خوفناک کہانیوں کے شائقین کے لیے خاص تحفہ.....جنرل کی کھوپڑی میں کیا تھا؟؟

2019 ,ستمبر 9



 اس رات دھند اور کہر کی چادر لندن کی فضا میں اس قدر دبیز تھی کہ برقی قمقمے چراغوں کے مانند ٹمٹما رہے تھے۔ کاروں کی روشنیاں اتنی مدھم تھیں کہ ہر آن ان کے ٹکرانے کا خدشہ تھا‘ لیکن لندن کے ٹیکسی ڈرائیور اس موسم کے ہمیشہ سے عادی رہے ہیں اور ان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ میں گاڑی کی پچھلی نشست پر ٹھنڈ کے باعث سکڑا سکڑایا بیٹھا تھا۔ کھڑکی سے باہر سوائے مدھم روشنیوں کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دوسری گاڑیاں دائیں بائیں زن زن کرتی نکل رہی تھیں۔ صرف ان کے انجنوں کی آواز سے پتا چلتا تھا کہ زندگی حرکت میں ہے۔ خدا کی پناہ! کیسا خوفناک موسم تھا اور سردی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔
ایک دم بریکیں لگیں‘ ٹائر چیخے اور گاڑی رک گئی۔ میں نے دیکھا سامنے لندن کے مشہور و معروف کارڈینیل کلب کی شاندار عمارت ہے اور گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑی ہے۔ کلب کا باوردی ملازم دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے جھک کر ٹیکسی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ میں دو کوٹ پہننے کے باوجود ٹھنڈ سے بے حال ہوتا ہوا باہر نکلا‘ ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور کلب کے مودب ملازم کی رہنمائی میں چند قدم چل کر اندرونی ڈیوڑھی میں داخل ہوا۔ یہاں خاصی گرمی تھی۔
ایک دم جیسے جان میں جان آ گئی۔ فوراً ہی دوسرے ملازم نے جھک کر سلام کیا اور میرا اوورکوٹ اور ٹوپی تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ تیسرے آدمی نے مجھے کلب کے ہال میں پہنچا دیا۔ میرے قدموں تلے نہایت دبیز اور قیمتی قالین بچھا تھا۔ خاصا بڑا ہال تھا اور اس کی بے پناہ آرائش پر بے شمار رقم خرچ کی گئی تھی۔ فرنیچر‘ کراکری‘ پردے سبھی بیش قیمت تھے۔ ہال میں چاروں طرف برقی آتش دان روشن تھے۔ پانچ پانچ فٹ کا درمیانی فاصلہ دے کر انتہائی خوبصورت جدید طرز کی میزیں کرسیاں بچھائی گئی تھیں جن پر لندن کے شرفا‘ معزز خواتین و حضرات بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔
ملازم مجھے ایک گوشے میں لے گیا جہاں مخصوص میز کے پاس صرف دو کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک کرسی میں دھنس کر میں نے کوٹ کی اندرونی جیب سے چار انچ لمبا کاغذ کا ایک پرزہ نکالا اور اس پر نظر دوڑائی۔ صبح سے لے کر اب تک کوئی دس مرتبہ میں اس تار کی عبارت پڑھ چکا تھا:
”شب کے آٹھ بجے…. کارڈینیل کلب میں ملیے…. گورمین۔“
مسٹر گورمین حال ہی میں مومبلا ساسے واپس لندن تشریف لائے تھے۔ افریقہ میں برطانوی مقبوضہ نو آبادیوں میں مومبلا سا شاید سب سے بڑی نوآبادی تھی اور مسٹر گورمین…. بلکہ یوں کہیے کہ سرمائلز گورمین…. وہاں برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں آنجہانی جنرل رینڈلف لوسائی کے بہت پرانے اور بے تکلف دوست ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ آخرالذکر صاحب افریقہ میں تمام برطانوی نوآبادیوں کے نگرانِ اعلیٰ اور ہائی کمشنر وغیرہ بھی تھے۔ جنرل لوسائی کی موت دو ماہ قبل نہایت عجیب اور پراسرار حالات میں واقع ہوئی تھی۔ یہ حالات کیا تھے؟ ان کا علم کسی کو نہ ہو سکا۔ صرف اتنا پتا چلا کہ جنرل مرتے وقت بھی اپنی سرکاری ڈیوٹی نبھا رہا تھا۔ اچانک وہ مر گیا اور اس کی لاش لندن لاکر سینٹ جان کے قبرستان میں چپ چپاتے دفنا دی گئی۔
بعض برطانوی اخباروں نے کچھ ایسی سرخیاں لگائیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ جنرل لوسائی کی موت طبعی نہ تھی۔ کیا اسے قتل کیا گیا؟ یا کوئی اور حادثہ پیش آیا؟ اخباری رپورٹروں اور نامہ نگاروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھایا جا سکا۔ بڑی مصیبت یہ تھی کہ جنرل لوسائی کے دوست‘ رشتے دار اور خود حکومتی حلقے بھی پراسرار انداز میں مہر بہ لب تھے۔ اس سے ان شبہات کو مزید تقویت ملی کہ معاملہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔ ایک باوقار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے مجھے خود اس بارے میں خاصی تگ و دو کرنی پڑی‘ لیکن میری تمام محنت اکارت گئی۔ کچھ بھی پتا نہ چلا کہ آخر قصہ کیا تھا اور جنرل لوسائی کی ایکاایکی موت کے اسباب کیا تھے؟
بہرحال دو باتیں ایسی تھیں جن پر جس قدر بھی غور کیا جاتا‘ یہی چیز باربار سامنے آتی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ غضب خدا کا‘ پورے انگلستان میں چند مخصوص افراد کے سوا کسی کو بھی پتا نہ تھا کہ جنرل لوسائی جیسا اہم اور معروف آدمی موت سے ہم کنار کیسے ہوا؟ دوسری بات پہلی سے بھی زیادہ شک انگیز اور نرالی تھی۔ اس کی لاش ایک بند اور سربمہر تابوت میں لندن لائی گئی۔ ساتھ ہی حکومت کے متعلقہ حلقوں کی سخت ہدایات یہ تھیں کہ تابوت ہرگز نہ کھولا جائے گا اور لاش دیکھنے کی اجازت کسی کو نہیں۔ آخر کیوں؟ ان ہدایات پر پورا عمل کیا گیا اور جنرل کے رشتے داروں کو بھی آخری بار اس کا چہرہ نہ دکھایا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کی موت کیپ ٹائون کے ایک ہسپتال میں واقع ہوئی۔ ہسپتال کے دو تین ڈاکٹر ہی دنیا بھر میں وہ آخری افراد تھے جنہوں نے آنجہانی کا چہرہ دیکھنے کی سعادت حاصل کی تھی۔
رپورٹروں نے اپنے پیشے اور عادت سے مجبور ہو کر حالات کریدنے کی کوشش کی اور بعض الٹی سیدھی باتیں بھی اخباروں کے کالموں کی زینت بنیں‘ مگر گاڑی آگے نہ چل سکی۔ ویسے بھی کسی فرد کی موت اس کے رشتے داروں کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور اخلاقی طور پر یہ کچھ اچھا بھی نہیں لگتا کہ خواہ مخواہ کسی کا کفن نوچا جائے۔ اس کے علاوہ جنرل لوسائی کے رشتے داروں کو ابتدا میں خاصا پریشان کیا جا چکا تھا۔ وہ قسمیں کھا کر یقین دلا چکے تھے کہ انہیں جنرل کی پراسرار موت کے بارے میںکچھ معلوم نہیں‘ وہ تو بس حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
آخر اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا‘ لیکن میرے ذہن میں برابر یہ قصہ تازہ رہا۔ میں نے اسے ذہن سے جھٹک دینے کی بڑی کوشش کی‘ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کوئی نادیدہ قوت مجھے اکسا رہی ہے کہ اس کی تہ تک ضرور پہنچنا چاہیے‘ چنانچہ میں نے چپکے چپکے تفتیش جاری رکھی۔ اس تفتیش کے ذریعے پتا چلا کہ اپنی موت سے چند ماہ قبل جنرل لوسائی کار کے ایک حادثے میں شدید زخمی بھی ہوا تھا‘ مگر ڈاکٹروں کی کوشش کے باعث اس کے زخم ٹھیک ہو گئے اور وہ دوبارہ اپنے سرکاری فرائض انجام دینے کے قابل ہو گیا۔ لیکن حادثے کے ٹھیک آٹھ ماہ بعد جنرل مر گیا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان آٹھ ماہ کے دوران میں اگرچہ وہ جسمانی طور پر صحت مند رہا اور اپنا دفتری کام بخوبی کرتا رہا‘ مگر اس کی دماغی حالت درست نہ تھی…. اس پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے اور اسے دماغی امراض کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ اس ہسپتال میں وہ کچھ عرصہ رہا اور پھر ٹھیک ٹھاک ہو کر واپس اپنی ڈیوٹی پر آ گیا۔ ان تمام واقعات کی کڑیاں آپس میں نہیں ملتی تھیں‘ درمیان میں ایک یا دو کڑیاں غائب تھیں۔ سوال یہ تھا کہ کار کا وہ حادثہ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ جنرل کے زخم کہاں تک ٹھیک ہوئے؟ کیا اس کے دماغ پر چوٹ آئی تھی جس کے باعث وہ دماغی ابتری کا شکار ہوا؟ پھر پاگل خانے میں کتنے دن رہا اور علاج معالجے کے بعد ٹھیک بھی ہو گیا؟ جوں جوں میں ان معاملات پر غور کرتا‘ میری الجھنیں بڑھتی جاتیں۔
میں نے پھر دفترخارجہ کے چکر کاٹنے شروع کر دیے۔ ان لوگوں کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ شاید کسی گمشدہ کڑی کا سراغ مل جائے‘ مگر بے سود۔ ہر شخص جنرل لوسائی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا اور نفی میں گردن ہلا دیتا کہ مجھے کچھ خبر نہیں‘ ’اوپروالوں‘ سے پوچھو۔ ’اوپر والے‘ اول تو ملتے ہی نہیں تھے‘ طرح طرح کے بہانے کر کے ملاقات ہی سے معذوری کا اظہار کرتے‘ اگر کبھی مارے باندھے کوئی مل بھی لیتا‘ تو مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیتا کہ جائو اپنا کام کرو۔ تمہیں جنرل لوسائی کی موت سے کیا سروکار؟ بے چارے کی قضا آئی تھی‘ مر گیا۔ اس میں کسی کا کیا دوش۔
باقی رہا یہ قصہ کہ اس کی لاش سربمہر تابوت میں افریقہ سے کیوں لائی گئی اور کسی کو اس کا چہرہ دیکھنے کیوں نہ دیا گیا‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ افریقہ کی شدید گرمی کے باعث اس کی لاش گل سڑ گئی تھی اور تعفن کے مارے برا حال تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تابوت کھولنے کی اجازت نہ دی گئی وغیرہ وغیرہ۔
صاف ظاہر تھا کہ یہ ”اوپر والے“ کچھ نہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ادھر سے مایوس ہو کر میں نے جنوبی افریقہ کے اس ہسپتال کے ڈاکٹروں سے خط کتابت شروع کی جنہوں نے جنرل لوسائی کا علاج کیا تھا۔ وہاں سے پہلا اور آخری جواب ایک سطر پر مشتمل یہ آیا ”اس موضوع پر ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ براہِ کرم ہمیں معاف رکھا جائے ۔“
چلیے قصہ ختم۔ کوئی شخص بھی جسے کچھ معلوم تھا‘ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ڈرتا تھا۔ پھر مجھے سرمائلز گورمین کے بارے میں پتا چلا کہ جنرل لوسائی سے ان کا بڑا یارانہ رہا ہے اور جب اس کی موت واقع ہوئی‘ سرمائلز گورمین‘ جنرل کے آس پاس ہی تھے۔ میں نے موصوف کو کئی زوردار خط لکھے‘ مگر جواب ندارد۔ مجھے یقین ہو گیا کہ دنیا میں اگر کوئی شخص اس سربستہ راز سے پوری طرح واقف ہے‘ تو وہ صرف سرمائلز گورمین کی ذات ہے۔
خوش قسمتی سے انہی دنوں سرگورمین کے لندن آنے کی خبر اخبارات میں چھپی۔ میں نے فوراً ان کی سیکرٹری سے رابطہ قائم کر کے ملاقات کا وقت مانگا۔ اس حسین و جمیل عورت نے بڑے اخلاق سے وعدہ کیا کہ سر گورمین سے وقت لے کر مجھے ضرور مطلع کرے گی‘ لیکن وہ دن کبھی نہ آیا۔ جب بھی میں فون کرتا‘ وہ یہی کہتی کہ سرگورمین باہر گئے ہوئے ہیں‘ کچھ پتا نہیں کب واپس آئیں۔ میں ان سے وقت لینے کی کوشش کر رہی ہوں‘ آپ انتظار کیجیے‘ صبر سے کام لیجیے وغیرہ وغیرہ۔
کبھی یہ بہاناکہ موصوف کی طبیعت ناساز ہے‘ ڈاکٹروں نے ملنے جلنے سے منع کر رکھا ہے۔ ان باتوں اور ٹال مٹول نے میری آتش شوق کو اور بھڑکا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ مسٹرگورمین ملنا نہیں چاہتے اور پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں۔ آخر میں نے ایک خط انہیں لکھا کہ مجھے ساری کہانی کا علم ہو گیا ہے‘ صرف آپ کی تصدیق چاہتا ہوں۔ اگر آپ نے اپنا فریضہ ادا نہ کیا‘ تو میں یہ کہانی نتائج کی پروا کیے بغیر من و عن اپنے اخبار میں چھاپ دوں گا۔ یہ دراصل گہری چال تھی جو مجھے چلنی پڑی۔ خط بھیجنے کے تین روز بعد ہی مجھے سرگورمین کا وہ تار ملا جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔
اب میں کارڈینیل کلب کے پرسکون‘ گرم اور آرائش سے بھرپور ہال میں بیٹھا انہی حالات پر غور کر رہا تھا کہ دیکھیے مسٹرگورمین کیا داستان سناتے ہیں کہ یک دم میرے قریب کوئی کھڑا ہو گیا۔ یہ طویل قد اور مضبوط جسم کا ایک باوقار آدمی تھا جس کی بھوری مونچھیں بے حد شاندار اور پلی ہوئی تھیں۔ اس نے سیاہ رنگ کا بیش قیمت پہن رکھا تھا اور سیاہ جوتے اتنے چمکدار تھے کہ ان میں بلاشبہ اپنی صورت دیکھی جا سکتی تھی۔
میں ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ نووارد نے مسکرا کر سوالیہ انداز میں کہا:
”آپ ہی ایوننگ اسٹینڈرڈ کے مدیر ہیں؟“
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ”میرا نام مائلزگورمین ہے۔“
”تشریف رکھیے۔“ میں نے اس کے مصافحے اور مسکراہٹ میں خلوص کی گرمی محسوس کی۔ وہ میرے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھا اور گہری نظروں سے میرا جائزہ لینے لگا۔ وہ ان افراد میں سے تھا جو نہ خود جھوٹ بول سکتے ہیں نہ اپنے مخاطب کو غلط بیانی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ پھر اس نے سردآہ بھری اور نہ جانے کن خیالوں میں گم ہو گیا۔ میںچپ چاپ منتظر رہا کہ گفتگو کا آغاز وہ خود کرے گا۔
اتنے میں بیرا گرم گرم قہوہ لے کر آیا۔ سرگورمین نے چونک کر اسے دیکھا اور مسکرایا۔ پھر معذرت آمیز لہجے میں مجھ سے بولا ”معاف کیجیے‘ میں یہ سوچ رہا تھا کہ کہاں سے ابتدا کروں۔ مجھے بہرحال یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ ٹھیک آٹھ بجے یہاں آ گئے۔ میں نے طے کیا تھا کہ اگر آپ تاخیر سے آئیں گے‘ تو ملاقات سے انکار کر دوں گا۔ میں ایسے لوگوں کو اعتماد کے قابل نہیں سمجھتا جو وقت کے پابند نہ ہوں۔ فرمائیے‘ جنرل لوسائی کے بارے میں آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟ کون سی ایسی بات ہے جو آپ کو پریشان کیے ہوئے ہے؟“
”ان کی پراسرار موت۔“ میں نے سنجیدگی سے کہا ”موت سے پہلے کار کا ایک حادثہ…. پھر دماغی شفاخانے میں ان کا علاج…. اور اچانک موت…. میرا خیال ہے ان حالات پر آپ سے بہتر کوئی دوسرا روشنی نہیں ڈال سکتا۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں۔“
مختصر وقفے کے لیے سرگورمین کے چہرے اور آنکھوں میں گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔ پھر خود پر قابو پاکر اس نے قہوے کی دو پیالیاں بنائیں۔ ایک میرے آگے سرکا دی‘ دوسرے اپنے سامنے رکھ لی۔ جیب سے رومال نکال کر چہرے پر پھیرا اور پہلو بدل کر بولا:
”بے شک‘ میں جنرل لوسائی کی زندگی اور موت کے بارے میں ایسے حالات سے واقف ہوں جو دوسروں کے علم میں نہیں یا یوں کہیے کہ کم از کم انگلستان والوں کے علم میں تو بالکل نہیں۔ کیا آپ کو کیپ ٹائون سے کچھ نہیں بتایا گیا؟ وہاں کے دو تین ڈاکٹر بھی کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔“
”جی نہیں‘ اس معاملے میں سبھی گونگی کاگڑ کھائے بیٹھے تھے‘ کسی نے ایک لفظ بتا کر نہ دیا۔“ میں نے ہنس کر کہا ”اور یہی سبب تھا کہ اصل حالات جاننے کی خواہش بڑھتی گئی۔ ویسے بھی میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس قصے کو اپنی صحیح شکل میں عوام کے سامنے آنا چاہیے! ورنہ قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا دروازہ کھلا رہے گا۔ جنرل لوسائی جس اہم عہدے پر فائز تھے‘ اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان کی پراسرار موت کے اسباب بیان کر دینے چاہئیں۔“
گورمین کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے کہا:
”آپ اخبار والوں سے خدا بچائے‘ بال کی کھال نکال لیتے ہیں۔ بھلا یہ آپ حضرات نے کیسے فرض کر لیا کہ جنرل کی موت کے اسباب پراسرار ہیں؟ کیا کسی شخص کی لاش کا سربمہر تابوت میں لایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ موت پراسرار حالات میں واقع ہوئی؟“
”بے شک۔“ میں نے جلدی سے کہا ”ساتھ ساتھ سختی سے یہ ہدایت بھی تھی کہ کسی فرد کو‘ خواہ وہ جنرل لوسائی کا کتنا ہی قریبی عزیز ہو‘ اس کا چہرہ نہ دکھایا جائے۔ کیا یہ چیز ذہنوں میں شبہات پیدا نہیں کرتی؟“
گور مین نے اثبات میں گردن ہلائی اور قہوے کی چسکیاں لیتا رہا۔ پیالی ختم کرنے کے بعد وہ چند لمحے خالی خالی نگاہوں سے میز کو گھورتا رہا‘ پھر کھنکار کر گلا صاف کرنے کے بعد کہنے لگا ”آپ کا کہنا درست ہے جناب۔ ہم نے کوشش کی تھی کہ اس قصے کو دبا دینا ہی بہتر ہے‘ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ساری اسکیم میںکہیں نہ کہیں غلطی ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ اس وقت میرے سامنے موجود ہیں اور مجھے یہ لرزہ خیز داستان الف سے یے تک آپ کے گوش گزار کرنی پڑ رہی ہے۔ تاہم میں یہ درخواست کروں گا کہ اگر آپ اسے اپنے اخبار میں شائع نہ کریں‘ تو زیادہ بہتر ہے۔ یوں بھی واقعات اتنے حیران کن‘ عجیب اور دہشت انگیز ہیں کہ مشکل ہی سے ان پر یقین کیا جائے گا‘ لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے۔ میں آپ کو جنرل لوسائی کی زندگی کے آخری چند مہینوں کے واقعات مختصر انداز میں بتائوں گا۔“
سرمائلز گورمین کی آواز کپکپا رہی تھی اور اس کا چہرہ ازحد سنجیدہ ہو گیا۔ جوں جوں اس کی آواز میں لرزش بڑھی میرے دل کے دھڑکنے کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ شاید میں اس صدی کی سب سے حیرت انگیز اور ڈرائونی کہانی سننے والا تھا۔ اس کا اندازہ میں نے سرگورمین کی مضبوط شخصیت کو خوفزدہ ہوتے دیکھ کر گھایا تھا۔ اس نے خوشبودار سگار سلگایا اور ایک دو کش لینے کے بعد دھیمے‘ بھرائے لہجے میں بولنا شروع کیا:
”آج سے ٹھیک گیارہ ماہ قبل کی بات ہے۔ یہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تھی۔ سفارت خانے کے کسی جونیئر افسر کے ہاں عشائیہ تھا۔ جن لوگوں کو اس نے مدعو کیا‘ ان میں میرا اور جنرل لوسائی کا نام بھی شامل تھا۔ رات نہایت حسین تھی۔ کھانا بہت لذیذ اور مشروب بے حد نفیس تھا۔ پھر سبھی لوگ آپس میں بے تکلف تھے‘ خوب چہلیں ہوئیں‘ ہنسی مذاق بھی ہوا۔ گانے بجانے اور رقص کی محفل بھی گرم رہی۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں آدمی جی بھر کر حظ و مسرت کے خزانے لٹاتا ہے اور لوٹتا بھی ہے۔
”سورج نکلنے میں ابھی غالباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہو گا کہ ہم نے اپنے میزبان سے اجازت چاہی۔ اس نے بہت اصرار کیا کہ اس وقت کہاں جائیے گا‘ تھوڑی دیر میں صبح ہونے والی ہے‘ ناشتا کر کے روانہ ہو جائیے‘ مگر میں نے اس کی بات نہ مانی۔ دراصل جنرل لوسائی کی حالت خاصی ابتر تھی۔ وہ بلانوش تو پہلے ہی تھا‘ اس رات ظالم نے نہ جانے کتنی بوتلیں چڑھا لی تھیں۔ ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے تھے۔ پائوں رکھتا کہیں تھا‘ پڑتا کہیں تھا۔ میں نے اسے سنبھال رکھا تھا۔
”یوں بھی وہ جب زیادہ پی لیتا تھا‘ تو جسم کے ساتھ ساتھ اس کا دماغ بھی ’مائوف‘ ہو جاتا۔ پینے کے لیے اونچے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یہ جنرل لوسائی کو حاصل نہ تھا۔ تقریب میں سفارت خانے کے افسروں کی نوجوان اور حسین بیویاں بھی شریک تھیں۔ جنرل نے ان کی موجودگی اور آدابِ محفل کا لحاظ کیے بغیر بے ہودہ زبان استعمال کی تھی‘ لہٰذا یہ اور ضروری ہو گیا کہ میں اسے وہاں سے لے جائوں‘ چنانچہ ہم دونوں مکان سے باہر نکل کر گیراج کی طرف چلے جہاں میری اور جنرل کی کاریں کھڑی تھیں۔
”جنرل لوسائی مُصر تھا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے اور اپنی کار خود چلائے گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ خاصی دور جانا ہے۔ راستہ بھی خطرناک ہے‘ ویسے بھی اندھیرا ہے‘ شایدوہ گاڑی نہ سنبھال سکے‘ میں اسے اپنی کار میں لے چلتا ہوں۔ یہ سن کر وہ برافروختہ ہو گیا اور مجھے گالیاں دینے لگا۔ پھر اس نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ پوری طرح نشے میں ہے اور یقینا کسی کھڈ یا کھائی میں کار گرا دے گا‘ مگر جنرل کی ضدمشہور تھی اور وہ اس سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتا تھا۔ میں نے اس کے تعاقب میں اپنی گاڑی لگا دی۔ وہ مجھ سے کوئی ایک فرلانگ آگے جا رہا تھا۔ اس کی کار دائیں بائیں ہچکولے کھاتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔ بیس میل تک ہم اسی طرح چلتے رہے۔ راستہ سنسان اور ویران تھا اور ہم ایک جنگل کے اندر سے گزر رہے تھے۔ اس تمام راستے میں مجھے ایک بھی ذی روح دکھائی نہیں دیا۔
دفعتاً میں نے دیکھا کہ جنرل لوسائی کی کار سڑک سے اتر کر چھوٹے بڑے گڑھوں میں اچھلتی‘ لڑھکتی پوری قوت سے بھاگتی ایک بڑے درخت کے تنے سے ٹکرائی اور رک گئی۔“
”آہ! تو یہ تھا وہ حادثہ جس کا ذکر میں نے سنا۔ گویا اس کہانی کا یہ جزو صحیح نکلا“ میں نے کہا۔
”ہاں۔ یہ خاصا بھیانک حادثہ تھا۔“ گورمین نے سنجیدگی سے کہا ”میں نے رفتار تیز کی اور وہاں پہنچا۔ جنرل کی کار کا بونٹ اور انجن بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ ونڈاسکرین بھی ریزہ ریزہ تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر جنرل اسٹیرنگ وہیل تھامے جھکا بیٹھا تھا۔ اس کی پیشانی‘ دونوں رخسار‘ ناک‘ ٹھوڑی اور گردن سے خون میں لت پت تھی اور وہ بالکل بے ہوش تھا۔ پہلے مجھے خیال آیا کہ وہ مر چکا‘ لیکن ہاتھ لگانے سے پتا چلا کہ اس میں ابھی زندگی کی حرارت باقی ہے۔
کار کی بتیاں ابھی تک جل رہی تھیں۔ یہ بھی اچھا ہی ہوا‘ ورنہ اس گھپ اندھیرے میں بڑی مشکل ہوتی۔ میری کار جائے حادثہ سے کوئی نصف فرلانگ دور کھڑی تھی۔ میں نے جوں توں کر کے بڑی تگ و دو کے بعد بے ہوش جنرل کو نشست سے اٹھایا اور کمر پر لاد کر اپنی گاڑی تک پہنچایا۔ ہر لمحے مجھے یہ شبہ ہوتا کہ جنرل چل بسا‘ لیکن دل پر ہاتھ رکھنے سے پتا چلتا کہ ابھی دم باقی ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اسے کہاں کہاں چوٹ آئی تھی۔
”نزدیک ترین ہسپتال جائے حادثہ سے کوئی سو میل دور تھا۔ اب آپ میری پریشانی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیر‘ خدا کا نام لے کر میں چل پڑا۔ مگر اب خدشہ ستانے لگا کہ میری کار میں اتنے لمبے سفر کے لیے پٹرول بالکل نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ میں پچاس ساٹھ میل ہی جا سکتا تھا۔ ادھر جنرل کی حالت ہر لمحہ ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ خون اس کے زخموں سے برابر رس رہا تھا اور اب وہ زور زور سے سانس لے رہا تھا۔اتفاق سے میرے پاس تھرماس میں پانی کے دو ایک گھونٹ تھے۔ میں نے وہ پانی اس کے حلق میں ٹپکانے کی کوشش کی‘ مگر بے سود‘ جبڑا اس سختی سے بھنچا ہوا تھا کہ جیسے دوبارہ کبھی نہ کھلے گا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو پاکر سوچنے اور غور کرنے کا وقت نکالا۔
”یکایک خیال آیا کہ میں واپس اسی جونیئر افسر کے مکان تک تو جا سکتا ہوں جہاں ہماری دعوت تھی۔ اگر جنرل وہاں پہنچنے تک زندہ رہا‘ تو پھر اسے ہسپتال لے جانے کی تدبیر کی جائے گی۔ ممکن ہے جونیئر افسر کے گھر فالتو پٹرول موجود ہو یا مہمانوں میںسے کسی کی گاڑی کی ٹنکی پٹرول سے بھری مل جائے۔ قصہ مختصر واپس پہنچا۔ وہ لوگ جنرل کی حالت دیکھ کر ڈر گئے۔ معلوم ہوا اس گائوں کے قریب برطانوی حکومت نے مقامی باشندوں کے علاج معالجے کے لیے ایک چھوٹا سا ہسپتال کھول رکھا ہے۔ ہم فوراًوہاں پہنچ گئے۔
”یہ تین کمروں کا ہسپتال تھا۔ ایک کمرے میں صرف تین بستر بچھے تھے۔ ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود مل گیا۔ ڈاکٹر نے جنرل کا معاینہ کیا اور اطمینان دلایا کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی‘ معمولی زخم ہیں۔ ڈاکٹر نے پھر ان زخموں کی مرہم پٹی کر دی۔ اس دوران میں جنرل برابر بے ہوش رہا۔ اسے ہوش میں لانے کی ہر تدبیر ناکام ثابت ہوئی۔ بہرحال اسے وہیں ہسپتال میں چھوڑا اور میں واپس اپنے مکان پر آن کر سو گیا۔ نیند اور تھکن کے باعث میرا برا حال تھا۔
اگلے روز دوپہر کو آنکھ کھلی‘ تو ایک سرکاری کام سے مجھے فوراً کئی سو میل دور جانا پڑا۔ یہ روانگی اس قدر عجلت میں ہوئی کہ میں اپنے زخمی اور بے ہوش دوست جنرل لوسائی کی خیر خبر بھی معلوم نہ کر سکا۔ جمعے کے روز میں واپس سفارت خانے میں آیا اور آپ میری ازحد حیرت کا تصور کر سکتے ہیں جب میں نے جنرل لوسائی کو وہاں موجود پایا۔ وہ اپنے دفتر میں ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھا انہماک سے کام میں مصروف تھا۔ مجھے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا کہ یہ وہی آدمی ہے جسے میں چند روز پیشتر موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار ایک ہسپتال کے کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔ اگر اس کے سر اور گردن پر سفید سفید پٹیاں نہ بندھی ہوتیں‘ تو میں یہی سمجھتا کہ جنرل لوسائی کا ہم شکل کوئی اور آدمی ہے جو اس کی نشست پر بیٹھا کام کر رہا ہے۔
”’خدا کی پناہ‘ جنرل…. اب کیا حال ہے؟ تمہیں چند روز آرام کرنا چاہیے تھا۔‘ میں نے کہا۔
”اس نے نگاہ اٹھا کر مجھے دیکھا‘ مسکرایا اور کمزور آواز میں بولا:
”’اب میں بہتر ہوں۔ معمولی زخم تھے‘ ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کام زیادہ تھا‘ میں نے سوچا کہ اسے نمٹا ہی دوں۔‘ میں اس کی فرض شناسی کا پہلے ہی قائل تھا‘ اب اور ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ مزید دو روز اسی ہسپتال میں دن رات بے ہوش پڑا رہا۔ ایک ثانیے کے لیے بھی اسے ہوش نہ آیا۔ تیسرے دن خودبخود اس نے آنکھیں کھول دیں اور ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ اب اپنی حالت خاصی اچھی محسوس کر رہا ہے‘ چنانچہ ڈاکٹر نے چند ضروری ہدایات کے بعد اسے ہسپتال سے رخصت کر دیا۔
”دن گزرتے گئے۔ جو تھوڑی بہت جسمانی کمزوری خون بہ جانے سے ہو گئی تھی‘ وہ بھی دور ہو گئی۔ زخم بھر گئے اور جنرل کی گردن اور سر سے پٹیاں کھول دی گئیں۔ بظاہر جنرل لوسائی بالکل صحت مند تھا۔ وہ باقاعدگی سے دفتر آتا‘ مقررہ اوقات میں دل چسپی اور تن دہی سے اپنے سرکاری فرائض سرانجام دیتا اور گھر چلا جاتا۔“
گورمین نے نیا سگار سلگایا‘ چند لمحے چھت کی طرف گھورتا رہا‘ پھر دوبارہ بیان شروع کر دیا:
”ہم سب سمجھ رہے تھے کہ جنرل اب ٹھیک ٹھاک ہے‘ لیکن ابھی اس حادثے کو تین ہفتے ہی بیتے تھے کہ ایک روز جنرل کے کمرے سے چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ چیخیں اتنی بھیانک تھیں کہ دفتر کے سبھی ملازم لرز گئے۔ بھاگم بھاگ جنرل کے کمرے میں پہنچے‘ تو ایک عجب تماشا نظر آیا۔ بے چارہ جنرل دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے‘ کٹے بکرے کے مانند کمرے کے فرش پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اذیت کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا‘ آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑ رہی تھیں اور ہونٹوں کے کنارے سفید جھاگ ابھر رہا تھا۔
”بڑی مشکل سے اتنا پتا چل سکا کہ بائیں آنکھ کے اوپر‘ کنپٹی کے آس پاس اتنا شدید درد ہو رہا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنرل بے ہوش ہو گیا۔ جلدی سے سفارت خانے کا ڈاکٹر طلب کیا گیا۔ اس نے جنرل کا بغور معاینہ کیا اور بتایا کہ بظاہر کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی‘ ممکن ہے اعصابی تکلیف ہو۔ بہرحال اس نے انجکشن لگا دیا اور کوئی دوا بھی جنرل کے حلق میں ناک کے راستے نلکی ڈال کر ٹپکائی۔ اس کا جبڑا تکلیف کی وجہ سے پھر بھنچ گیا تھا اور کوشش کے باوجود کھولا نہ جا سکا۔
”دو دن‘ دو راتیں جنرل بے ہوش پڑا رہا۔ تیسرے روز اسے خودبخود ہوش آ گیا۔ اب اسے کوئی تکلیف نہ تھی۔ بائیں کنپٹی کے پاس اٹھنے والا درد بھی غائب تھا۔ جنرل اپنے آپ کو پرسکون محسوس کر رہا تھا۔ اس نے بعد میں بتایا کہ بیٹھے بیٹھے دم درد اٹھا اور ناقابل برداشت ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت اس کی رگوں اور شریانوں کو تیزدھار نشتر سے کاٹتی چلی جا رہی ہے۔
”ایک ہفتہ گزر گیا۔ جنرل ٹھیک ٹھاک اپنی ڈیوٹی پر آتا رہا اور کام کرتا رہا۔ دسویں روز پھر اس کے چیخنے کی آوازیں سفارت خانے کی عمارت میں گونجنے لگیں۔ ایک بار پھر ہم سب نے وہی مہیب نظارہ دیکھا۔ جنرل فرش پر پڑا بری طرح ڈکرا رہا تھا‘ تڑپ رہا تھا۔ اس مرتبہ اس نے اپنا سر دیوار پر کئی بار دے مارا۔ آخر وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر سراسیمگی پھیل گئی۔ فوراً ڈاکٹر دوڑا ہوا آیا‘ پھر وہی انجکشن اور وہی علاج معالجہ۔
”حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جنرل کو ہوش میں لانے کی ہرممکن تدبیر ناکارہ ہو جاتی تھی۔ بعض لوگوں نے دبی زبان سے جادو ٹونے کا ذکر کیا۔ افریقہ کے اس علاقے میں مقامی ساحروں اور جادوگروں کی کمی نہ تھی جو اپنے حریفوں اور دشمنوں کو سحر کے ذریعے بیمار کرتے یا ہلاک کر دیتے تھے۔ لیکن جنرل لوسائی کی کسی شخص سے ایسی دشمنی نہ تھی کہ اسے اس کو ہلاک کرانے کے لیے جادوگروں کی خدمات حاصل کرنا پڑتیں۔ معاملہ روزبروز پراسرار ہوتا جا رہا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
”بہرحال شبہ مٹانے کے لیے ایک دوجادوگروں کو بھی طلب کیا گیا۔ انہوںنے طرح طرح کے شعبدے دکھائے اور بعد میں بتایا کہ جنرل پر کسی نے جادو نہیںکیا‘ یہ کوئی اور ہی مرض ہے۔ ادھر ہسپتال کے انگریز تجربے کار ڈاکٹروں کی بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ چکر کیا ہے۔ وہ لوگ اپنی سی کوشش کرتے رہے‘ لیکن خود انہیں اپنی ناکامی کا قدم قدم پر احساس ہو رہا تھا۔ جنرل کی جسمانی حالت روزبروز کمزور ہو رہی تھی۔ سردرد کے یہ ناقابل برداشت دورے مسلسل پڑنے لگے۔ آخر اسے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق مکان ہی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔
”دفتر آتا‘ تو اس کی چیخیں سن کر ہی دوسرے لوگ دہل جاتے اور کوئی شخص دل جمعی سے اپنا کام کرنے کے قابل نہ رہتا۔ ہم لوگ‘ جو جنرل کے دوست تھے‘ اس کی یہ ابتر حالت اور اذیت دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے‘ لیکن کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنرل کے دماغ کو اندرونی طور پر کوئی صدمہ پہنچا تھا اور بے پناہ سردرد کی وجہ یہی ہے۔ ایک ڈاکٹر کی رائے تھی کہ دماغ کے بعض خلیے بے کار ہو چکے ہیں اور ان کے اندر خون جم گیا ہے۔ کسی نامعلوم سبب سے اس خون میں جراثیم پیدا ہو گئے اور جب وہ حرکت کرتے ہیں‘ تو جنرل تکلیف سے تڑپتا اور آخر بے ہوش ہو جاتا ہے۔
”میں روزانہ جنرل کی عیادت کے لیے اس کے مکان پر جاتا۔ یہ جان کر مجھے سخت صدمہ پہنچتا کہ میرا دوست بہت جلد موت کے منہ میں جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کا وزن تیزی سے گھٹ رہاتھا جیسے کوئی ان دیکھی طاقت اس کا خون چوس رہی ہو۔ اب وہ ہڈیوں کاایک بے حس و حرکت ڈھانچہ دکھائی دینے لگا۔ درد کی ناقابل برداشت اذیت سے نجات پانے کے لیے ڈاکٹروں نے اسے مارفیا اور اسی قبیل کی مسکن‘ نشہ آور اور سلا دینے والی دوائیں دینی شروع کر دی تھیں۔ بعد میں یہ طے پایا کہ اسے کیپ ٹائون کے بڑے ہسپتال میں منتقل کر دیا جائے….“
”دماغی امراض کے ہسپتال میں؟“ میں نے دریافت کیا۔
سرگورمین نے نفی میں گردن ہلائی اور کہا ”نہیں‘ یہ آگے چل کر ہوا۔ فی الحال یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کیپ ٹائون کے ہسپتال میں‘ جنرل لوسائی کے دماغ کا آپریشن کیا جائے تاکہ مرض کی اصل نوعیت کا سراغ لگایا جا سکے۔ یہ بڑا نازک اور خطرناک آپریشن تھا جس کے لیے ایک تجربے کار اور خاص سرجن کو مقرر کیا گیا۔ ہسپتال میں چند روز تک جنرل پر مختلف قسم کے تجربے کیے جو ایسے آپریشنوں کے لیے ضروری ہیں۔ اس امید میں بعض نئی دوائیں بھی اسے استعمال کرائی گئیں کہ شاید درد جاتا رہے اور کھوپڑی کھولنے کی نوبت نہ آئے‘ لیکن ساری تدبیریں بے کار ثابت ہوئیں۔ آخر آپریشن کا مرحلہ آ ہی گیا۔ اس کے سوا ڈاکٹروں کے پاس چارہ بھی کیا تھا؟
میں نے خصوصی اجازت لی تاکہ آپریشن تھیٹر میں داخل ہو کر مشاہدہ کر سکوں۔ عام حالات میں غیر متعلقہ شخص کو ایسے نازک اور اہم آپریشنوں کے وقت آپریشن تھیٹر میں گھسنے کی اجازت نہیں ہوتی‘ لیکن جنرل سے میرے خصوصی اور قریبی مراسم کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیں اجازت دینی ہی پڑی۔ تھیٹر کے ساتھ ہی شیشے کے ایک الگ چیمبر میں انہوں نے میرے لیے کرسی ڈال دی۔ وہاں بیٹھ کر میں ساری کارروائی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ حد درجہ مضبوط اعصاب کے باوجود اس روز میرے دل کی دھڑکنوں میں کچھ زیادہ اضافہ ہو گیا تھا اور میں باربار اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھنے پر مجبور تھا۔ کچھ ایسا احساس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی انوکھی بات معلوم کرنے والا ہوں۔
چند لمحوں میں میرے دوست کو پہیوں والی کرسی پر بٹھا کر آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔ خدا رحم کرے! اس کی حالت میں حیرت انگیز تغیر رونما ہو گیا تھا۔ میں پہلی نظر میں اسے پہچان ہی نہ سکا کہ یہی وہ شخص ہے جو اپنی صحت کے اعتبار سے پورے سفارت خانے میں ممتاز و نمایاں تھا‘ جس کے قہقہے رات کے سناٹوں میں دوردور تک سنے جاتے تھے۔ ایک قوی ہیکل‘ صحت مند اور مجسم زندگی سے بھرپور جنرل لوسائی کے بجائے اس کرسی پر میں نے ایک مریل‘ بجھے ہوئے اور زندگی سے بیزار بڈھے کو دیکھا جو تحیرآمیز نظروں سے اس لمبی سی سفید میز پر نگاہ جمائے ہوئے تھا جس پر چند لمحے بعد لیٹ کر اسے آپریشن کے کڑے مراحل سے گزرنا تھا۔ ایسا آپریشن جو اسے نئی زندگی بخش سکتا تھا اور موت کے اتھاہ اندھیروں میں بھی دھکیلنے پر قادر تھا۔
ڈاکٹروں کی ہدایت پر ایک حجام نے اس کا سر اچھی طرح مونڈ دیا تھا۔ اب آپریشن تھیٹر کی تیز روشنیوں میں جنرل لوسائی کی کھوپڑی اس انڈے کی مانند چمک رہی تھی جسے دھوپ میں رکھ دیا گیا ہو۔ جب اسے کرسی سے اٹھا کر آپریشن ٹیبل پر لٹایا گیا اور سرجن نے کھوپڑی پر آنکھوں سے کوئی پانچ انچ اوپر چیرنے کے لیے نشان لگا کر ایک چمک دار پتلی سی آری اٹھائی تو دہشت سے کانپ کر میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ مجھ میں یہ ہولناک خونیں منظر دیکھنے کی ہمت تھی نہ حوصلہ۔ اس دوران ڈاکٹروں نے جنرل کو کلوروفارم سونگھا کر بے ہوش کر دیا۔ چند منٹ بعد میں نے انگلیوں کی جھری میں سے دیکھا‘ تو معلوم ہوا کہ سرجن آپریشن شروع کر چکا ہے۔ جنرل کی کھوپڑی کا خون آلود اور کٹا ہوا حصہ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔“
سرگورمین نے دونوں ہاتھوں سے یکایک اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ غالباً وہ منظر اس کے ذہن میں اپنی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ تازہ ہو گیا تھا۔ میں دم بخود اپنی نشست پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا‘ مگر اس کی حالت دیکھ کر کچھ کہنے کی جراءت نہ ہوئی۔ گورمین نے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھیں‘ پانی کا گلاس حلق سے اتارا اور ایک غم انگیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا:
”معاف کیجیے‘ میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر میں مرتے دم تک فراموش نہ کر پائوں گا۔ آپ میری جگہ ہوتے‘ تو شاید یہی کیفیت آپ کی ہوتی جو اس وقت میری ہے۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ ہیبت ناک آپریشن شروع ہوا اور کامل ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ سرجن نے انگلی کے اشارے سے مجھے قریب بلایا۔ میں اپنے چیمبر سے نکل کر آپریشن ٹیبل کے پاس جا کھڑا ہوا۔ سرجن نے مجھے بتایا کہ جنرل کا دماغ بالکل صحیح حالت میں ہے اور کسی قسم کی خرابی کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ہر چیز نارمل حالت میں ہے اور دماغ کو کسی نوع کا کوئی صدمہ بھی نہیں پہنچا ہے۔
”سرجن ابھی مجھ سے دبے لہجے میں یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ آپریشن تھیٹر کی فضا میں ایک چیخ گونجی۔ یہ چیخ اس نرس کے حلق سے برآمد ہوئی تھی جو آپریشن میں مدد دینے کے لیے وہاں حاضر تھی۔ سب آنکھیں ایک دم اس نرس پر مرکوز ہو گئیں جس کا رنگ دھلے ہوئے کپڑے کے مانند سفید پڑ گیا تھا۔ ہونٹ کانپ رہے تھے۔ پھر اس نے ہاتھ سے جنرل لوسائی کے خون سے لتھڑے ہوئے سر کی طرف اشارہ کر کے سحرزدہ لہجے میں کہا:
”ادھر…. وہاں…. میں نے کسی کو حرکت کرتے دیکھا ہے…. کوئی چیز تھی…. زندہ….“
بجلی کی مانند سرجن‘ جنرل لوسائی کی طرف لپکا اور ادھرادھر دیکھنے لگا‘ پھر اس نے ہاتھ بڑھایا اور کوئی چیز اٹھائی‘ جو خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔ میں نے حیرت اور خوف سے دیکھا‘ اس کی انگلیوں میں کوئی جاندار دبا ہوا تھا جس کی نصف انچ لمبی کئی ٹانگیں تھیں اور وہ سب تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر غور سے دیکھا اور رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ خدا کی پناہ…. یہ تو چھ ٹانگوں والی چھوٹی سی ایک مکڑی تھی۔ اس کی ٹانگوں پر باریک باریک بال بھی تھے۔ اور وہ سرجن کی انگلیوں میں دبی ہوئی بری طرح ٹانگیں چلا رہی تھیں۔“
”مکڑی؟“ میں چلا اٹھا ”جنرل لوسائی کی کھوپڑی میں مکڑی؟“
”ہاں۔“ سرگورمین نے اثبات میں گردن ہلا کر جواب دیا ”قیاس کچھ ایسا تھا کہ جب کار کا حادثہ ہوا اور میں جنرل لوسائی کو لے کر اس افریقی گائوں کے چھوٹے ہسپتال میں چھوڑ کر آیا‘ تو یہ مکڑی بے ہوش جنرل کے قریب آئی۔ اس وقت یا تو یہ اس بستر پر پہلے سے موجود ہو گی یا چھت پر سے گری ہو گی۔ بہرحال یہ کسی طرح جنرل کے چہرے پر رینگ گئی‘ پھر اس نے جنرل کے نتھنوں کا رُخ کیا۔ بایاں نتھنا اسے گرم لگا اور وہ اندر چلی گئی۔ جنرل کو پتا بھی نہ چلا کہ ایک ننھا سا جاندار اس کی ناک کے راستے دماغ کی جانب بڑھ رہا ہے…. وہ تو بے ہوش پڑا تھا۔ بعد میں جب اسے سردرد کے دورے پڑنے لگے‘ تو اس کی وجہ بھی یہی منحوس مکڑی تھی جو اس کا دماغ چاٹتی آگے بڑھ رہی تھی….“
”خدا کی پناہ!“ میں نے دہشت سے تھرا کر کہا ”واقعی یہ اذیت تو ناقابل برداشت ہو گی۔“
”بلاشبہ یہ جنرل کا حوصلہ تھا کہ برداشت کر گیا۔“ سرگورمین نے کہا ”بہرحال مکڑی نکل گئی۔ آپریشن کامیاب رہا‘ چند روز جنرل لوسائی ہسپتال میں رہا۔ اب اس کا سردرد جاتا رہا تھا اور تیزی سے اس کی گم شدہ صحت واپس آ رہی تھی۔ ہم سب خوش تھے۔ چند ماہ کے اندراندر وہ پوری طرح ٹھیک ہو گیا۔ اگرچہ ابھی کسی قدر جسمانی نقاہت محسوس ہوتی تھی‘ لیکن وہ بضد تھا کہ اسے دفتر جانے اور اپنی مصروفیات میں ڈوب جانے کی اجازت دے دی جائے‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جس روز وہ طویل غیرحاضری کے بعد دفتر آیا‘ تو پورے عملے نے خوشی کااظہار کیا اور جنرل کو نئی زندگی پانے پر مبارک باد دی۔“
”کیا اسے بتادیا گیا تھا کہ آپریشن کے بعد اس کے دماغ میں سے زندہ مکڑی برآمد ہوئی ہے؟ میں نے پوچھا۔
”نہیں نہیں‘ ڈاکٹروں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ جنرل کو یہ بات ہرگز معلوم نہ ہو‘ ورنہ اس کے ذہن اور اعصاب اس خبر سے متاثر ہو سکتے ہیں‘ ویسے بھی یہ بات اسے بتانا مناسب نہ تھی‘ چنانچہ ایسا کوئی ذکر اس کے سامنے نہ آیا۔ میرے اور دو تین ڈاکٹروں یااس نرس کے علاوہ مکڑی کا راز کسی اور کو معلوم بھی نہ تھا‘ بہرحال دن گزرنے لگے۔ جنرل روزبروز کھوئی ہوئی توانائی حاصل کرتا گیا۔
ایک دن جبکہ سفارت خانے میں سب لوگ خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے‘ جنرل لوسائی کے کمرے سے ہولناک چیخوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ پہلے تو سب سکتے میں آ گئے کہ شاید ان کے کان بج رہے ہیں‘ لیکن جب یہ آوازیں تیز ہو گئیں‘ تو اٹھ کر جنرل کے کمرے کی طرف دوڑے۔ ایک بار پھر سب نے دیکھا کہ بدنصیب آدمی فرش پر پڑا تڑپ رہا ہے۔ وہی درد دوبارہ لوٹ آیا تھا اور اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ تکلیف تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل کی بینائی اچانک غائب ہو گئی اور اس کے ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ وہ قطعی پاگل ہو چکا تھا۔“
”اُف۔“ میں نے کہا ”غالباً کوئی اور مکڑی اس کے دماغ میں رہ گئی ہو گی۔“
”نہیں صاحب! کوئی اور مکڑی اس کے دماغ میں نہیں تھی۔“
”پھر‘ خدا کے واسطے جلد بتائیے سرگورمین کہ آخر کیا تھا؟“ میں نے مضطرب ہو کر پوچھا۔
اس نے میرا سوال نظرانداز کر کے اپنی کہانی جاری رکھی:
”جیسا کہ میں نے کہا جنرل لوسائی پاگل ہو چکا تھا۔ ایک بار پھر اسے اسی ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی کھوپڑی کا آپریشن کیا تھا۔ اتنی جلد دوسرا آپریشن کرنا ممکن نہ تھا اور یوں بھی محض اس شبہے پر کہ کوئی اور مکڑی دماغ میں نہ ہو‘ آپریشن نہیںکیا جا سکتاتھا یا جب تک یقین نہ ہو جاتا ۔ دوسری طرف جنرل لوسائی کو مکان میں قیدرکھنا محال تھا۔ لہٰذا اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا۔ پہلے پہل میں روزانہ اسے دیکھنے جاتا‘ مگر بعد میں جانا چھوڑ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھ ہی نہ سکتا تھا کہ اس سے ملاقات کرنے کون آیا ہے۔ دوسرے اس کی دماغی حالت بے حد ابتر تھی۔ اگر وہ دیکھنے کے قابل ہوتا تب بھی کسی کو پہچان نہیں سکتا تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر وہ بتاشے کی طرح گھل گیا اور ایسا نظر آنے لگا کہ چند روز کا مہمان ہے۔
ایک دن وہی سرجن اسے دیکھنے پاگل خانے گیا جس نے اس کا پہلی بار آپریشن کیا تھا۔ وہاں اس نے جنرل کا اچھی طرح معاینہ کرنے کے بعد یہ رائے ظاہر کی کہ مریض بلا شک و شبہ موت کی سرحد پر پہنچ چکا ہے اور اس میں زندگی کے آثار مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم تجربے کے لیے ایک اور آپریشن کرنا غیرمناسب نہ ہو گا۔ ممکن ہے قدرت مدد دے۔ سب نے اس رائے پر غور کیا اور فیصلہ ہوا کہ جنرل کا دوسرا دماغی آپریشن ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ایک تاریخ مقرر کر دی گئی۔ اس روز پھر جنرل لوسائی کو پہیوں والی کرسی پر بٹھا کر اسی آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔ ایک پھر میں نے اپنے آپ کو اسی چیمبر میں بیٹھے پایا۔
آپریشن کا نازک مرحلہ شروع ہوا۔ تھیٹر میں موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ ڈاکٹراور نرسیں یوں حرکت کر رہے تھے جیسے قبرستان میں سفید کفن لپیٹے ہوئے مردے چل پھر رہے ہوں۔ میرا دوست آپریشن ٹیبل پر بے ہوش پڑا تھا۔ اس کی کھوپڑی کھولی جا چکی تھی۔ دفعتاً میں نے چیخوں کی آوازیں سنیں‘ میں چیمبر سے نکلا اور میز کے قریب پہنچا۔ سب ڈاکٹر پرے ہٹ کر کھڑے تھے اور دبی دبی چیخیں انہی کے منہ سے نکل رہی تھیں۔ میں نے آگے جھک کر جنرل کی لہولہان کھوپڑی کو دیکھا اور میں بھی بری طرح چیخنے لگا۔“
”کیا دیکھا آپ نے سرگورمین؟“ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”مت پوچھو کیا دیکھا۔ خدایا….“ وہ ہانپ کر بولا ”کیا مرتے دم تک میں وہ تماشا بھول سکوں گا؟ نہیں کبھی نہیں…. جنرل لوسائی کے دماغ ننھی ننھی سی بے شمار مکڑیاں رینگ رہی تھیں…. ان کی جسامت چھوٹی سیاہ گھریلو چیونٹیوں کے برابر ہو گی…. اُف کیسا مکروہ نظارہ تھا…. ہم میں سے کسی کو جرا ¿ت نہ تھی کہ آگے بڑھے اور ان منحوس کیڑوں کو وہاں سے ہٹا دے…. جنرل لوسائی بے ہوش پڑا تھا…. چند لمحے بعد پتا چلا کہ وہ مر چکا ہے۔“
میں اور گورمین دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ آخر میں نے جرا ¿ ¿ت کر کے پوچھ ہی لیا:
”سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنی ساری مکڑیاں جنرل کی ناک میں سے ہو کر دماغ میں کیونکر پہنچ گئیں؟“
”یہ بات نہیں تھی۔“ اس نے آہستہ سے کہا ”بلکہ یہ سارا فساد اس پہلی مکڑی کا پھیلایا ہوا تھا۔ وہ مادہ تھی اور اس نسل کی مکڑیوں میں سے ایک جو ہر تین ماہ بعد انڈے دیا کرتی ہیں۔ جن دنوں وہ جنرل کی ناک میں داخل ہوئی‘ وہ اس کے انڈے دینے کا زمانہ تھا‘ چنانچہ جنرل کے دماغ سے بہتر اور محفوظ جگہ اسے کوئی اور نہ ملی جہاں اس کے انڈوں سے بچے بن گئے۔ انہیں حسب خواہش گرمی بھی نصیب ہو گئی جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھی…. جب تک یہ بچے حرکت کرنے کے قابل نہ تھے‘ جنرل ٹھیک ٹھاک رہا لیکن جونہی ان کی ٹانگوں میں حرکت پیدا ہوئی‘ سردرد لوٹ آیا…. اور چونکہ یہ تمام مکڑیاں آنکھوں کے علاقے میں گھوم رہی تھیں‘ اس لیے جنرل کی بینائی جاتی رہی۔“
٭٭
اگلے روز میں سینٹ جان کے قبرستان میں جنرل لوسائی کی قبر پر کھڑا تھا۔ میں نے تصور کی آنکھوں سے جنرل کی مسخ شدہ لاش تابوت کے اندر پڑی دیکھی اور اس خیال سے میرا جسم کانپ اٹھا کہ مرنے والے نے کیسے بھیانک اور تکلیف دہ تجربے سے گزر کر موت کا ذائقہ چکھا۔ یکایک میں نے پتلون کے اندر پنڈلی کے آس پاس ایک چبھن اور سرسراہٹ سی محسوس کی‘ جیسے کوئی کیڑا رینگ رہا ہو۔
پتلون کا پائنچہ اُلٹ کر میں نے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ یہ بھورے رنگ کی چھ ٹانگوں والی ایک ننھی سی مکڑی تھی جو قبر کی مٹی سے نکل کر نہ جانے کس وقت میری پتلون کے اندر چڑھ گئی تھی۔ میں نے دیوانوں کی طرح اسے یوں جھٹکا جیسے وہ مکڑی نہیں‘ کوئی زہریلا سانپ ہے۔ ننھی مکڑی مٹی پر گر کر ایک ثانیے کے لیے رکی‘ پھر تیزی سے چلتی ہوئی لمبی گھاس میں گم ہو گئی۔ میں نے آئو دیکھا نہ تائو فوراً وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ مجھے پتا چل چکا تھا کہ جنرل کی کھوپڑی میں کیا تھا !!!

متعلقہ خبریں