حسین حقانی کے میاں نواز شریف پر انوکھے احسان کا انکشاف ہو گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 28, 2017 | 16:39 شام

کراچی (ویب ڈیسک) ‘‘یہ ان دنوں کی بات ہے جب حسین حقانی مختلف تجربات کے بعد واپس کراچی پہنچ چکے تھے، الطاف حسین کی جگہ لینے کے لیے بے تاب تھے اور وقت گزاری کے لیے کالم لکھا کرتے تھے۔ اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا تو اس ذہین آدمی نے پندرہ بیس کالم جمع کر کے ایک کتاب شائع کر دی،’’بیسویں صدی میں الٹے پاؤںً

حسین حقانی نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا لیکن میاں نواز شریف کے مشیر کی حیثیت سے وزارت کے مزے ا ٹھائے۔ میاں صاحب وزیر اعظم بنے تو انہیں سفارت کار بنا دیا بے نظیر بھٹو اورحزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے یک جا ہوجانے پر میاں صاحب کی حکومت مشکل سے دوچار ہوئی تو حسین حقانی پہلے شخص تھے جنھوں نے سفارت سے مستعفی ہو کر میاں صاحب کا ساتھ چھوڑا۔ اس طرزِ عمل پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی تو ہے کہ انہیں موقع کی مناسبت سے بروقت اور ’’بہترین‘‘ فیصلہ کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ ایک اچھے سیاسی حکمت کار کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ’’ خدا داد‘‘ بصیرت سے کام لے کر آگے بڑھتا چلا جائے۔حسین حقانی کو اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے، وہ بے پناہ ذہین ہیں اور حالات کے بہترین تجزیے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن ا ن کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ وہ جس راستے سے بھی گذرے، وہ راستہ انھوں نے خود پر ہمیشہ بند کر لیا۔ اپنی اصل جماعت یعنی جماعتِ اسلامی سے ا نھوں نے ایک بار ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑنے کی ایک کوشش ضرور کی لیکن اربن ڈیموکریٹک فرنٹ کے تجربے کے بعد وہ بہت ا گے نکل چکے تھے۔جنرل پرویز مشرف نے جن دنوں میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ کیا، وہ سیاسی طور پر بے آسرا تھے چناں چہ قسمت آزمائی کی کوشش کی۔ ا ن کا خیال تھا کہ وہ اپنی طلاقتِ لسانی اور ذرائع ابلاغ میں مہارت کے غیر معمولی تجربے کے باوصف فوجی حکمران کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب رہیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا تو ایک روز ا نھوں نے پریس کانفرنس میں ’’انکشاف‘‘ کیا کہ ان کی جان خطرے میں ہے، اس لیے اب پاکستان میں ا ن کا قیام ممکن نہیں۔ نائن الیون کے ہوتے ہوتے پاکستان میں ان کی جان کو لاحق خطرات حیرت انگیز طور پر ختم ہوگئے اور وہ کسی غیر ملکی ٹیلی ویژن کے فکسرکے طور پر کام کرنے کے لیے پاکستان لوٹ آئے۔ اسلام آباد کا ایک بڑا ہوٹل ان دنوں غیر ملکی صحافیوں سے بھرا رہتا تھا۔ پاکستان میں اِن کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کا آنا جانا بھی اسی ہوٹل میں تھا۔ ایک روز لابی میں ان کی آنکھیں آصف فاروقی سے چار ہوئیں تو جھینپتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ ا نھوں نے اسے آنکھ ماری اور پوچھا :’’ہاں بھائی! آج کل کس کے ساتھ

و، ہم میاں بیوی تو اِن دنوں امریکیوں کے ساتھ fit

 ہیں‘‘۔حسین حقانی نے اپنی اہلیہ فرح اصفہانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ٹی وی کیمرے کا ٹرائی پوڈ اٹھائے ایک طرف کو جا رہی تھیں۔حسین حقانی بنیادی طور پر ایک سخت کوش کارکن ہیں جو سخت محنت کرکے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقام حاصل کر لیتا ہے، بدقسمتی سے حالات بدل جائیں تو ازسرِنو زندگی شروع کرنے میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ یہ زمانہ بیتا تو اچھے دن ایک بار پھر ا ن کے منتظرتھے۔ آصف علی زرداری نے انہیں امریکہ میں سفیر بنا دیا اور وہ پہلے سے بھی بڑھ کر اہم ہوگئے۔ حسین حقانی جتنی بھی ترقی کر لیں اور کتنے ہی بڑے منصب پر پہنچ جائیں، اپنے ماضی کو خود سے کبھی جدا نہیں ہونے دیتے۔ اس معاملے میں ا ن کی ذات کے اندر ایک ایاز چھپا بیٹھا ہے لیکن ذرا سے فرق کے ساتھ۔ انہیں کوئی پرانا جاننے والا مل جائے یا کوئی بدبخت انہیں سعود آباد کی گلیاں اور راستے یاد دلانے کی کوشش کرے تو ا ن کے اندر کا ایاز ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا ہے اور بے ساختہ کہتا ہے :’’ابے احمقو! تم ابھی تک سعود آبادکی پلیا پر بیٹھے جوڑ توڑ کرتے ہو، دیکھتے نہیں میں کتنا آگے نکل چکا ہوں‘‘۔(بشکریہ ڈیلی پاکستان)