اعلیٰ حضرت اِمام احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ

2017 ,نومبر 15



لاہور(علامہ منیر احمد یوسفی):اِمام اہلسنّت اعلیٰ حضرت اِمام احمد رضا خان ؒ ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ؁بمطابق ۱۴ جون ۱۸۵۶ئ؁ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جد ِ امجدکا تعلق افغانستان کے ایک خوشحال گھرانے سے ہے جو سرزمین بریلی میں رہائش پذیر ہے۔ آپ کے والدِ گرامی مولانا نقی علی خان ظاہری اور باطنی دونوں علوم سے متصف جلیل القدر عالمِ دین تھے۔ ولادت کے بعد آپ کا نام المختار رکھا گیا۔ اِمام احمد رضا بریلوی نے ۴ سال کی عمر میں قرآنِ مجید ناظرہ ختم کیا اور چھ سال کی عمر میں ماہِ ربیع الاوّل میں پہلی بار مجمع کے سامنے میلاد شریف پڑھا۔ عربی کی اِبتدائی کتابیں مولانا مرزا غلام قادر بیگ ؒ اور دوسرے اَساتذہ کرام سے پڑھ کر چودہ سال کی عمر میں تمام علومِ درسیہ معقول ومنقول کی تکمیل اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خانؒ سے کی۔ ۱۴شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ؁ فاتحہ فراغ ہوا۔ والدِ ماجد نے ذہین وطباع دیکھ کر اُسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام اُن کے سپرد کر دیا۔

۱۲۹۴ھ؁ میں مار ہرہ میں حاضر ہو کر حضرت سیّد شاہؒ کے مرید ہوئے اور خلافت کی دستار سے فیض یاب ہوئے اور جمیع سلاسل و سندِ حدیث سے مشرف ہوئے۔ ۱۲۹۵ھ؁ میں زیارتِ حرمین شریفین کا شرف حاصل کیا۔ وہاں کے اَکابر علماء مثل حضرت سیّد احمد دحلان مفتی شافعیہ اور حضرت عبدالرحمان سراج مفتی حنفیہ سے حدیث وفقہ واُصول و تفسیر و دیگر علوم کی سند حاصل کی۔

حضرت مولانا احمد رضا خاں پیدا ہوئے تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان سے مسلمانوں کا اِقتدار ختم ہو چکا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں کئی علمائے اہل سُنّت تاریخی کردار اَدا کرنے کے جرم میں پھانسی کے تختوں پر لٹکائے جا چکے تھے۔ کئی علماء کرام کو عبورِ دریائے شور کی سزائیں مل چکی تھیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اپنے والدِ ماجد سے انگریزوں کے ظلم وستم کے روح فرساواقعات سنتے تو اُن کے دل میں انگریزوں سے نفرت کی آگ بھڑکنے لگتی۔جب مسلمانوں کے دِلوں میں محبتِ رسول ؐ کا جذبہ کم کرنے کے لئے خوفناک سازشیں ہو رہی تھیں ۔ اعلیٰ حضرت کے عظیم والد نے اُنہیں یہی سبق سکھایا کہ محبت ِ رسول ؐ اور شوقِ جہاد۔۔۔۔۔۔۔یہی دو چیزیں مسلمانوں کو من حیث القوم اِستحکام اور رفعت عطا کرتی ہیں۔

اعلیٰ حضرت سُنّتِ مبارکہ کے پابند تھے جو کام اُلٹے ہاتھ کے کرنے کے ہیں اُن کے علاوہ آپ ہر کام کی اِبتداء سیدھے یعنی دائیں ہاتھ سے کرتے‘ دروازئہ مسجد کے زینے پر قدم رکھتے تو سیدھا۔ صبح مسجد میں ایک صف بچھی رہتی تھی اُس پر قدم پہنچتا تو سیدھا۔ پھر صف پر سیدھا یعنی دایاں پائوں رکھتے۔ یہاں تک محراب میں مصلیٰ پر بھی دایاں پائوں پہلے رکھتے۔ اگر کسی کو کوئی چیز دینی ہوتی تو دائیں ہاتھ سے‘ دائیں ہاتھ میں دیتے۔ہفتہ میں دو بار جمعۃ المبارک اور منگل کو لباس تبدیل فرماتے۔ اگر جمعرات یا ہفتہ کویوم عیدین یا یوم میلاد النبی ؐ ہوتا تو دونوں دن لباس تبدیل فرماتے۔وقت کی قدر فرماتے تھے۔ ہمہ وقت تالیف وتصنیف و فتاویٰ نویسی میں مصروف رہتے۔ صرف نماز پنچگانہ میں باہر تشریف لاتے یا کسی مہمان سے ملنے کے لئے۔ بعد از نماز جمعۃ المبارک اور روزانہ بعد از نماز عصر پھاٹک میں چارپائی پر تشریف رکھتے اور چاروں طرف کرسیاں رکھ دی جاتیں۔ یہی وقت عام لوگوں کی ملاقات کا تھا۔ لوگ آپ سے مسائل پوچھتے آپ خطوط کے جوابات دیتے یا اِستفتاء کے جوابات لکھواتے۔ آپ نحیف الجثہ اور نہایت قلیل الغذا تھے۔آخر عمر میں آپ کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی۔ آپ کی ذات اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ کی زندہ تصویر تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول کریم ؐ سے محبت رکھنے والے کو اپنا عزیز سمجھتے تھے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسولِ کریم ؐ سے دشمنی رکھنے والے کو دشمن مگر اپنے مخالف سے نہ تو کبھی بد خُلقی سے پیش آتے اور نہ ہی کبھی ذاتی دشمن سے سخت کلامی فرماتے۔

آپ اِس حقیقت کے قائل تھے کہ علماء کرام کے ذمے دو فرض ہیں ایک تو شریعتِ مطہرہ پر پورے طور پر عمل کرنا اور دوسرے مسلمانوں کو اُن کے دینی مسائل سے واقف کرنا۔ جہاں کہیں کسی کو خلافِ شرع کام کرتے ہوئے دیکھتے تو اُس کو سمجھاتے اور منع فرماتے اور اِس کو اپنے فرائض میں داخل سمجھتے۔ ۱۸۵۶ئ؁ سے ۱۹۲۱ئ؁ تک کی ۶۵ سالہ زندگی میں اِمام اہلسُنّت نے ۶۵ علوم و فنون پر ایک ہزار کتب و رسائل تصنیف فرمائے۔اِیمان اور عشق سے بھر پور ترجمۂ قرآنِ مجید بعنوان کنز الایمان ۱۹۱۱ئ؁ میں مکمل کیا۔ ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل فقہی مسائل کا خزانہ فتاویٰ رضویہ شریف عظیم خزانہ کی شکل میں عطا فرمایا۔

اعلیٰ حضرت طاغوتی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے ہمیشہ چٹان بن کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ گستاخانہ ذہنیت کے پھیلتے اور بڑھتے ہوئے جراثیم کو ختم کرکے اُنہوں نے قرآنِ مجید و حدیثِ پاک کی روشنی میں اِسلام کی صحیح تصویر پیش کی اور بیمار دِلوں سے کہا کہ وہ شفاخانہ حجاز سے درد کا درماں حاصل کریں۔ متنبی قادیان نے جب بلند بانگ دعوے کئے تو آپ نے اُس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اور اُس کے رَد میں کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔حضور نبی کریم ؐ سے آپ کو بے حد عشق تھا۔ جب کوئی حج بیت اللہ شریف سے واپس آتا آپ اُس سے دریافت فرماتے کہ حضورؐ کی بارگاہِ پاک میں حاضری دی؟وہ ہاں کہتا تو فوراً اُس کے قدم چوم لیتے۔اعلیٰ حضرت نے ۲۵صفرالمظفر ۱۳۴۰ھ کو جمعۃ المبارک کے روز عین اَذان جمعۃ المبارک کے دوران وصال فرمایا۔ اس دوران وصیت فرماتے رہے۔سینہ پردم آنے تک سورئہ یٰسین اور سورئہ رعد پڑھی جائیں‘ دُرود شریف بھی متواتر پڑھا جائے۔ رونے والے بچوں کو دُور رکھا جائے۔ قبضِ روح کے فوراًبعد آنکھیں بند کردی جائیں اور ہاتھ پاؤں سیدھے کردئیے جائیں۔’’بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ کہہ کر نزع میں ٹھنڈا پانی پلایا جائے۔میت پر آہ وبکا نہ کی جائے‘ غسل اور کفن سُنّتِ مبارکہ کے مطابق ہو۔ مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمہ فتاویٰ میں تحریر کی ہوئی دُعائیں یاد نہ کر سکیں تو مولانا امجد علی اعظمی ؒ نماز جنازہ پڑھائیں۔ قبر تیار ہو جائے تو سرہانے کی طرف اَلٓمٓ سے مُفْلِحُوْنَ تک آیاتِ مبارکہ پڑھی جائیں۔ فاتحہ میںطویل وقفہ نہ کیا جائے۔ میری فاتحہ کا کھانا صرف غرباء کو کھلایا جائے۔جس روز اعلیٰ حضرت کا وصال ہوا ،ٹھیک اُسی روز بیت المقدس میں ایک شامی بزرگ نے خواب دیکھا کہ حضورِ اَقدسؐ تشریف فرما ہیں۔ تمام صحابہ کرام ؓحاضرِ دربار ہیں لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے۔ اَیسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی کے آنے کا اِنتظار ہے۔ شامی بزرگ نے بارگاہِ رسالت مآب ؐمیں عرض کی‘ یارسول اللہؐ کس کا اِنتظار ہے؟ سیّدِ کائناتؐ نے اِرشاد فرمایا‘احمد رضا خاں کا۔ عرض کی حضور احمد رضا خاں کون ہے؟ فرمایا ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔ چنانچہ شامی بزرگ شوقِ دیدارمیں ہندوستان آئے بریلی پہنچ کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُن کا عین اُسی روز اِنتقال ہوگیا تھا جس روز خواب میں حضور سرورِ کائنات ؐ نے فرمایا تھاکہ ہمیں احمد رضا خاں کا اِنتظار ہے۔

متعلقہ خبریں