بھوک مداری کو لگتی ہے تو ناچتا ہے بندر

تحریر: مہرماہ

| شائع جون 29, 2022 | 19:40 شام

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بھوک مداری کو لگتی ہے، ناچنا بندر کو پڑتا ہے۔ کچھ یہی حال ہماری اشرافیہ کا ہے۔ مشکل فیصلے کے نام پر عوام کش اقدامات یہ اٹھاتے ہیں۔ مشکل کا سامناعام لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جن کی لاٹری نکلی اور وہ جیل کے راستے سےلوٹتے ہوئے، وزیر اعظم ہاوَس پہنچ گئے۔ مہنگائی کا طوفانِ بلا خیز اٹھا جس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کر دیا۔
 مہنگائی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بطن سے جنم لیا۔ اجالے بکھیرنے کے دعویداروں نے ملک اور مل

ک کے باسیوں کو اپنے عظیم تجربے کے باعث تاریکیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا۔ سپر ٹیکس لگا کر حکمران بتا رہے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ بڑی سے بری انڈسٹری کے مالک نے جو بھی ٹیکس دیتا ہے اس نے کس سے پورا کرنا ہے۔
 دکاندار20روپے کا انڈا خرید کر پندرہ روپے کا نہیں بیچتا۔ امیر اپنے اوپر لگنے والا اضافی ٹیکس بھی مصنوعات کی قمیت بڑھا کر پوری کرے گا۔ حکمران کس کو بیوقوف بناتے ہیں۔ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والے مہنگائی کا عذاب مسلط کر کے عوام کی کمر توڑ رہے ہیں۔