ہیڈلانی……ساجد مجید اورممبئی حملے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 01, 2022 | 07:06 صبح

 بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں ان کو پڑھتے جائیں تو تاریخ کے کئی پَرت کھلتے جاتے ہیں ایسی ہی تحریر خبر کی صورت میں نظر سے گزری، اس خبر کا تعلق پندرہ سال قبل کے واقعہ سے ہے۔خبر کی دھول ڈیڑھ دہائی بعد بھی نہیں بیٹھی۔ کبھی تو یہ معاملہ طوفان کی مانند دنیا کے میڈیا پر چھا جاتا ہے، اس واقعہ میں ملوث کردار کہاں کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، کیسے کیسے ہیں اور کیا یہ اصل بھی ہیں؟؟؟۔ ان سمیت  اس واقعہ سے جڑے کئی سوال ہیں۔ پہلے خبر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ خبرواشنگٹن سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہ

ے۔پچھلے ہفتے اس وقت سامنے آتی ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیو یارک میں جاری تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے 23ستمبر کو اجلاس سے خطاب کیا اسی روز خبرکچھ اس طرح نشر ہوئی اور اگلے روز شائع ہوئی:۔" دہشتگردی کے خلاف امریکہ اور پاکستان کے مابین تعاون کے معاملے پر امریکہ نے دہشتگردی کی مالی معاونت کے مجرم سے تفتیش کے لیے پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے دعویٰ کیاگیا ہے کہ ساجد مجید ممبئی حملوں کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس سے جیل میں پوچھ گچھ کے لیے قونصلر رسائی دی جائے۔ امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2011ء میں ساجد مجید کا وارنٹ گرفتاری جاری کیا تھا۔ ساجد مجید  کی گرفتاری یا نشاندہی کے لیے امریکہ نے5ملین ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔ اسے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کچھ عرصہ قبل ساڑھے15سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ساجد مجید  سے متعلق ڈیوڈ کو لمین ہیڈلی امریکی اداروں کو بیان دے چکا ہے۔ وہ ممبئی حملوں سمیت کئی عالمی جرائم میں ملوث ہونے کے جرائم میں 35سال کی قید کاٹ رہا ہے۔وہ امریکہ کی جیل میں ہے۔" 

امریکہ کی طرف سے ساجد مجید  سے قونصلر رسائی مانگی گئی تو پاکستان نے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے بیان کی نقل طلب کی،کئی لوگوں کے لیے ساجد مجید  سے زیادہ کولمین ہیڈلی کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوگا۔ یہ شخص ہزاروں لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ایک ہے، شاید یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا واحد شخص ہو، اس کی ایک آنکھ نیلی اور دوسری بھوری ہے۔ وہ پاکستانی ہے اور امریکی بھی ہے،  وہ مسلمان بھی ہے اور عیسائی بھی ہے، اس کا ایک نام مسلمانوں،دوسرا عیسائیوں والا ہے۔ داؤد گیلانی اور ڈیوڈ کولمین ہیڈلی، اگلی انفارمیشن حیران کن ہے۔ وہ امریکی سی آئی کے لیے کام کرتا رہا اور اسی دوران لشکر طیبہ کا بھی مجاہد تھا ڈبل غالباً ٹرپل ایجنٹ  اس کی والدہ امریکی ہیں اور شراب خانہ چلاتی ہیں۔ ہیڈلی اور گیلانی کو اگر اس تحریر میں آسانی کے لیے الگ الگ یا دونوں نام دینے کے بجائے ہیڈلانی کہہ لیا جائے تو آسانی رہے گی۔ ہیڈلانی صاحب منشیات بھی سمگل کرتے رہے پکڑے گئے اور سزا بھی پائی کیا ایسا شخص دنیا میں کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟۔ اس نے جیل سے ویڈیو کانفرنس پر بھارتی عدالت کے روبرو آن لائن بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں کئی اعترافات کئے۔ ہیڈلانی کے بارے تفصیلات سے قبل تھوڑا سا تذکرہ ساجد مجید کا کرتے ہیں۔

لاہور کے علاقہ فیصل ٹاؤن میں پیدا ہونے والے 44 سالہ ساجد مجید چوہدری  بھارتی حکام کے مطابق 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ  تھے۔ انہوں نے ممبئی میں محاصرے کے دوران حملہ آوروں کو لاہور سے ہدایات دی تھیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ میں کہاگیا ہے  کہ ساجد مجید  ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ 2001ء سے لشکر طیبہ کے سینئر رکن رہے۔ ایف بی آئی کے مطابق2006 سے 2011ء تک لشکر طیبہ ساجد مجید کی نگرانی میں اپنی غیر ملکی شدت پسندی کی کارروائیاں کرتا رہا۔2008ء میں لشکرِ طیبہ نے ممبئی میں تین روز حملے کئے۔حملوں میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک ہوئے،ان  میں چھ امریکی بھی  تھے۔ ساجد مجید حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز تھے،یہ بھی  الزام ہے کہ ساجد مجید نے  2008ء اور 2009 ء کے درمیان ڈنمارک کے ایک اخبار اور اس کے ملازمین پر انتہا پسندانہ حملہ کیا تھا۔ممبئی حملوں کے بعد امریکہ نے  2011 ء میں ساجد مجید کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ساجد مجید پر 21 اپریل  2011 کو امریکہ کی ضلعی عدالت، شمالی ضلع الینوئے، شکاگو میں فرد جرم عائد کی گئی۔ ان پر غیر ملکی حکومت کی املاک کو نقصان پہنچانے کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔ان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی مدد، امریکہ سے باہر ایک شہری کے قتل کے لیے معاونت اور عوامی مقامات پر بمباری کے جرائم کے تحت 22 اپریل 2011ء کو گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔اخبار ہندوستان ٹائمز نے انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ساجدمجید نے کئی انتہا پسندوں کو تربیت دی اور لشکرطیبہ کو کم از کم تین براعظموں تک پھیلایا۔ آسٹریلیا، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔انڈین اخبار نے فرانسیسی بحریہ کے سابق افسر وِلی بریگزٹ سے اداروں کی تفتیش کا بھی حوالہ دیا  جو بعد میں ’دہشت گرد‘ تنظیموں میں شامل ہو گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بریگزٹ نے انکشاف کیا ہے کہ مجید کے افغانستان میں القاعدہ سے بھی رابطے تھے اور لشکر کے سربراہ ذکی الرحمان تک ان کی براہ راست رسائی تھی۔رپورٹ میں انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ساجد مجیدنے اپریل  2005ء میں کرکٹ کے مداح کے طور پر انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ پھر ڈیرادون میں انڈین ملٹری اکیڈمی اور دلی میں نیشنل ڈیفنس کالج کی جاسوسی بھی کی۔

ان رپورٹس سے ساجد مجید تو ٹارزن اور جیمز بونڈ دکھائی دیتاہے۔ رپورٹس  میں ساجد مجید کی ذکی الرحمٰن تک رسائی کی بات کی گئی ہے۔بڑے لیڈروں کے مابین رابطے ہوتے ہیں۔معمولی اہلکار کے بڑے لیڈر کیساتھ تعلق کو رسائی کہا جاتا ہے۔جوکچھ بھارتی میڈیا اور امریکی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے اس سے تو ذکی الرحمان سے مجید بڑے لیڈر قرار پاتے ہیں۔لہذا یہ رپورٹس سچائی اور حقیقت کے معیار سے مبرا ہیں۔ اُدھر2022 ء میں 21 اپریل کو ساجد مجید کو گوجرانوالہ سے گرفتار کیا جاتا ہے  جون میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نےterکی مالی معاونت کے مقدمے میں انہیں ساڑھے 15 سال قیداور 4 لاکھ 20 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔ وہ اب کوٹ لکھپت جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔امریکہ کی طرف سے ساجد مجید کو عالمی دہشتگرد قرار دینے کیلئے سلامتی کونسل میں متعدد بار قرارداد پیش کی گئی جسے چین نے ہر بار ویٹو کردیا۔ آخری بار یہ قرارداد پچھلے ہفتے پیش اور ویٹو ہوئی جس پر امریکہ سے زیادہ بھارت تلملا رہا ہے(جاری ہے)