مسروی اور راحیل پاکستان کے محسن،ضیاءظالم اور ایک جرنیل مظلوم بھی گزراہے
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع نومبر 28, 2016 | 11:35 صبح
لاہور(فضل حسین اعوان)جنرل راحیل شریف نے جس طرح دہشتگردوں کا گھیراﺅکیا اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اس سے وہ قوم کے ہیرو اور محسن ٹھہرے۔میسروی بھی ایسے ہی پاکستانیوں کے ہیرو اور محسن تھے۔لیفٹیننٹ جنرل سر فرینک والٹر میسروی کو قائم مقام فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ نامزد کیا گیا۔ انھی کے دور میں 22 اکتوبر 1947 کو آپریشن گلمرگ شروع ہوا اور پاکستانی قبائلی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا سری نگر کے مضافات تک پہنچ گیا۔جنگِ کشمیر یکم جنوری 1949 کو ’جو جہاں ہے وہیں رک جائے‘ کے اصول کے تحت اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے تھمی۔ تاہم جنرل میسروی کی 35 سالہ فوجی ملازمت کی میعاد دس فروری 1948 کو دورانِ جنگ ہی ختم ہوگئی۔بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی گورنر جنرل ماونٹ بیٹن اور کمانڈر انچیف سر روب لاک ہارٹ جنرل میسروی سے خوش نہیں تھے کیونکہ میسروی نے انھیں قبائلیوں کی پیش قدمی کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا تھا۔جنرل میسروی کا موقف تھا کہ وہ ایسی رازدارانہ معلومات صرف پاکستانی گورنر جنرل اور حکومت کو دینے کے پابند ہیں۔جنرل راحیل شریف نے معاملات جہاں چھوڑے ہیں وہاں سے آگے لے جا کر اور ان کو حتمی انجام تک پہنچا کے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ قوم کے تیسرے محسن ہوسکتے ہیں۔جہاں پاکستان کے ایک مظلوم آرمی چیف جنرل گل حسن کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا۔”سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، آرمی چیف جنرل گل حسن کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ گل حسن کو جی ٹی روڈ کے ذریعے کار پر لاہور روانہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک اعلیٰ اجلاس میں شرکت کرنی ہے اور پیشکش کی گئی کہ گورنر اور ایک وزیر کے ساتھ لاہور چلے جائیں۔ یہ 3 مارچ 1972ء کا دن تھا، پنجاب کے گورنرغلام مصطفیٰ کھر تھے۔ کار میں یہ دونوں صاحبان جنرل کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹے تک گل حسن کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ جبری حراست میں ہیں۔ جب شک کا اظہار کیا تو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں نے انکی پسلیوں پر پسٹل رکھ دئیے۔ سی این سی کی کار جونہی پنڈی سے لاہور کی طرف روانہ ہوئی عین اس وقت وزیر خزانہ مبشر حسن کو لے کر ایک ہیلی کاپٹر اوکاڑہ کی طرف محوِ پرواز ہوگیا۔ اوکاڑہ سے جی او سی جنرل ٹکا خان کو ساتھ لیا اور جنرل گل حسن کے لاہور پہنچنے سے قبل ٹکا خان اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ ٹکا خان پر اپنی طلبی کا مقصد اس وقت واضح ہوا جب انکے کندھوں پر آرمی چیف کے کراﺅن لگائے جا رہے تھے۔ گل حسن لاہور پہنچے تو ٹکا خان فوج کا چارج سنبھال چکے تھے۔پاکستان کے ظالم ترین آرمی چیف کی بات کی جائے تو یہ اعزاز جنرل ضیاءالحق کے کم از کم آج تک حصے میں رہا ہے،انہوں نے خود کو اس اعلیٰ ترین منصب پر پہنچانے والے شخص ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا کے دم لیا۔