حضرت عمرؓ کی مچھلی کھانے کی خواہش

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 15, 2020 | 17:12 شام

وہ اپنی غلطی کو غلطی سمجھتے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کبھی کوئی خواہش نہیں کی مچھلی کھانے کو دل چاہا تو آپ کے ایک غلام کا نام یرکا تھا۔ یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے کہا مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا مچھلی لینے۔ اورآٹھ میل آنا پڑے گا مچھلی لے کے۔ رہنے دو کھاتے ہی نہیں۔ ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا ۔

حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آٹھ میل جانا اور آٹھ میل آنا میری مچھلی کے لئے چھوڑوں پڑے۔۔۔۔۔ ہاں اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی۔  پر آج جب خواہش کی نا تو میں نے دل میں کہا خواھش کرلی ہے اور کی بھی پہلی دفعہ۔ اب ایسا ہوسکتا تھا بھلا کہ کوئی خواہش ہو اور میں پوری نہ کروں۔
لہٰذا جب جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہے عصر ان کی مسجد میں ہی ہوجائے گی۔ غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا۔ عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں پہنچ گیا مچھلی لینے۔ عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ہیں۔ ایک ٹوکرا میں نے مچھلی کا خریدا اور  عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا۔ گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تھا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ نہ لیں۔
غلام کہتا ہے کے پسینہ خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا تو میں نے کہا حضرت عمرؓ تو دیکھ لیں گے۔اس لیے جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے غسل کرایا پھر اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔

(ہماری خواہشیں ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کرکے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ ہوئی تو میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑی تھی۔
نماز سے فارغ ہو  کر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہے۔ بس تھوڑی دیر میں پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا دھودیا دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔
یہاں تو نے پانی نہیں ڈالا۔۔۔۔ تو بھول گیا تھا کیا۔۔۔۔ اور پھر حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے شک کوئی نہیں اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی نہیں ہوں، کوئی پرہیز گار نہیں ہوں میں تو دعائیں مانگتا ہوں اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف کردے۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں کہے کہ یا اللہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل مجھے سفر کرایا اے اللہ میں جانور تھا، بےزبان تھا یہ میری غلطی اور 16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے۔۔۔۔۔۔
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا کمزوروجود کا آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
 یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویاتھا جتنا آج رویا۔ میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ

(یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)

غلام رونے لگا جناب عمرؓ کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال اور یہ جو مچھلی لے کے آیا ہے اسے مدینے کے غریب گھروں میں دے دیں اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔(سبحان اللہ)

یہ حال ہے خدمت گاروں کا
سرکار کا عالم کیا ہوگا
جزاک اللہ والخیر