2019 ,ستمبر 26
لاہور (سید اسامہ) اُنیسویں صدی کے امریکی ناول نگاروں میں ہر مین میلوائل ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ وہ یکم اگست ۱۸۱۹ء کو نیو یارک میں پیدا ہوا۔ ۱۸۹۱ء میں میلوائل اس عالمِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اُستاد بن گیا‘ لیکن یہ کام اُسے پسند نہ آیا اور جلد ہی اُس نے ایک بحری جہاز پر ملازمت کر لی۔ ’’موبی ڈِک‘‘ اور ’’بِلی بڈ‘‘ اس کی دو شاہکار تحریریں ہیں جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔ اُس کی پہلی کتاب ’ٹاپئی‘ تھی جس میں اس نے بحرِاوقیانوس میں اپنے مختلف سفروں کی رُوداد بیان کی تھی۔ اِس کے بعد اُس نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے ’’موبی ڈک‘‘ کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ ’’بِلّی بڈ‘‘ میلوائل کی آخری تصنیف ہے جو اُس کی وفات کے تیس سال بعد منظرِ عام پر آئی۔ اصل میں اس کا مسوّدہ ایک ایسے صندوق میں تھا جو ایک مدت تک بند پڑا رہا۔
بِلّی بڈ ایک کہانی ہے ‘ لیکن عام کہانیوں سے یکسر مختلف۔ بلی بڈ ایک ایسی داستان ہے جس کے بے شمار پہلو ہیں۔ ہر بار جب انسان اسے پڑھتا ہے‘تو ایک نیا لطف محسوس کرتا ہے اور اس پر نئے نئے مطالب واضح ہوتے ہیں۔ اِس کہانی میں تاریخ ہے‘ معاشرت ہے‘ فلسفہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں نیکی اور بدی کی ازلی اور ابدی کش مکش کو بیان کیا گیا ہے۔بِلّی نیکی کا مظہر ہے‘ تو کلیگرٹ بدی کا۔ بِلّی نیک نفس ہے ‘ خوش اخلاق‘ محنتی اور پُر خلوص ہے۔ اس کے برعکس کلیگرٹ ظالم ‘ متشدد ‘کینہ پرور اور جھوٹا ہے۔ بِلّی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا‘ لیکن وہ صرف اس لیے اُس کا مخالف ہے کہ بلی میں اُسے نیکی مجسّم بن کر دکھائی دیتی ہے۔ بدی ‘ نیکی کے ہاتھوں ایک ہی معرکے میں ختم ہو جاتی ہے۔ کپتان دیر جو اتنا عالم وفاضل ہے اور جو خود بھی محسوس کرتا ہے کہ بلی بے گنا ہ ہے‘ وقتی مصلحتوں کی بنا پر اُسے موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ لیکن نیکی صفحہ ہستی سے نہیں مٹ سکتی‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں جنم لیتی رہے گی۔ کپتان دیر جو اتنا پڑھا لکھا تھا‘ گمنامی کی مَوت مرتا ہے‘ صرف اس لیے کہ اس نے وقتی مصلحتوں کو نیکی پر فوقیت دی۔
بلی بھی دوسرے ملاحوں کی طرح کانوں میں سونے کے آویزے پہنا کرتا اور گلے میں ایک بڑا سا رنگین رومال جس کے دونوں کنارے اس کے سینے پر دائیں بائیں لٹکتے رہتے۔ وہ بھورے بالوں اور خوبصورت ناک نقشے والا ایک قدآور نوجوان تھا۔ اس کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت اور شگفتگی اور آنکھوں میں بھولپن تھا۔ جس کی عمر بائیس سال تھی اور جو اٹھارویں صدی کے آخر میں ایک محنتی‘ دیانتدار اور جفاکش ملاح تھا۔ وہ سر تاپا خوبصورتی اور طاقت کا مجسمہ تھا۔ وہ بہت مخلص اور جرأت مند تھا اور اس کے ساتھی اپنے مطالبات افسرانِ بالا تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ اسے منتخب کر تے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ یہ فر ض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتا تھا ۔ طوفان کے دوران وہ بندر کی سی پھرتی سے سیڑھیوں‘ بادبانوں اور مستولوں کی دیکھ بھال کرتا۔ کبھی کسی رسّے کی مرّمت کر رہا ہے‘ تو کبھی بادبانوں کو گرانے میں مصروف ہے۔ کام میں لگن اور دوستوں سے خلوص کی وجہ سے اُسے ہر جگہ محبت اور تعریف کی نظروں سے دیکھا جاتا۔ یہ تھی ہمارے نوجوان بِلّی بڈ کی ایک ہلکی سی جھلک‘ وہ جہاز کے اگلے حصّے میں مستول کے قریب ایک جُھکے ہوئے عرشے پر کام کرتا تھا۔
بحریہ کی زبان میں یہاں کام کرنے والوں کو ’’فور ٹاپ مین‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ۱۷۹۷ء کا ذکر ہے جب دنیا میں سیاسی بیداری کی ایک لہر دوڑرہی تھی۔ فرانس کے خونیں انقلاب کے اثرات ہر جگہ پہنچ چکے تھے‘ چنانچہ انگلستان کے بعض جنگی جہازوں پر ملاّحوں نے کھلم کھلا اپنے افسروں کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ان چھوٹی چھوٹی بغاوتوں کو جلد ہی ختم کر دیا گیا‘ تاہم ان کے نتیجے میں برطانوی بحریہ کے قوانین پر نئے سرے سے غور کیا گیا اور کسی حد تک ملاحوں اور دوسرے چھوٹے ملازمین کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔
ان دنوں بِلی ایک تجارتی جہاز پر ملازم تھا جو انگلستان سے روانہ ہو کر کھلے سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ جنگ کی وجہ سے مستعد اور تجربہ کار ملاحوں کی بہت ضرورت تھی اور اکثر عملے کی کمی کی وجہ سے زبردستی ملاح بھرتی کیے جاتے تھے۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ بھی ایک ایسا ہی جنگی جہاز تھا‘ چنانچہ لیفٹنٹ ریٹ کلف کی سرکردگی میں سپاہیوں کا ا یک دستہ اس تجارتی جہاز پر بھی آیا جہاں بِلّی کام کر رہا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ چند نوجوان ملاحوں کو منتخب کیا جائے تاکہ وہ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ پر کام کر سکیں۔ تجارتی جہاز کا سارا عملہ لیفٹنٹ کے سامنے لایا گیا۔ جونہی اس کی نظر بلی پر پڑی‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منتخب کر لیا۔ بلی خاموشی سے اپنی جگہ کھڑاتھا۔ اس نے اپنے انتخاب پر ذرا بھی احتجاج نہ کیا تھا۔ ویسے احتجاج تھا بھی بے سود‘ بھلا نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا۔ برطانوی بحریہ کے سامنے تجارتی جہاز کے ایک معمولی ملاح کی حیثیت ہی کیا تھی…لیفٹنٹ نے بلی کی خاموشی کو رضامندی پر محمول کیا تھا اور بہت خوش تھا۔ غالباً یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی قید کا حکم خاموشی سے سنا تھا‘ ورنہ وہ جہاں کہیں بھی جبری بھرتی کے لیے جاتا‘ ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ۔ ملاح چیخ چیخ کر اُسے گالیاں دیتے اور ان میں سے جس کو چُنا جاتا‘ وہ ٹس سے مَس نہ ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر سپاہی تشدد پر اُتر آتے اور بکتے جھکتے ہوئے ملّاح کو زبردستی کشتی میں سوار کر لیا جاتا۔
تجارتی جہاز کا کپتان اپنے کمرے میں افسردہ مغموم بیٹھا تھا۔
بقیہ کہانی اگلے حصے میں ملاحضہ کیجئے