ؓسر زمین کربلا اور شہادت امام حسین

2017 ,ستمبر 22



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ علامہ سید سعادت علی قادری): کوفہ کے بد لے ہو ئے حالا ت اور حضرت مسلم ابن عقیلؓ کی شہادت کی خبر کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اب ہمیں واپس ہو ناچاہیئے یا آگے چلنا چاہیئے سب کی را ئے کے بعد یہ فیصلہ ہو ا کہ منز ل مقصود کی طرف بڑھنا چاہیئے۔ اس لئے کہ مسلم ابن عقیلؓ کے قاتلو ں سے بد لہ لیا جائے اور کو فہ کے لو گو ں کو ظالم وفاسق حاکم سے نجات دلائی جائے۔ غر ضیکہ اہل بیت کر ام کے قافلہ کا سفر جاری ہو ا ، اِدھر عبید ابن زیا د کو خبر ملی کہ حضرت امام حسینؓ کو فہ پہنچنے والے ہیں ۔چنانچہ اس نے ایک بڑ الشکر رو انہ کیا جس کو ہدایت کی کہ امام حسینؓ کو کو فہ میں داخل نہ ہو نے دیا جائے بلکہ کسی ایسے جنگل میں اُترنے پر مجبور کیا جائے جہاں ان کوکوئی آرام نہ مل سکے اور دریاکا کنارہ بھی قریب نہ ہو۔ حضرت امام حسین ؓ جب منز ل سُراة پہنچے تو دوپہر کے وقت آپ نے اس بڑے لشکرکو اپنی طرف بڑھتے ہو ئے دیکھا۔ لشکر قریب ہو ا تو آپ نے معلوم کیا لشکر کا سردار کو ن ہے پتہ چلا حُر بن یزید ریاحی اس لشکر کا قائد ہے آپ نے حُر کو بلا یا اور حال معلوم کیا۔ حُر نے کہا مجھے عبید ابن زیا د نے اس غرض سے رو انہ کیا ہے کہ میں آپ کو بیا بان جنگل میں رو ک دو ں۔ آپ نے فرمایا لیکن میں تو خود کو فہ میں نہیںآیا بلکہ مجھے یہا ں کے لو گو ں نے بلا یا ہے میں ان کا مہمان ہو ں مجھے ان کے پا س جانے دو اگر عبید ابن زیاد کو میر ے کو فہ میں رہنے پر کچھ اعتراض ہو گا تو میں اس سے ملاقات کرکے خود فیصلہ کر لو ں گا اور اگر کو فہ میں میرا داخل ہو نا بھی پسند نہ ہو تو میں یہیں سے واپس چلاجاتاہوں۔ اگرکسی وجہ سے مکہ میں بھی میرارہناگورانہ ہوتو میںکسی دوسری جگہ بھی جانے کو تیا ر ہو ں اسی کے ساتھ آپ نے حُر کو کو فیو ں کے خط بھی دکھائے حُر نے عبیدا بن زیاد کو حضرت امام حسینؓ کی تمام باتوں کی خبرکی لیکن عبید ابن زیاد نے امام حسین ؓ کی کسی بات کو قابل غور نہ سمجھا اور حُر کو آپ کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا اور کہا یا تو حسین ؓیزید کے ہاتھ پر بیعت کا اعلان کر یں ورنہ اُن سے مقابلہ کیا جائے اور میر ے در بار میں اُن کا سر پیش کیا جائے۔

حضرت امام حسین ؓ نے جب عبید اﷲ ابن زیاد کا یہ جو ا ب سنا تو آپ کو حالا ت کا اندازہ ہو گیا آپ اپنے قافلے کو لے کر واپس ہونے کی کوشش کرنا چاہتے تھے لیکن حُر نے کہاکہ میں آپ کو واپس نہیں ہونے دوں گا پھر آپ نے کسی قریب آبادی میں اتر نے کا فیصلہ کیا لیکن حرُ نے آپ کو ایک ایسے میدان میں پہنچا دیا جس سے دریا ئے فرات بہت دورتھا اور کہا کہ آپ یہاں اُتر جائیں۔ مجبوراً آپ یہاں اترے اور خیمے لگادیئے۔یہ 2محرم 61 ہجری کا دن تھا۔ دوسرے ہی دن اس چھوٹے سے قافلے کے سامنے چار ہزار افراد کا ایک بڑالشکر آپہنچا۔پتہ چلا کہ اس لشکر کا سپہ سالار عمر وبن سعد ہے جو سعد ابن ابی وقاص کا بیٹاتھا۔ اس کے والدنبی کریم کے ان صحابہ میں سے تھے جن کو حضور نے دنیا ہی میں جنتی ہو نے کی خوشخبری سنائی، جن کو عشر ہ مبشرہ کہا جا تا ہے۔ لیکن ان صحابی کا بیٹا حکومت و دولت کے لالچ میں آکر نواسہ¿ رسول کے مقابلے میں آیا اور اس نے جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔

حضرت امام حسین نے عمر و بن سعد سے بھی گفتگوکر کے حالات کو بہتر بنا نے کی کو شش کی لیکن عمر و نے عبید اﷲ ابن زیاد کے احکام کے مطابق اہل بیت کرام پر سختی شروع کر دی یہا ں تک کہ 7محرم کو پانی بھی بند کردیا گیا اور اس طرح عورتیں بچے سب پینے کے لیئے پانی کو تر س گئے۔ آپ نے عمر و ابن سعد کو ہر چند سمجھانے کی کو شش کی جس میں کامیا بی نہ ہو سکی اور 9محرم کو اُن بد نصیبو ں نے نواسہ¿ رسول سے جنگ کی تیاری شروع کر دی حضرت امام حسین ؓ کے پاس جنگ کا کو ئی خاص سامان نہ تھا، بس وہی چند تلو اریں وغیر ہ تھیں جن کو اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سفر میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ آپ نے اسی سامان کو ٹھیک کیا اور اپنے رفقاءاور اہل وعیال کے ساتھ ساری رات خدا کی عبا دت اور دعا کر تے گذاری۔ صبح نماز فجر کے بعد دشمن نے مقابلے کا اعلان کر دیا۔ آپ نے بھی اپنے جاں نثاروں اور مجاہدوں کی صفیں ٹھیک کیںا س قافلے میں صرف بتیس افر اد سوار تھے اور باقی چالیس پیدل تھے اس طرح کل بہتر مجاہد تھے۔

حضرت اما م حسین ؓ نے جنگ شروع ہو نے سے پہلے ایک تقریر کی اور دشمن کو اس کے غلط اقدام سے روکنے کی پو ری طرح کو شش کی لیکن عمر و ابن سعد نے جنگ شروع کر نے کا حکم دیا اور دشمن کی طرف سے تیر بر سنا شروع ہو گئے اور جنگ باقاعدہ شرو ع ہو گئی امام حسینؓ کے جاں نثار رفقاءاگر چہ تعداد میں کم تھے لیکن ایمان میں پختہ تھے لہٰذا ان چند مقدس ہستیوں نے ہی دشمن کے عظیم لشکر کو تھوڑی ہی دیر میں تباہ کر ڈالااور خود بھی اسلام کے محافظ بن کر دنیاسے ایسے رخصت ہو ئے کہ ہمیشہ کے لیئے زند ہ کہلانے لگے کیو نکہ شہید کو مردہ نہ کہاجا سکتا ہے اور نہ خیال کیا جاسکتا ہے اور ان شہدا ءمیں خاص طور پر قابل ذکر حضرات کے نام یہ ہیں :۔

حضرت بریر ؓ ،حضرت وہب ابن عبد اﷲ کلبی ؓ ،عمر ابن خالدؓ ،مسلم ابن عوسجہ ب، حضرت عبد اﷲ ابن امام حسینؓ، قاسم ابن امام حسنؓ حضرت عباس علمدارؓ

ان تمام جاںنثار وں کے بعد بالآخر وہ وقت آگیا کہ خیمے میں عورتیں بچے اور بیمار زین العابدینؓ تھے اور دشمن کے مقابلے پر تن تنہا نو اسہ¿ رسول ۔ آپ نے خود دشمن کے مقابلے کے لیئے فیصلہ کیا اور صبر و استقامت اور شریعت کی پابند ی کی نصیحت کر نے ایک مرتبہ خیمے میں تشریف لا ئے سب سے ملے اور آخری دعائیں دے کر نہ صرف خیمے سے بلکہ دنیا سے رخصت ہو نے کے لئے چلے لیکن چلتے چلتے بہن نے کہا معلوم نہیں آپ کے بعد ہم پر کیا مصیبتیں آئیں۔آپ ایک مصیبت کم کرتے جائیے اور وہ یہ کہ آپ کے صاحبزادے علی اصغر پیا سے بلک رہے ہیں ان کو دشمن کے سامنے پیش کر کے پانی کے چند قطر ے ان کہ منہ میں ڈالو ادیجئے۔ حضرت امام حسین ؓ نے بہن کی خواہش پو ری کر نے کے لیئے ننھے علی اصغر کو گود میں لیا اور دشمن سے کہاتمہاری دشمنی مجھ سے ہے اس بچے نے تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑا ، دریائے فرات کے پانی کے چند قطرے اس کو دے دولیکن جو اب میں ایک ایسا تیر آیا جو شیر خوار پیاسے علی اصغر کی گر دن میں لگتا ہو احضرت امام حسین ؓ کے ہاتھ میں لگ گیا۔ آپ نے تیر نکالا تو علی اصغر کے حلق سے خون جاری ہو گیا اور یہ پیاسا ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گیا۔ واپس آکر بچہ بہن کو دیا اور کہا صبر کرو میرے پیارے علی اصغر کو دشمن نے تو پانی نہ دیا لیکن نا نا جان نے حوض کو ثر سے سیراب کر دیا آپ نے اس مصیبت کو بھی بر داشت کیا اور اب میدان جنگ کی طرف چلے ۔حضرت امام حسین ؓ نے میدان میں آکر بھی سمجھا نے کی کو شش کی لیکن دشمن نے کچھ سوچنے کے بجائے آپ پر تیر برسانے شروع کر دیئے مجبو راً حضرت امام حسین ؓ کو بھی تلوار نکالنا پڑی۔ شیر خدا حضرت علی ؓ کا شیر جس طرف رُخ کر تا دشمن کی لا شوں کے ڈھیر لگ جاتے دشمن یہ حالت دیکھ کر گھبرا گیا اور آخر کا ر سرزمین کر بلا میںآپ پر چاروں طرف سے تیر برسنے لگے۔ آپ کے مقدس جسم پر تینتیس نشان تیر وں کے چونتییس زخم تلو اروں کے آئے جس سے آپ نڈھال ہو کر زمین پر تشریف لائے۔ خداکے دربار میں سجدہ¿ شکر ادا کیا اور جام شہادت نو ش فرماکر اپنے نانا جان سے جا ملے۔”انا ﷲ وانا الیہ راجعون“

خولی ابن یزید نے آگے بڑھ کر آپ کا سر کا ٹنا چاہا لیکن اس کا ہاتھ کا نپنے لگا پھر ایک دوسرے شخص سنان نے آپ کے سر مبارک کو تن سے جدا کیا ،یہ محرم کی 10 تاریخ 61 ہجری بمطابق 10اکتوبر680 سنءکا ہو لنا ک ترین دن تھا۔ اس وقت آپ کی عمرپچپن سال کی تھی۔ اس جنگ میں آپ کے ساتھ بہتر مجاہد شہید ہو ئے جن میں اٹھارہ خاند ان نبوت کے پھول تھے۔اﷲ تعالیٰ امام حسین ؓ اور دیگر شہدائے کر بلا کی طرح ہمیں اور تمام مسلما نوں کو بھی دین کی پابند ی اور اسلام کی حفاظت کی تو فیق عطا فرمائے اور ان حضرات کے صدقے میں ہر قسم کی آفات وبلیا ت سے محفوظ رکھے (آمین)

متعلقہ خبریں