ایسا ناول نگار جس کی موت کے کئی سال بعد ناول منظر عام پر آیا اور ہالی ووڈ فلموں کی زینت بن گیا مگر کیسے؟۔۔۔۔ تفصیلات جانئے اس خبر میں

2019 ,ستمبر 26



تجارتی جہاز کا کپتان اپنے کمرے میں افسردہ مغموم بیٹھا تھا۔ اس کا جسم فربہ اور عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ وہ ساری عمر بپھرے ہوئے طوفانوں اور ناموافق ہوائوں سے مقابلہ کرتا رہا تھا۔ ’’انڈومی ٹیبل‘‘ کا لیفٹنٹ اس کے کمرے میں داخل ہوا‘ تو اس نے ٹھہری ہوئی گمبھیر آواز میں کہا
’’لیفٹنٹ ! تم نے جس نوجوان کو منتخب کیا ہے‘ وہ میرے عملے کا بہترین کارکن ہے۔‘‘


لیفٹنٹ ریڈ کلف نے آہستہ آہستہ اپنا گلاس خالی کیا اور مسکراتے ہوئے بولا:
’’میں جانتا ہوں… اور مجھے اس بات کا افسوس بھی ہے۔‘‘

’’تم کچھ نہیں جانتے… میں تمہیں بتاتا ہوں وہ نوجوان کیا ہے۔ اُس کے آنے سے پہلے میرے جہاز کے ملاح ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ میں اُن کے جھگڑوں کو نمٹاتے نمٹاتے تنگ آچکا تھا،  یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں شیطان کی روح سما گئی ہے۔ پھر بلی آگیا اور یہاں اطمینان اور سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس میں ایسی کون سی طاقت تھی جس نے اکھڑ مزاج ملاحوں کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ اس نے کبھی کسی کو ڈانٹا نہیں‘ کبھی کسی کو نصیحت نہیں کی‘ اس کے باوجود ہر شخص اس کا احترام کرتا ہے‘ اس کی بات مانتا ہے اور اس کے لیے ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ لوگ اس پروانہ وار فدا ہیں۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ جھگڑالو ملّاحوں کا سردار تھا‘ لیکن بلی کے آتے ہی لوگوں نے اُس کی بات ماننے سے انکار کر دیا، وہ سب بِلّی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے، بِلّی کا سلوک اس سے بھی دوستانہ تھا۔اصل میں بلی کو لڑائی جھگڑے سے نفرت ہے‘ وہ تو صلح کا پیامبر ہے‘ مگر اُس سرخ بالوں والے سردار کی سمجھ میں یہ بات نہ آسکی اور ایک روز اس نے مشتعل ہو کر بِلّی کے پیٹ میں ایک گھونسا مارا۔

لیفٹنٹ ‘ تم میری بات پر یقین نہیں کرو گے‘ بالکل اسی طرح جیسے میری آنکھوں نے اس منظر پر یقین نہیں کیا تھا جسے وہ خود دیکھ رہی تھیں، سُرخ بالوں والا ہٹا کٹا اور گرانڈیل تھا۔ وہ ایک چھٹا ہوا بدمعاش تھا اور لڑائی کے دائوں پیچ سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس کے مقابلے میں بِلّی ایک نوخیز جوان تھا‘ مگر جب بِلّی کا ہاتھ اپنی جگہ سے ہلا‘ تو صرف نصف منٹ میں سُرخ بالوں والا فرش پر چاروں شانے چِت پڑا تھا۔ چند لمحوں میں بِلّی نے اُسے اِس بُری طرح مارا تھا کہ باوجود کوشش کے وہ کھڑا نہ ہو سکا۔ اب وہ بِلّی سے محبت کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے وہ دوسرے بیسیوں ملاح اُسے عزیز جانتے ہیں۔ وہ سب اس کے دوست ہیں۔ وہ اصرار سے اس کے کپڑے دھوتے ہیں‘ اس کے جُوتے چمکاتے ہیں اور ان میں سے ایک نے اسے لکڑ ی کا بڑا ہی خوبصورت صندوق تیار کر کے تحفتہً پیش کیا ہے… لیفٹنٹ‘ اگر یہ نوجوان چلا گیا‘ تو مجھے یقین ہے کہ میرے جہاز پر پھر وہی ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔ میرا دن کا سکون اور راتوں کی نیند حرام ہو جائے گی اور میں کبھی مطمئن ہو کر کھانا نہیں کھا سکوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا کپتان تقریباً رو پڑا۔
لیفٹنٹ ایک بار پھر مسکرایا اور گلاس میز پر رکھتے ہوئے بولا
’’فکر مت کرو میرے دوست‘ بادشاہ سلامت تم پر فخر کریں گے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو آج کل ملاحوں کی کس قدر کمی ہے اور تجارتی جہازوں کے کپتان اپنے ملاح دوسرے جہازوں کو دیتے وقت کتنا غم کھاتے ہیں۔ جب بادشاہ سلامت کو معلوم ہو گا کہ ایک کپتان نے خوشی خوشی اپنا بہترین ملّاح بحریہ کے حوالے کر دیا‘تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔‘‘
بِلّی لکڑی کا ایک صندوق اٹھائے کمرے میں داخل ہوا۔
’’ لڑکے‘ تم یہ بکس لے کر ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے۔‘‘ لیفٹنٹ اپنی مخصوص آواز میں بولا۔ ’’اپنی چیزیں کسی بیگ میں رکھ لو‘ سامان کے لیے ہر شخص کو جہاز پر موجود لکڑی کی خالی پیٹیاں ملتی ہیں۔‘‘
سامان تھیلے میں رکھنے کے بعد بِلّی‘ سپاہیوں کے ساتھ کشتی میں اُتر گیا۔ تجارتی جہاز کا سارا عملہ افسردگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بِلّی نے اپنی ٹوپی اتاری اور کشتی میں کھڑے ہو کر بلند آواز میں بولا:
’’الوداع میرے دوستو…الوداع۔‘‘
پھر اس کی نظریں ان پر سے گز ر کر جہاز کے اونچے مستول پر جا پڑیں۔


’’الوداع… الوداع۔‘‘
’’نیچے بیٹھ جائو۔‘‘ لیفٹنٹ تحکمانہ لہجے میں بولا۔
اور بِلّی مسکرا کر بیٹھ گیا۔

بقیہ کہانی اگلے حصے میں ملاحضہ کیجئے

 

متعلقہ خبریں