2018 ,جنوری 19
شہرہ آفاق جاسوسی کے تصوّراتی کردارشرلاک ہومزکی پہلی کہانی 1887 میں منظر عام پر آئی تو اسکے مصنف و خالق جاسوسی ناول نگار سر آرتھر کانن ڈائل کو برطانیہ سے باہر بھی پذیرائی حاصل ہوئی ۔شرلاک ہومز ان کی مہارت کا نمونہ تھا جس پر وہ جستجو اور تحقیق کے بعد پوری دلجمعی سے لکھا کرتے تھے لیکن شاید ہی اب کوئی جانتا ہوگا کہ سر آرتھرکانن ڈائل کی زندگی میں ایک ایسا پراسرار واقعہ رونما ہواتھا جس نے بعد میں انہیں جاسوسی ناول لکھنے سے روک دیا ۔وہ رائٹر سے مبلغ اور مقرر بن گئے۔اس واقعہ نے انکی زندگی ہی بدل دی ۔سر آرتھر نے بیان کیا تھا کہ دراصل ان کے ساتھ ہوا کیا تھا۔انہوں نے ایک ایسی کہانی لکھ ڈالی تھی جس میں ہیرو سے اس کی مردہ ماں کی ملاقات کرائی جاتی ہے ۔سر آرتھر کانن ڈائل کی شدید ترین خواہش یہ تھی کہ کبھی ایسا ہو کہ ان کا کوئی کردار حقیقیت بن کر ان کے سامنے بھی آجائے۔ ،پھر ان کی منشا پوری ہوگئی۔ایک روز یوں ہوا کہ انہوں نے اپنی مُردہ ماں کو دیکھا جو واقعی اس سے ملنے آئی تھی۔انہوں نے روح پر تحقیق شروع کردی لیکن ان کی زندگی میں ایک کسک باقی تھی کہ وہ اس علم کی گہرائی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔قدرت نے اسکا اہتمام یوں کیا کہ جنگ عظیم اوّل جب عروج پر تھی تو انکے تین بچوں کی موت واقع ہوگئی ،انہوں نے ایک رات اپنے تینوں بچوں کی روحوں کو اپنے اردگرد گھومتے دیکھا جس سے وہ یکسر تبدیل ہوگئے ۔اس واقعہ کے دوسال بعد انہوں نے ماورائی اور روحانی علوم پر لکھنا اور تقریریں کرنا شروع کردیں ۔ پھر انہوں نے اس کے بعد کوئی ناول نہیں لکھا اور بقیہ عمر جو بیس سال پر محیط تھی صرف روح اور موت پر تقریریں کرکے گزاردی۔