹکھیلیوں نے ایسا ماحول بنا دیا کہ.... لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر، کیا کیجئے“۔ یہ تذکرہ آئندہ بھی ضرور چلتا رہے گا مگر فی الوقت سردار یوسف صاحب پاکستانی حجاج کرام کے لئے قیام و طعام کی اچھی سہولتوں کا جو کریڈٹ لے رہے ہیں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر میں اس کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ بے شک اس بار حجاج کرام فریضہ حج کی ادائیگی کے مراحل میں ہمہ وقت خوش و مطمئن رہے ہیں تاہم اس میں کسی اور کا نہیں، صرف سعودی حکومت کا حسنِ انتظام شامل حال ہے۔ جبکہ مقامی سعودی باشندوں نے بھی اپنے مہمان حجاج کرام کی دیکھ بھال اور آﺅ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سعودی حکومت نے تو اس بار حج انتظامات بشمول سکیورٹی انتظامات کے ٹھوس پیرامیٹرز متعین کر دئیے تھے جن پر نہ صرف خود سعودی حکومت نے سختی سے عمل کیا بلکہ دوسرے مسلم ممالک سے بھی حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرایا۔ ان پیرامیٹرز کے تحت ایام حج میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو صرف حج ویزہ پر آنے والے حجاج کرام کے لئے کھولا گیا تھا اور مقامی باشندوں تک کا ان دنوں میں ان دونوں مقدس شہروں میں داخلہ بند تھا۔ حجاج کرام کے قیام و طعام کا بندوبست بھی انہی پیرامیٹرز کے مطابق کیا گیا چنانچہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج کی ادائیگی کے دوران قیام کرنے والے بیرون ملک کے حجاج کرام کو صحت و خوراک کے معاملہ میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ پہلے ان مقامات پر لگائے جانے والے خیموں میں اکثر آگ بھڑک اٹھتی تھی جس سے حجاج کرام کا جانی نقصان بھی ہو جاتا تھا۔ اب سعودی حکومت نے خصوصی اہتمام کرکے مستقل بنیادوں پر آگ پروف خیمے تیار کرا کے نصب کر دئیے ہیں جن میں گرمی کی حدت سے بچنے کے لئے ائرکنڈیشنروں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ مختلف یونٹوں اور گروپوں میں تقسیم ان خیموں کے ہر گروپ کے ساتھ تمام سہولتوں سے مزین واش روم بنائے گئے ہیں اور پھر ان خیموں کے ساتھ میڈیکل کیمپوں کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مقامی باشندے مناسک حج کی ادائیگی والے ایام میں منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کی ہر سڑک، کونے، چوک، پارک اور خیمہ بستیوں کی جانب جانے والے ہر راستے پر کھانے کے پیکٹ، ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور جوسز ہاتھوں میں لئے حجاج کرام کی خدمت کے لئے مامور نظر آتے تھے۔ سعودی حکومت نے خود بھی جابجا ریفریجریٹر رکھوائے ہوئے تھے جو مشروبات، جوسز اور ٹھنڈے پانی کی بوتلوں سے ہر وقت بھرے رہتے۔ اور تو اور ٹریفک کنٹرول کرنے پر مامور سعودی پولیس کے اہلکار بھی اپنی ڈیوٹی کے دوران پیدل چلنے والے حجاج کرام میں کھانے کے پیکٹ اور مشروبات تقسیم کرتے دکھائی دئیے۔ اسی طرح پیدل چلنے والے حجاج کرام پر گرمی کی حدت کے اثرات کم کرنے کے لئے سعودی پولیس اہلکار اور مقامی باشندے ٹھنڈے پانی کی بوتلوں کے ذریعے چھڑکاﺅ کرتے جس سے یک گونہ راحت و آسودگی محسوس ہوتی۔ اسی طرح سعودی انتظامیہ کی جانب سے بھی سڑکوں کے دونوں کناروں پر پیدل حجاج کرام پر پانی کا سپرے کرنے کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا جس سے سفر کی صعوبتوں اور تھکان کا احساس کم ہو جاتا۔ اس کے برعکس ہمارے نجی ٹور اپریٹرز نے تو بڑے بڑے پیکجوں کے ساتھ حجاز مقدس بھجوائے گئے حجاج کرام کی منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں رہائش و خوراک کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں کیا تھا اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جنہیں مکہ مکرمہ سے متذکرہ تینوں مقدس مقامات پر پہنچانے کے لئے کسی ٹرانسپورٹ کا بھی بندوبست نہ کیا گیا چنانچہ ٹور اپریٹرز کے ذریعے جانے والی حجاج کرام کی اکثریت مکہ مکرمہ سے پیدل منیٰ اور عرفات تک پہنچی اور عرفات سے مزدلفہ بھی انہیں پیدل ہی جانا پڑا۔ مجھے یہ مشاہدہ کرتے ہوئے ذہنی کوفت بھی ہوئی کہ حجاج کرام ہجوم در ہجوم سخت گرمی اور حبس میں رات کے وقت بھی اور چلچلاتی دھوپ میں دن کے وقت بھی مناسک حج کی ادائیگی کے لئے منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ پیدل جا رہے تھے۔ ان میں کئی ضعیف العمر افراد کے چہروں پر تھکان اور ضعف کے آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ اسی طرح خواتین اپنے معصوم بچوں کو کندھے پر اٹھائے میل ہا میل کا سفر پیدل طے کرتی رہیں۔ اگر سعودی حکومت اور مقامی باشندوں نے گرمی کی حدت کم کرنے کے لئے پانی کے سپرے اور چھڑکاﺅ کا اہتمام نہ کیا ہوتا اور ان کے خورد و نوش کی طرف توجہ نہ دی ہوتی تو ان حجاج کرام کو کن کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑتا‘ یہ سوچ کر ہی جسم میں جھرجھری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ سرکاری انتظام کے تحت قرعہ اندازی کے لئے جانے والے حجاج کرام کی تو حکومت نے یقیناً نگہداشت کی، جن کے لئے خیموں کا بندوبست بھی تھا مگر ٹور اپریٹرز کے ذریعے جانے والے حجاج کرام کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی تو وزارت مذہبی امور کو ادا کرنی چاہئے تھی جن کی اکثریت منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں سڑکوں، فٹ پاتھوں اور کھلے گراﺅنڈز میں چادریں بچھا کر سوتی رہی۔ ٹور اپریٹرز کو حجاج کرام کا کوٹہ بھی تو آخر وزارت مذہبی امور کی جانب سے ہی ملتا ہے جس کے اجرا کی کمشنوں سے لدی ہوئی داستانیں اکثر منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ یہ حجاج کرام بیچارے سرکاری حج سے دوگنا پیسے دے کر حجاز مقدس جاتے ہیں اور انہیں سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اور کہیں بھی رہائش و خوراک کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ اگر ہماری وزارت مذہبی امور حجاج کرام کے لئے امسال بہتر سہولتوں کا کریڈٹ لے رہی ہے تو اسے ٹور اپریٹرز کے معاملات کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔ ان کے لئے اچھے کھانوں کی ڈشیں دکھا کر تو اصل حقائق سے نظریں نہیں ہٹوائی جا سکتیں اور ان ڈشوں کے اہتمام میں تو سارا کمال سعودی انتظامیہ اور وہاں کے مقامی باشندوں کا ہے۔ آپ لہو لگا کر شہیدوں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں۔ حجاز مقدس کے لئے میری روانگی چونکہ اسلام آباد سے تھی جس کا مجھے سعودی سفارتخانہ کی جانب سے صرف دو روز قبل بھجوائے گئے سعودی ائرلائن کے ٹکٹ کے ذریعے علم ہوا اس لئے مجھے ہنگامی طور پر روانگی سے ایک دن قبل اسلام آباد جانا پڑا۔ پی آئی او راﺅ تحسین نے کمال مہربانی سے اسلام آباد میں شب بسری اور اگلے روز بینظیر انٹرنیشنل ائرپورٹ اسلام آباد پہنچانے کا بندوبست کرا دیا چنانچہ جدہ تک کے بالواسطہ سفر کی کئی کلفتوں سے بچ گیا جبکہ اسلام آباد ایک شب قیام کا موقع ملنے پر مجھے سعودی سفارتخانہ میں سعودی انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر حبیب اللہ البخاری سے خیر سگالی کی ملاقات کا موقع بھی مل گیا جس کا اہتمام سعودی میڈیا سیل کی کوارڈی نیٹر محترمہ ریحانہ خاں نے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ میں نے حبیب اللہ صاحب سے اپنے حجاز مقدس کے شیڈول کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ شیڈول تو سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات نے ہی مرتب کیا ہوا ہے جس کے بارے میں آپ کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد ہی آگاہی ہو گی۔ انہوں نے مجھے سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے تین افراد کے ناموں کی فہرست فراہم کی جنہوں نے سعودی عرب میں ہماری معاونت کرنا تھی۔ ان میں ایک صاحب کا نام عبدالرحمان نیازی تھا جس سے مجھے گمان ہوا کہ یہ صاحب پاکستانی ہوں گے کیونکہ نیازی قبیلہ پاکستان کا معروف قبیلہ ہے۔ میں نے اس بارے میں حبیب اللہ البخاری صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر میری معلومات میں اضافہ کیا کہ نیازی قبیلہ سعودی عرب کا بھی معروف قبیلہ ہے اور عبدالرحمان نیازی سعودی باشندے ہی ہیں جو اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے حبیب اللہ صاحب کو بتایا کہ ہمارے اپوزیشن کے معروف سیاستدان عمران خان بھی نیازی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور نوائے وقت کے معروف کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی بھی اسی قبیلے سے ہیں۔ کیا ہم ان کا بھی سعودی باشندوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ حبیب اللہ صاحب نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ ہاں مجھے بھی ان کے بارے میں معلوم ہے۔ حبیب اللہ صاحب کی اس آگاہی سے مجھے اپنے حکمرانوں کے لئے یہ پیغام بھی چھپا ہوا نظر آیا کہ وہ جب بھی ان دونوں شخصیات سے زچ ہوں تو انہیں سعودی عرب بھجوا کر اپنے لئے ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے ہمیں حج ویزہ کے بجائے زیارت (وزٹ) ویزہ جاری کیا گیا تھا، جبکہ سعودی حکومت کی نئی پالیسی کے تحت صرف حج ویزہ رکھنے والوں کو ہی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ہمیں اس پیچیدگی کا قطعاً علم نہیں تھا اس لئے ہمیں جدہ ائرپورٹ پر اپنے زیارت ویزہ کے باعث خاصے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ اگرچہ سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے افسران ہمیں لینے کے لئے ائرپورٹ کے اندر موجود تھے۔ ہم نے عمرہ کی نیت سے اسلام آباد سے ہی احرام باندھ لیا تھا اور ہمارے دوسرے ساتھی حنیف خالد، شوکت پراچہ اور حبیب اللہ سلفی بھی احرام باندھے ہوئے تھے اس لئے جدہ ائرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد ہمیں حج ٹرمینل کی جانب جانے والی بس پر سوار کرا دیا گیا جہاں ہمارے زیارت ویزہ نے ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور وہاں تعینات سٹاف نے ہمیں ”گرین سگنل“ دینے سے معذرت کر لی۔ ہمیں لینے کے لئے آئے سعودی وزارت کے اہلکار نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ یہ سعودی حکومت کے مہمان ہیں مگر انہوں نے قائل ہونے کے بجائے درشت رویہ اختیار کر لیا جس سے ہمیں یکایک یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں ہمیں جدہ ائرپورٹ ہی سے واپس اسلام آباد نہ بھجوا دیا جائے۔ درحقیقت جدہ ائرپورٹ کے حج ٹرمینل میں تعینات سٹاف کو صرف یہی ہدایات ملی ہوئی تھیں کہ انہوں نے صرف حج ویزہ رکھنے والوں کو کلیئرنس دینی ہے اس لئے وہ سعودی حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود ہمارے وزٹ ویزہ کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ کوئی دو گھنٹے کی بحث تمحیص، چھان پھٹک کے بعد ہمیں حج ٹرمینل سے جدہ ائرپورٹ کے دوسرے ٹرمینل بھجوایا گیا جہاں ائرپورٹ سے باہر نکلنے کی کلیئرنس لیتے لیتے ہمارے مزید دو گھنٹے ضائع ہو گئے اور اس طرح اسلام آباد سے جدہ ائرپورٹ رات بارہ بجے کے قریب پہنچنے کے باوجود ائرپورٹ سے باہر آتے ہوئے ہمارے پانچ گھنٹے صرف ہو گئے۔ میں نے امیگریشن کے تمام مراحل طے ہونے کے بعد عبدالرحمان نیازی کو فون کیا تو انہوں نے دس منٹ کے اندر اندر اپنا آدمی ہمارے پاس بھجوا دیا۔ ہمارا گمان تو یہی تھا کہ ہمیں عمرہ کی ادائیگی کے لئے ائرپورٹ سے سیدھا مکہ مکرمہ لے جایا جائے گا مگر ہمیں قیام کے لئے جدہ کے ہوٹل ”موو ان پک“ پہنچا دیا گیا جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ سعودی پرنس طلال کے بیٹے ولید کی ملکیت ہے۔ ہمیں حجاز مقدس پہنچنے کے بعد فوری طور پر عمرہ کی ادائیگی کا شرف حاصل نہ ہو پانے کا خاصہ افسوس ہوا اور ساتھ ہی یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا کہ کہیں حج ویزہ نہ ہونے کے باعث تو ہمیں جدہ میں نہیں روک لیا گیا؟ اس ہوٹل میں ہماری معاونت کے لئے ایک پورے فلور پر میڈیا سنٹر قائم کیا گیا تھا جہاں سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے ڈائریکٹر خالد ایم الشمسن اور دوسرے حکام نے بھی اپنے کیمپ آفس قائم کر رکھے تھے۔ عبدالرحمان نیازی سے بھی یہیں ملاقات ہوئی اور ہمیں اپنے شیڈول سے آگاہی ملی جس کے تحت ہمیں پہلے مدینہ منورہ لے جایا جانا تھا اور وہاں سے ہم نے عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آنا تھا۔ چنانچہ مجبوراً ہمیں احرام اتارنا پڑے کیونکہ شیڈول کے مطابق مدینہ منورہ ہماری روانگی تین روز بعد تھی اور ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ آپ کو مدینہ منورہ سے واپسی پر میقات میں احرام باندھنا ہو گا۔ اس شیڈول کی بنیاد پر ہمیں یہ اطمینان تو حاصل ہو گیا کہ وزٹ ویزہ کے باوجود ہم مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ بھی جا رہے ہیں اور تمام مناسک حج ادا کر رہے ہیں جس کے لئے سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات نے پورا اہتمام کر رکھا تھا چنانچہ ہمیں سعودی حکومت کے ایام حج کے لئے متعینہ پیرامیٹرز کے باوجود وزٹ ویزہ رکھتے ہوئے بھی حرمین شریفین جانے اور روضہ¿ رسول پر حاضری دینے کے ساتھ ساتھ بارگاہ ایزدی میں عمرہ اور فریضہ حج ادا کرنے کا بھی سعودی حکام نے پورا موقع فراہم کر دیا۔ ہمیں وزٹ ویزے پر بلوا کر ہماری فریضہ حج کی ادائیگی کا شیڈول بھی یقیناً کسی حکمت کے تحت ہی مرتب کیا گیا ہو گا ورنہ تو وزٹ ویزہ ہونے کے باعث سعودی حکومت کے وضع کئے گئے حج قوانین ہمارے راستے میں حائل ہو جاتے۔ چونکہ ہمیں جدہ میں زیادہ قیام کا موقع مل گیا اس لئے ہمیں جدہ میں نوائے وقت کے بیوروچیف امیر محمد خاں اور جدہ ہی میں عرصہ دراز سے مقیم ہمارے ایک عزیز حکیم محمد ایوب نے جدہ کی روزانہ کی بنیاد پر سیر کرانے اور اس کے اہم مقامات سے آگاہی حاصل کرنے کا بھی خوب موقع فراہم کر دیا۔ ہم نے جدہ کے سرور پیلس کی جھلک بھی دیکھ لی جہاں ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ جلاوطنی کے شاہانہ دن گزارے ہوئے ہیں۔ امیر محمد خاں ہمیں جدہ کے معروف سرکاری اردو اخبار اردو نیوز کے دفتر بھی لے گئے جہاں اردو نیوز کے نیوز ایڈیٹر ابصار علی، لیاقت انجم اور دوسرے احباب سے گپ شپ کا خوب موقع ملا۔ یہ محفلِ دوستاں ایسی سجی کہ اپنائیت کے انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ حکیم ایوب نے جدہ میں میاں نواز شریف کی ایک ایسی جائیداد سے بھی آگاہ کیا جو ابھی تک کسی کی نظروں میں نہیں آئی اور پانامہ لیکس کے دائرے سے بھی باہر ہے۔ یہ جائیداد جدہ کے وسط میں اڑھائی تین ایکڑ کے قطع اراضی پر تعمیر کرائے گئے رہائشی فلیٹس پر مشتمل ہے جو کرائے پر دئیے جاتے ہیں۔ حکیم ایوب کے بقول سعودی فرمانروا نے یہ قطع اراضی میاں نواز شریف کو جلاوطنی کے دوران گفٹ کیا تھا۔ حکیم ایوب چونکہ جدہ کے اسی علاقہ میں سالہا سال سے مقیم ہیں جہاں یہ فلیٹس موجود ہیں اس لئے ”دروغ برگردن راوی“ ان کی معلومات مصدقہ ہی ہوں گی۔(بشکریہ نوائے وقت)