امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/علامہ منیر احمد یوسفی):امیر المؤمنین حضرت سیّدنا حضرت علی ؓ حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت ابوطالب نے آپ کا نام علی رکھا۔ آپ کا نام علی بھی ہے اور حیدر بھی۔ حیدر کے معنی ہیں شیر کے ہیں۔ والدہ نے اپنے والد کے نام پر آپ کانام کرار رکھا۔ کرار کے معنی ہیں پلٹ پلٹ کر حملہ کرنے والا کے ہیں۔ کرار آپ کا لقب ہے۔ رسول اللہؐنے آپ کو اسداللہ کا خطاب عطا فرمایا۔ آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ؓہے۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ عشرہ مبشرہ می
ں سے ہیں۔ آپ قدیم الاسلام ہیں یعنی اِسلام لانے والے پہلے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اِسلام لائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت انس‘ حضرت زید بن ارقم‘ حضرت سلمان فارسی اور صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت اِس بات پر متفق ہے کہ سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ اِیمان لائے۔ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے بعد آپ اِسلام لائے۔ جس وقت آپ اِسلام لائے آپ کی عمر شریف تقریباًدس سال تھی۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓپر اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی عطاہوئی کہ اُنہیں نبی کریم رؤف و رحیم ؐ کی کفالت نصیب ہوئی۔ قریش پر ایک دفعہ شدید خشک سالی کا وقت آیا۔ حضرت ابوطالب کی بہت اَولاد تھی تو رسولِ کریم ؐنے اپنے چچا حضرت عباس ؓ سے فرمایا (جو کہ بنی ہاشم میں سب سے زیادہ وسعت والے تھے) کہ ’’اے عباسؓ آپ کے بھائی حضرت ابوطالب کثیر العیال ہیں اور لوگوں پر جو یہ بلا خشک سالی کی آ پڑی ہے وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں ، آئیں ہم اُن کے پاس چلیں ‘ اُن کے اُوپر سے اُن کے کنبہ کا کچھ بوجھ ہلکا کریں۔ اُن کے گھر سے ایک آدمی کو میں لے لوں اور ایک کو آپ لے لیں تو ہم اُن کی طرف سے اُن دو کا خرچ خود برداشت کریں۔ حضرت عباسؓ نے کہا بہت اَچھا۔ چنانچہ اس خواہش کے جواب میں حضرت ابوطالب نے اِن دونوں سے کہا کہ اِس صورت میں تم میرے پاس عقیل کو چھوڑ دو (اور ابنِ ہشام نے کہا عقیل اور طالب کو چھوڑ دو) اِس کے بعد رسول اللہ ؐ نے حضرت علیؓ کو لے لیا اور اُن کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور حضرت عباسؓ نے حضرت جعفرؓ کو لے لیا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ (ازالۃ الخفاء جلد ۴ ص۶۰۴) امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ سے روایت ہے‘ مجھے نبی امی ؐ نے فرمایا ’’جو تجھ سے محبت کرے گا وہ مومن ہو گا اور جو تجھ سے بغض رکھے گا وہ منافق ہو گا‘‘۔ ( ترمذی جلد۲ ص۴۱۲‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۳۳۱‘ شرح السنۃ جلد۴۱ص۴۱۱‘ ابن ماجہ ص۲۱‘ نسائی جلد۸ ص۶۱۱)۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُم سلمہؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں‘ رسول اللہ ؐ فرماتے تھے ’’کوئی منافق (حضرت) علیؓ کو دوست نہیں رکھتا اور کوئی مومن علیؓ سے دشمنی نہیں رکھتا‘‘۔ ( ترمذی جلد۲ ص۳۱۲)
حضرت براء بن عازب ص اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے‘ جب رسولِ کریم ؐ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم (خم کے تالاب) پر اُترے آپ ؐ نے امیر المؤمنین حضرت سیّدناعلی ؓ کا ہاتھ پکڑا اورفرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنوں سے اُن کی جانوں سے زیادہ قریب ہوں۔ سب نے عرض کیا جی ہاں! یا رسول اللہ ؐ پھر فرمایا: ’’ اے اللہ (جَلَّ جلالک) جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ (جَلَّ جلالک) جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت فرما اور جو اِس سے دشمنی کرے تو اُس کا دشمن رہ۔ (مشکوٰۃ ص۵۶۵‘ مسند احمدجلد۵ ص۰۷۳‘ ابن ماجہ ص۲۱‘ مستدرک حاکم جلد۳ ص۶۱۱‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۷۰۱-۶۰۱‘ البدایہ والنہایہ جلد۵ ص۲۱۲-۱۱۲)
حضر ت سہل بن سعدؓ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص حضرت علیؓ کو ابو تراب کہتا ہے۔ حضرت سہل بن سعدؓ سن کر ہنسنے لگے اور فرمایا: اللہ (تبارک و تعالیٰ) کی قسم امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ کی یہ کنیت تو نبی کریم رؤف و رحیم ؐ نے رکھی ہے اور امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی ؓ کو یہ کنیت بہت پسند تھی ۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ہجرت کے بعد مدینہ شریف میں رسولِ کریم ؐ نے صحابہ کرامؓ میں ایک دوسرے کا بھائی چارہ کروا دیا۔ اِتنے میں امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ حاضر ہوئے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اُنہوں نے رسولِ کریم رؤف و رحیمؐ سے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ آپ ؐ نے اپنے صحابہ کرام ؓ میں بھائی چارہ کروا دیا لیکن میرے اور کسی اور کے درمیان بھائی چارہ نہیں کروایا تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’تم دُنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو‘‘۔ (ترمذی جلد۲ ص۳۱۲‘ مشکوٰۃ ص۴۶۵‘ مستدرک حاکم،مسلم جلد۱ ص۷۸۲)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم ؐ نے غزوئہ تبوک میں جب آپ کو مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم فرمایا تو آپ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہؐآپ ؐمجھے یہاں بچوں اور عورتوں پر اَپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جا رہے ہیں‘ دیگر مجاہدین کے ساتھ نہیں لے کر جا رہے تو رسولِ کریم رؤف و رحیم ؐ نے جواباً اِرشاد مبارک فرمایا: ’’کیا تم اِس بات سے راضی نہیں ہو کہ میں تمہیں اِس طرح چھوڑے جاتا ہوں جس طرح حضرت موسیٰؑ ‘ حضرت ہارونؑ کو چھوڑ گئے تھے‘ بس فرق صرف اِتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا‘‘۔ ( بخاری جلد۱ مسلم ‘ مسند احمد، البدایہ والنہایہ )
امیر المؤمنین حضرت سیدنا علیؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’اللہ (تبارک و تعالیٰ) حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ پر رَحم فرمائے کہ اُنہوں نے اپنی بیٹی حضرت سیّدہ عائشہؓ کا نکاح میرے ساتھ کیا اور مجھے ہجرت کے مقام پر لائے اور اپنے مال سے حضرت سیّدنا بلالؓ کو آزاد کرایا۔ پھر فرمایا اللہ (تبارک و تعالیٰ) رحم فرمائے حضرت سیّدنا عمرؓ پر کہ وہ حق بات کہتے ہیں اور اُنہوں نے اِس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اُن کا کوئی دوست رہے یا نہ رہے ‘ سوائے اللہ (تبارک و تعالیٰ) کے اور اُس کے رسولؐ کے‘ اُنہوں نے حق بات ہی کہی ہے۔ اللہ (تبارک و تعالیٰ) رحمت فرمائے حضرت سیّدنا عثمانؓ پر کہ اُن سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں اور رحمت فرمائے اللہ (تبارک و تعالیٰ) حضرت سیّدناعلیؓ پر‘ اے میرے اللہ (تبارک و تعالیٰ)! وہ جہاں کہیں ہوں حق اُن کے ساتھ رہے‘‘۔ (ترمذی جلد۲ ص۲۱۲‘ البدایہ والنہایہ جلد۷ ص۱۶۳‘ مستدرک حاکم جلد۳ ص۲۷)