2019 ,نومبر 20
حمزہ علی عباسی نے فنون لطیفہ کو حرام قرار نہیں دیا اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ اس وجہ سے چھوڑ رہے ہیں کہ یہ حرام ہے. حمزہ نے اسلام پر خود تحقیق کی اور کسی مکتبہ فکر کے صاحب علم کے زیر اثر آ کر یہ اقدام نہیں کیا. اور وہ اپنی خدا پر ریسرچ اور اس کے نتیجے میں جو ان کا علم اور تجربہ ہے وہ اس پر ا ب بات کرنا چاہتے ہیں اور اسے لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں ۔ باقی جتنے بھی فنون لطیفہ کے لوگ تھے انہوں نے کسی نہ کسی اسلامی سکول آف تھاٹ کے زیر اثر فنون لطیفہ کو حرام جان کر اس فیلڈ سے کنارہ کش ہوئے ۔
حمزہ کا کہنا ہے کہ خدا پر بات کرنا ایک سنجیدہ کام ہے اور باقی اس فیلڈ میں ہلا گلا اور غیر سنجیدہ بات بھی ہوتی ہےتو اس لیے وہ اب فنون لطیفہ میں جب کبھی کام کریں گے تو سنجیدہ موضوعات پر اس فیلڈ میں کام کریں گے۔ جیسا کہ ان کا ڈرامہ الف جیو پر چل رہا ہے وہ اللہ تعالی سے ریلیٹڈ ہے۔ اور حمزہ نے کہا وہ تمام علم والوں سے سیکھتے رہے ہیں اور سیکھتے رہیں گے ۔ اور اسلام سے ریلیٹڈ بہت حساس ایشوز پر اب وہ بات کریں گے۔ جس پر بہت سے لوگ ان کے خلاف ہو جائیں گے ۔مگر کسی تو اب ان پر بات کرنی ہوگی ۔ لوگوں نے ان کی وڈیو نہ پوری سنی نہ سمجھی اور تبصرے شروع کر دیے ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے جو راہ چنے ۔ کم از کم ان کی وڈیو پوری تو سن لیجئے ۔۔ مگر ہم ہر بات تعصب کی عینک لگا کر سنتے ہیں ۔۔
اسلام بھی انسان کو اپنی منزل تعین کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہر انسان کو قرآن پر غور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اور جدید دنیا میں بھی لبرل ہوں یا سیکولر سب اس فکری آزادی کو مانتے ہیں ۔ تبدیلی تو انسان میں کبھی بھی آ سکتی ہے ۔اور وہ نجانے کب سے اندر ہی اندر چل رہی ہوتی ہے
اور پھر ایک وقت پر ظاہر ہو جاتی ہے ۔مگر ہم علم تو رکھتے ہیں مگر علم میں چھپی حکمت سے بالکل ناواقف ہو چکے ہیں ۔
حمزہ علی عباسی نے واضح طور پر کہا کہ وہ فنون لطیفہ کو حرام نہیں سمجھتے نہ اس وجہ سے چھوڑ رہے ہیں ۔وہ اپنی ریسرچ اور تحقیق پر مبنی سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔