امرتسرمیںہارٹ آف ایشیا کانفرنس شروع،شہر خالصتان کے نعروں سے گونج اٹھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 04, 2016 | 07:55 صبح

امرتسر(مانیٹرنگ)بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا چھٹا وزارتی اجلاس شروع ہوگیا جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے کانفرنس کا مشترکہ طور پر افتتاح کیا۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کی جانب سے ٹوئیٹر پر جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماؤ

ں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز گزشتہ روز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے امرتسر پہنچے تھے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے امرتسر میں افغان صدر اشرف غنی سے علیحدہ ملاقات کی — فوٹو بشکریہ دفتر خارجہ

 

ہندوستان کے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا افتتاح کیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ہونے والے علیحدہ ملاقات بھی ایک گھنٹے تک جاری رہی جبکہ اس سے قبل نریندر مودی اور اشرف غنی نے مشترکہ طور پر گولڈن ٹیمپل کا بھی دورہ کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں اہم علاقائی امور زیر غور آئے۔

دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں نمٹنا ہوگا

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے خطاب میں افغانستان سے دوستانہ تعلقات کی بات کرتے رہے—

کانفرنس کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’ہمارا آج یہاں جمع ہونا افغانستان میں دیر پا امن اور سیاسی استحکام کے عزم کا اعادہ کرتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیلنجز بہت بڑے ہیں لیکن ہم ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

نریندر مودی نے کہا کہ دہشت گردی افغانستان اور خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے، ہمیں دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں نمٹنا ہوگا۔

ہمیں دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف سخت اور مشترکہ عزم کا اظہار کرنا ہوگا جو قتل و غارت اور خوف پھیلانے میں مصروف ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے بھارت، افغانستان اور ایران کے تعاون سے بننے والے چاہ بہار بندرگاہ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس سے افغانستان کو فائدہ پہنچے گا اور اس کی معیشت کو دنیا کے دیگر حصوں سے جوڑ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے تجارت کا فضائی روٹ بنانے کی خواہش ہے ، تجارت ایک ارب ڈالر تک بڑھائیں گے۔

واضح رہے کہ افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان معاشی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے،دہشتگردی، انتہاپسندی اور غربت جیسے مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے 2011 میں شروع ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کے اس سلسلے میں پاکستان، بھارت، افغانستان، آذربائیجان، چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

ڈیزاسٹر مینیجمنٹ، انسداد دہشت گردی، انسداد منشیات، تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی انفرااسٹرکچر اور تعلیم وہ 6 اہم پہلو ہیں جن پر یہ 14 ممالک 2013 سے پراعتماد اقدامات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس عمل میں 17مغربی ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کی حمایت بھی شامل ہے جو اپنے اعلیٰ نمائندگان اس کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ کرتے ہیں۔

پاکستان کی شرکت، برف پگھل پائے گی؟

بھارت سے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود پاکستانی حکومت کی جانب سے اس سال ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا اہم فیصلہ سامنے آیا، باوجود اس کے کہ نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کو نئی دہلی کی جانب سے سبوتاژ کیا گیاتھا۔

اس بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کیا دونوں ممالک اس کانفرنس کو دوطرفہ بات چیت کے لیے استعمال کریں گے جبکہ بھارتی وزیر برائے خارجہ امور کے ترجمان وکاس سواروپ کی جانب سے اس قسم کی کسی بھی گنجائش کو پہلے ہی رد کیا جاچکا ہے۔

وکاس سواروپ کا ایک پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ دہشت گردی کے جاری سلسلے میں مذاکرات نہیں ہوسکتے، بھارت دہشت گردی کو دو طرفہ تعلقات کا نیا معمول نہیں بننے دے گا۔

دوسری جانب بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھی بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ہماری پہلی توجہ افغانستان پر رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ بات چیت ہو یا نہ ہو مگر پاکستان نے افغانستان میں قیام امن، بہتری اور ترقی کے لیے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ مضبوط اور ترقی یافتہ افغانستان ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔