2022 ,مارچ 2
از قلم: سمعیہ جنجوعہ۔۔۔۔۔۔۔ قارئین کرام بالخصوص آج کی نوجوان نسل کے لیے پچیسواں گھنٹہ کے نام سے کامیابی کا کرشماتی فارمولہ حاضر خدمت ہے۔ پچیسواں گھنٹہ کے نام سے علیم شاہ خلجی کی اِس نادر ویڈیو نے جہاں کئی نوجوانوں کے منتشر خیالات کو بڑے سلیقے سے یکجا کیا مُمکن ہے اِسی طرح قارئین کرام کی بھی بکھری اور منجمد سوچوں میں ولولہ پیدا کرنے والی ہے۔ پچیسواں گھنٹہ کے نام سے منسوب ویڈیو اُن نوجوانوں کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوگی جو خودی اور وقت کو کارآمد بنانا چاہتے ہیں۔ جو اِقبال کے شاہین کی عملی تصویر بننے کے خواہاں ہیں۔ پچیسواں گھنٹہ جہاں ذہنوں پر لگے زنگ آلود کھولے گا وہیں اہلِ فکر کی زندگی مثبت انداز میں بدلے گا۔ قارئین کرام کی درست سمت کا تعین کرنے والا پچیسواں گھنٹہ مایوسی میں گھرے نوجوانوں کے لیے اُمید کی اُجلی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کرام کے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا ہوگا کہ پچیسواں گھنٹہ کیا ہے؟ یہ کب ایجاد ہُوا؟ اِس کا پس منظر کیا ہے؟ اِن تمام سوالات کا جواب حاضر خدمت ہے۔ پچیسواں گھنٹہ اِنسان خود تخلیق کر سکتا ہے مگر شرط اِنسان کا صاحبِ بصیرت ہونا ہے۔ پچیسواں گھنٹہ سے مُراد ہے کہ صبح تا شام کے درمیان کچھ لحمے اور اوقات کار اِنسان کے پاس ایسے ہوتے ہیں جب وہ اپنے معمول کے کاموں سے فارغ ہوتا ہے اور اُس دوران اُس کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، اِن فارغ اوقات کار سے اگر اِنسان چاہے تو فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ سفر میں ہیں تو آپ اِس دوران موبائل فون کا استمال کرتے ہوئے کوئی سا بھی معلوماتی لیکچرر سن سکتے ہیں یا پھر اگر طالبِ علم ہیں اور کلاس روم میں فارغ بیٹھے ہوئے ہیں اِس فارغ وقت میں آپ نصاب سے ہٹ کر کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ پچیسواں گھنٹہ مضمون اگر علیم شاہ خلجی کی زندگی کی کایا پلٹ سکتا ہے تو یقین ہے کہ یہ آپکی زندگی کی کایا پلٹنے والا ہے لیکن اولین شرط ہے آپ کے اندر بصیرت کی رمق باقی ہو۔ علیم شاہ خلجی 2003 میں جس اکیڈمی میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے اُسی اکیڈمی میں بطور چپڑاسی بھی اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ جب روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہو جاتے تو پرنسپل کے دفتر میں بیٹھ جاتے۔ اِس دوران اُنکے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ جب اِنسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو وقت بہت مشکل سے گزرتا ہے ایک گھنٹہ دو گھنٹوں کے برابر لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا خیال بھی اللّٰہ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ تخیلات سے ہی تعمیرات کا آغاز ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ علیم شاہ خلجی کے ساتھ پیش آیا۔ علیم شاہ جب فارغ اوقات کار میں پرنسپل دفتر میں بیٹھا کرتے تو ایک دن خیال آیا کہ اخبار میں یقیناً کچھ خاص ہوتا ہے جو پرنسپل صاحب روز اِسکا مطالعہ کرتے ہیں۔ اگر یہ خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو پرنسپل روز اِسکا مطالعہ نہ کرتے۔ اِسی خیال سے انکے کامیاب سفر کا آغاز ہوا۔ یہاں سے ہی انکے ارتقاء کا عمل شروع ہوا۔ وہ بھی روز اخبار کا مطالعہ کرنے لگے۔ کچھہ دنوں بعد اُسی اخبار میں انہوں نے پچیسواں گھنٹہ کے نام سے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا کالم پڑھا۔ یہاں سے اِن کے عروج کا آغاز ہوا اور یہی پچیسواں گھنٹہ زندگی کی کایا پلٹنے کا موجب ٹھہرا۔ محترم علیم شاہ روز پچیسواں گھنٹے پر عمل کرنے میں محو ہو گئے اور قُدرت کی رضا شاملِ مدد رہی۔ جب اللہ کسی بندے کو عطا کرتا ہے تو وسیلہ بھی بناتا ہے اور ساتھ وسائل بھی مہیا کرتا ہے۔ ایسا ہی محترم علیم کے ساتھ پیش آیا۔ اخبار کا مطالعہ اُن کا معمول بنتا گیا اور ساتھ ہی وہ پرنسپل دفتر میں موجود کھڑکی کی چٹکنی کھولتے اور اپنی کرسی کھڑکی کے ساتھ رکھتے اور قریبی کلاس میں گرائمر پر مبنی انگریزی کا دیا جانے والا لیکچرر شوق سے سننے لگے۔ چنانچہ قُدرت علیم شاہ پر مہربان ہوتی چلی گئی اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ انگریزی میں طاق ہوتے گئے۔انگریزی میں طاق ہونا اُن کے اُس روز کام آیا جب وہی اُستانی چھٹی پر تھی جِس کا لیکچرر وہ روز سنا کرتے تھے۔ کلاس میں بچوں کا شور ہر طرف سنائی دے رہا تھا جیسا کہ عموماً سکول میں ہوتا ہے۔ اُسی کلاس کے بچے پرنسپل دفتر میں آئے اور علیم شاہ سے پرنسپل کے بابت استفسار کیا، علیم شاہ نے کہا کہ پرنسپل چھٹی پر ہیں لیکن آپ مجھے پوچھنے کی وجہ بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟ بچوں نے کہا کہ ہماری ٹیچر چھٹی پر ہیں اور کلاس بہت شور کر رہی ہے کوئی خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بچوں نے مزید پوچھا کہ کیا ہم چھٹی کر لیں؟ بچوں کا چھٹی کے بابت پوچھنا تھا کہ علیم شاہ کے ذہن میں گھنٹی بجی اگر چھٹی کر دی جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا بچوں کا ایک ایک سیکنڈ بہت قیمتی ہے اور یہی بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ اِسی خیال کے تحت علیم شاہ اٹھے، اُسی کلاس کا رُخ کیا اور کچھ دیر بعد کلاس میں طلبہ کو باقاعدہ لیکچر دینے کا آغاز کیا۔ جیسے ہی لیکچر کا آغاز کرتے ہیں پیچھے سے نت نئی آوازیں سنائی دی جانے لگی، چپڑاسی اور انگریزی کا لیکچر دے۔ کسی بچے نے کہا کہ یہ چپڑاسی ہمیں پڑھائے گا۔ کسی نے جوش و جذبے سے کہا کہ چلو اِس کی بھی سنتے ہیں۔ ایسے جملے اپنے اندر نیم کے پتوں سی کڑوہٹ رکھتے ہیں۔ اگر اِنسان پہلے قدم پر ان کی کڑواہٹ سہہ گیا تو اس کی جیت اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ برداشت ہی کامیابی کے در وا کرتی ہے۔ چنانچہ علیم شاہ نے برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اپنا لیکچر جاری رکھا۔ ایسے میں کچھ دیر بعد جیسے ہی علیم شاہ نے پیچھے مڑ کر تو تمام کلاس خاموشی اور دِل جمی سے لیکچر سن رہی تھی۔ کچھ دیر بعد کلاس کا وقت ختم ہوتا ہے اور علیم شاہ کلاس کو خدا حافظ کہتے ہوئے کلاس روم سے دفتر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ اگلے روز کا منظر یکسر مختلف تھا۔ جیسے ہی علیم شاہ نے دفتر میں قدم رکھا پرنسپل نے اِنکی پیشانی پر بوسہ دیا اور شاباش دی کہا کہ بیٹے جِس کلاس میں کل آپ نے لیکچر دیا تھا آج سے اُسی کلاس میں گرائمر کا لیکچرر آپ دیا کریں گے کیوں کہ یہ بچوں کا اصرار ہے۔ مجھ تک ساری بات پہنچا دی گئی ہے۔ قارئین کرام یہ تھا پچیسواں