ہیلی حادثہ اور404 فلائٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 05, 2022 | 18:58 شام

 بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا تھا جس میں 12 کور(کوئٹہ) کے کمانڈر سمیت 6 افراد سوار تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہیلی کاپٹر کو خراب موسم کی وجہ سے حادثہ پیش آیا،اگلے روز ہیلی کاپٹر کا ملبہ لسبیلہ کے علاقے وندر میں موسیٰ گوٹھ سے ملا ہیلی کاپٹر میں سوار تمام 6 افسر اور سپاہی شہید ہو گئے جن میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈ

ائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی‘ انجینئرنگ کور کے بریگیڈیئر محمد خالد‘پائلٹ میجر سعید احمد‘معاون پائلٹ میجر محمد طلحہ منان اورکریو چیف نائیک مدثر  شامل ہیں، بریگیڈیئر محمد خالد انجینئرز کور سے ہونے کے ناتے بلوچستان میں ریسکیو اور ریلیف کی تمام سرگرمیوں کی قیادت کر رہے تھے جنرل سرفراز کی جگہ جنرل آصف غفور کو کور کمانڈر کوئٹہ تعینات کیا گیا ہے۔ 

رات کو ہیلی کاپٹر لاپتہ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی،اس سانحہ پر ہرانسان سراسیمہ تھالاپتہ ہونے والوں کے اعزا و اقربا پر کیا گزر رہی ہوگی یا وہ لوگ جو ایسے صدمات سے گزر چکے ہیں۔عزیز ترین ہستی کو بھی لحد میں اتارنے والوں کو کبھی صبر آجاتا ہے جو لاپتہ ہوئے ان کے لواحقین پَل پَل مرتے ہیں، ان کی زندگی موت میں ڈھلتی رہتی ہے،روح پگھلتی رہتی ہے۔ امید بر آتی ہے نہ دامن چھڑا پاتی ہے۔

 لسبیلہ سے کراچی آنے والے کاپٹر کے اس وقت رابطے منقطع ہوگئے جب وہ ممکنہ طور پر سرِ شام طوفان کے گرداب اور گھپ اندھیرے کی لپیٹ میں آگیا،رابطہ نہ ہونے پر اسے لاپتہ قرار دیدیا گیا،اس طرح سے رابطے پہلے بھی ٹوٹتے رہے ہیں۔ 25 اگست 1989ء کی صبح کو گلگت سے  اسلام آباد آنے والی فلائٹ ایسی لاپتہ ہوئی کہ اس کا سراغ  ابھی تک نہیں مل سکا،یہ پاکستان کا دوسرا  لاپتہ ہونے والا جہاز تھاصبح  ساڑھے چھ بجے  روانہ ہونے والی  فلائٹ  404  میں  عملے کے ارکان سمیت  54 مسافر تھے۔ طیارہ چند منٹ ہی فضا میں رہنے کے بعد غائب ہو گیا تھا۔ 

اُس دور میں گلگت سے اسلام آباد کے لیے 10 منٹ کے وقفے سے دو پروازیں چلا کرتی تھیں، مسافروں کی سہولت کے علاوہ اس کا مقصد دوردراز اور دشوارگزار پہاڑوں کے اوپر دونوں طیاروں  میں رابطہ اور رہنمائی کے ذریعے حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا تھا۔دونوں پائلٹ اس مشکل ترین روٹ پہ پرواز کے ماہر جانے جاتے تھے۔ 10 منٹ پہلے اڑنے  والے طیارے کے پائلٹ نے کپتان زبیر سے حال احوال پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ تم چلو ہم تمہارے پیچھے آرہے ہیں۔کیپٹن ایس ایس زبیر کو اس علاقے میں پرواز کرتے ہوئے پانچ برس ہو چکے تھے، ان کے ساتھی پائلٹ احسان بلگرامی ایئر فورس سے کمرشل ایوی ایشن کی طرف آئے تھے۔وہ بھی پہاڑی سلسلوں پر پیچیدہ پرواز کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔

صبح سات بج کر 43 منٹ کے بعد جہاز کا رابطہ اسلام آباد، پشاور،چراٹ اور مظفرآباد میں قائم ایئر ٹریفک کنٹرول کے کسی سٹیشن سے نہ ہو سکا اور نہ ہی پائلٹ نے خطرے کے اظہار کے لیے ایس او ایس کال دی چونکہ طیارے کے گرنے یا کہیں سے دھواں اٹھنے کی اطلاع نہیں ملی تھی اس لیے مسافروں کے لواحقین دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ اگر جہاز اغوا بھی ہو گیا ہو تو مسافر تو کم ازکم محفوظ ہوں گے۔اگلے روز افواہوں اور اندیشوں نے باقاعدہ سازشی نظریات کا روپ دھار لیا، چہ مہ گوئیوں اور اندازوں کے بطن سے تین طرح کے امکانی مفروضوں نے جنم لیا۔ ایک یہ کہ  طیارے کو اغوا کے بعد سری نگر یا کابل لے جایا گیا ہے،دوسرے کے مطابق کسی تخریب کاری کی وجہ سے طیارہ تباہ ہوچکا ہے اور آخری یہ کہ برفانی پہاڑوں پر فنی خرابی کی وجہ سے جہاز لاپتہ ہو گیا ہے۔

ان دنوں وزیراعظم بے نظیر بھٹوتھیں۔ انہوں نے اس حادثے  پر کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا ان کی ہدایت پر تلاش کا آپریشن شروع کیا گیا۔اقوام متحدہ کے ذریعے نومینزلینڈ میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کی پرواز کی اجازت بھی حاصل کی گئی۔  بھارت سے رابطہ کر کے تلاش میں مدد کی اپیل کی گئی،بھارت کی طرف سے 16  ہیلی کاپٹرز لائن آف کنٹرول کے اطراف میں ممکنہ ملبے کی تلاش میں پروازیں کرتے رہے اس دشوار گزار علاقے میں زمینی تلاش کے لیے ایف سی کے ایک ہزار اہلکاروں کو وادیوں اور گھاٹیوں میں کھوج کا کام سونپا گیا۔ 

طیارے کے پیٹرو گلیشیر کی طرف جاتے دیکھے جانے کی اطلاعات نے تلاش کی ساری سرگرمیوں کو نانگاپربت پر مرکوز کر دیا۔ان اطلاعات کا ذریعہ ایک برطانوی کوہ پیما مس گمین تھی انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک جہاز کو نیچی پرواز کرتے اور بادلوں میں گم ہوتے دیکھا،اس گواہی کے بعد پیٹرو گلیشیر تلاش کی سرگرمیوں کا مرکزی ہدف قرار پایااس دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ طیارے نے پیٹرو گلیشیر پر کریش لینڈنگ کی ہے اور شاید مسافر زندہ مل جائیں۔اس طیارے کی تلاش ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سرچ آپریشن تھا جو وہ  ڈیڑھ ماہ جاری رہا۔پی آئی اے کی طرف سے13اکتوبر کو یہ اعلان کردیا گیا کہ طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا ہے اور کوئی مسافر زندہ نہیں بچ سکا۔

جدید دور ہے،ترقی کے عروج پر پہنچی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے مصنوعی بارش برسا دی جاتی ہے۔زلزلے برپا کر دیئے جاتے ہیں۔امریکہ میں ہزاروں میل دور بیٹھ کر افغانستان میں ایمن الظواہری کوان کی رہائش گاہ  پر نشانہ بناتے ہوئے مارڈالا جاتا ہے جبکہ عمارت کا شیشہ تک بھی نہیں ٹوٹتا۔فضاؤں سے تو زمین کے اندر موجود سوئی تک کا سراغ لگا لیا جاتا ہے۔وہ تو جہاز تھا،اس کی تلاش نئے سرے سے شروع کی جائے تو ممکن ہے سراغ مل جائے۔

 اسی برفانی علاقے میں 1973ء میں پاک فضائیہ کا سی ون تھرٹی طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا، جس کا ملبہ تین ماہ بعد برف کم ہونے کی وجہ سے مل پایا تھا۔یہ ایک حیرت انگیز اتفاق تھا کہ پاکستانی طیارے کی گمشدگی والے دن ہی ایک بھارتی مسافر طیارے کے 23 برس بعد ملبہ ملنے کی خبر آئی۔24 جنوری 1966ء کو ایئر انڈیا کا بوئنگ سیون زیرو سیون طیارہ فرانس کے علاقے مونٹ بلانک کی برفیلی پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں ہندوستان کے چوٹی کے ایٹمی سائنسدان اور بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ہومی جے بھابھا سمیت 117 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔ پہاڑوں پر سے برف کم ہونے کی وجہ سے 23 برسوں بعد اس کا ملبہ ملا تھا۔اُن دنوں یہ تاثر عام تھا کہ بھارتی ایٹمی پروگرام کے آگے بند باندھنے کے لئے ایک سپر پاورنے یہ جہاز مار گرایا تھا۔