2019 ,ستمبر 9
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 3شعبان سنہ 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپؓ کا نام حرب رکھا،
مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کا نام حسینؓ رکھا۔ آپؓ اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک سال چھوٹے تھے۔
آپ کی کنیت ابوعبداللہ اور لقب ابوالمساکین تھا۔
آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
🌟الحسین منی و انا من الحسین🌟
حسینؓ مجھ سے ہے، اور میں حسینؓ سے ہوں
آپؓ کی عمر مبارک چھ سال تھی جب آپؓ کے نانا جان حضرت محمد مُصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دونوں نواسوں سے غایت درجہ محبت تھی۔ اپنی زندگی میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درد ناک انداز میں اپنے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خبر ارشاد فرمائی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد شیخین کریمین حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما بھی ان دونوں شہزادوں کا اکرام و احترام کرتے رہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر اپنے والد گرامی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حکم پر حسنینؓ کریمینؓ حضرت عثمان غنیؓ کی حفاظت کے لیے ان کے دروازے پر پہرہ دار تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اورحضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں آپ اپنے والد گرامی اور برادر اکبرؓ کے ہمراہ و مطیع و فرمان بردار رہے۔
برادر اکبرؓ کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کے بعد ان کے دور حکومت میں آپ مدینہ کے اندر گوشہ نشین رہے، اور زہد و عبادت تعلیم و تعلم اورخدمت خلق میں مصروف ومشغول رہے۔
یزید لعین جب تخت پر بیٹھا، تو اس نے عاملِ مدینہ کو حکم دیا کہ حضرت امام حسین اور ان کے رفقاء سے بیعت خلافت لی جائے، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ شر سے بچنے کے لیے مکہ تشریف لائے، اسی اثنا میں اہل کوفہ نے بوریوں کی بوریاں آپؓ کو خطوط لکھے، اور اپنے ہاں آنے کی دعوت دی، آپؓ نے حالات جاننے کے لیے حضرت مسلمؓ بن عقیلؓ کو وہاں بھیجا، اور انؓ کی طرف سے حوصلہ افزا پیغام آیا، چنانچہ آپؓ کوفہ کی طرف عازمِ سفر ہوئے،
آپ کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر جید صحابہؓ مثلاً حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ رضی اللہ تعالی عنہما نے روکنے کی کوشش کی، مگر امام حسینؓ راہ عزیمت کے مسافر تھے۔ رخصت پر عمل کرنے کو تیار نہ ہوئے،
اور حرمت مکہ کے پیش نظر بھی وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ راستے میں آپؓ کو حضرت مسلمؓ بن عقیلؓ کی مظلومانہ شہادت اور اہل کوفہ کی بے وفائی کی خبر ملی۔ آپؓ نے سفر جاری رکھا، اور کوفہ کے قریب میدان کربلا میں یزیدی گورنر کوفہ ابن زیاد لعنتی کے ایک سالار عمرو بن سعد نے گورنر کے حکم پر آپ کا راستہ روک لیا۔
ابتداء میں آپ نے مسلمانوں کے درمیان خوں ریزی سے بچنے کی کوشش کی اور اپنی تجاویز پیش کیں مگر اہل کوفہ بے وفائی پر اور یزیدی فوج آپ کو قتل کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔ لہٰذا آپؓ کی کسی تجویز کو قابل اعتناء نہ سمجھا گیا
اتمام حجت کے بعد آپؓ نے بھی باطل کے سامنے دبنا یا جھکنا گوارا نہیں کیا، اور ہمت و استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
تقریباً ایک ہفتہ مصائب کا سامنا کرنے کے بعد 10 محرم الحرام 61 ہجری کو باقاعدہ فوج کے ساتھ مٹھی بھر جانبازوں کے مقابلے کی نوبت آپہنچی، ابتدا میں مبارزت چلتی رہی، پھر ہجوم کر کے آپ پر حملہ کیا گیا۔
اور چشمِ فلک نے یہ حیران کن المناک اور خون فشاں منظر دیکھا کہ نبی پاک صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی کہلانے والوں نے اپنے ہی نبیؐ کے عزیز ترین نواسے کو حق پرستی کے جرم میں خاک و خون میں تڑپا دیا۔
واہ ری امت اور واہ رے اُمتیو...!!!!
کہنے کے لیے کچھ نہ بچا اور بولنے کے لیے لفظ کھو گئے۔
مگر عجیب خون تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا جو بعد میں آنے والے راہ حق کے ہر مسافر کے ماتھے کا جھومر بن گیا۔
اے اللہ تیرے نبیؐ نے فرمایا:-
میں حسنؓ و حسینؓ سے محبت کرتا ہوں۔ تو بھی ان سے محبت فرما۔ اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔
اے ہمارے پروردگار تو گواہ رہ، ہم حسنین کریمین سے،
اپنے نبیؐ کے نواسوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھولوں سے اور نوجوانان جنت کے سرداروں سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں، تو ہمیں بھی ان اہلِ محبت میں شامل فرما، جن سے تو محبت کرتا ہے...!!!!