پاکستان میں انسانی لائبریری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 21, 2021 | 18:39 شام

پاکستان میں اب تک نہ تو کوئی باقائدہ انسانی لائبریری(Human Library) موجود ہے اور نہ اس کا تصور پایا جاتا ہے۔مگر یہ لائبریریاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ضرور ہیں۔
ہیومن لائبریری ایک نیا تصورہے جو اب اتنا نیا بھی نہیں رہا تاہم یہ منفرد نظریہ ضرور ہے جس انفرادیت بدستور موجود ہے۔ اس لائبریری میں کتابوں کی جگہ انسان ہوتے ہیں جو الگ الگ موضوعات پر اپنی کہانیاں اور تجربے بیان کرتے ہیں۔ ہیومن لائبریری کا

تصوراور قیام 2000 میں ڈنمارک میں شروع ہوا تھا۔اس کے بعد پچاس ممالک تک پھیل گیا ۔ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔پاکستان میں تو ابھی تک ایک بھی باقائدہ انسانی لائبریری قائم نہیں ہوئی تاہم بھارت کے کئی شہرون میں ایسی لائبریریاں بن چکی ہیں اور کامیابی سے چل رہی ہیں۔
انسانی لائبریری میں اس کے نام کی طرح کتابوں بجائے انسان ہوتے ہیں۔ڈنماک میں جہاں ایسی لائبریری کا پہلا تجربہ کیا گیا وہاں ایسے لوگوں کا لایا گیا جو زندگی کے مختلف تجربات سے گزر چکے تھے۔ کوئی مہاجر ہوسکتا ہے،کوئی کسی بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے اس سے بچ نکلا ہوتا ہے۔کسی کو کسی بھی قسم کی ہراسمنٹ کا سمنا کرنا پڑا ہوگا۔کسی نے زندگی کے میدان میں کوئی معرکہ آرائی کی ہوگی۔کوئی پائلٹ ہوسکتا ہے کوئی ڈاکٹر اور کوئی فوجی ہوسکتا ہے۔اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر اس لائبریری میں موجود ہوتے ہیں۔ڈنمارک میں لوگ اس لائبریری میں جاتے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے بُک یعنی انسانی بک کا انتخاب کرتے۔ایک انسانی بُک یعنی انسانی کا ایک سے زیادہ لوگ بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔یہ ان کے تیس منٹ میں اپنا متعلقہ اور مطلوبہ فیلڈ میں تجربات بتاتے۔یہ ابتدا میں 30 منٹ کا سیشن تھا۔جس سے ایک تو ایسی لائبریری بنانے والوں کا بزنس چل پڑا۔دوسرے جو لوگ اپنے تجربات بتانے جاتے ان کا روزگار لگ گیا۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے تجربات شیئر کرنے کا معاوضہ نہیں لیتے وہ اسے کارِ خیر سمجھتے ہیں۔تیسرا یہ جو لوگ ان لائبریریوں کا رُخ کرتے ہیں ان کو ایسے تجربات دنیا میں کہیں سے نہیں مل سکتے۔
شروع میں ہم نے کہا کہ پاکستان میں ایسی باقائدہ لائبریری کا تصور ہے اور نہیں کوئی باقائدہ لائبریری موجود ہے۔ ہمارا زور باقائدہ پر ہے۔اس کا مطلب ہے بے قائدہ ایسی لائبریریاں موجود ہیں۔جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ہمارے ہاں بڑے بڑے ہوٹلوں اور اداروں میں سیمینار ہوتے ہیں۔وہاں بڑی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کس نے کس موضوع پر بات کرنی ہے،وہ اپنے موضوع سے دلچسپی پر فتگو کرنے والوں کو سننے جاتے ہیں۔دیہات میں آج بھی ایسی محفلیں سجتی ہیں جہاں بزرگوں سے قصے کہانیاں اور ان کی زندگی کی روداد بڑے انہماک اور دلچسپی سے سنی جاتی ہے۔
سمجھنے کیلئے جہاں ایک بھارتی لائبریری کی انتظامیہ کے ایک اہلکار کی گفتگو کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔”ہم نے کلاس میں بچوں کو ہراساں کیے جانے، خواتین کے سوالات، بیماریوں سے لڑنے کے بارے میں، ماحولیات کو بچانے اور تاریخ کو محفوظ کرنے جیسے سوالات پر گیارہ انسانی کتابیں تیار کی ہیں۔ یہ انسانی کتابیں وہ باتیں بتاتی ہیں جو کسی جگہ نہیں پڑھائی جاتیں۔لائبریری میں ایک میز کے گرد کئی ریڈر یا پڑھنے والے بیٹھ جاتے ہیں۔ کتاب کی جگہ ایک انسان بیٹھا ہوتا ہے جو اپنا موضوع بہترین انداز میں کہانیوں کے طرز پر بیان کرتا ہے۔ کئی بار ریڈرز سوال بھی کرتے ہیں۔ عموماً ایک سیشن بیس منٹ کا ہوتا ہے۔لائبریری آنے والے لوگ اس نئے تصور سے کافی خوش ہیں۔یہ ون ٹو ون تجربہ ہے، ذاتی تجربہ ہے۔ ایک کتاب آپ سے بات کر رہی ہے۔ ایک ایسی کتاب جس نے ان واقعات کا خود سامنا کیا ہے۔بھارت کے شہروں دہلی،ممبئی،کولکتہ کے بعد میسور میں بھی ایسی لائبریریاں بن چکی ہیں۔پاکستان میں بھی ا ایسی لائبریریوں کے قیام کی بڑی گنجائش ہے۔دیکھیں جہاں کب اور کون پہلی اینٹ رکھتا ہے۔ہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ انسانی لائبریری کی کتاب کبھی پرانی نہیں ہوتی۔اس کے ریڈر بدلتے رہتے ہیں۔