2020 ,ستمبر 6
ہماری سیاست میں اپوزیشن کی طرف سے سدا سے انتقام انتقام کی صدا لگائی اورگردان کی جاتی ہے۔انتقام کا کوئی سبب اور محرک ہوتا ہے۔ انتقام کی رَٹ لگانے والے سب سے پہلے تو اعتراف کر لیتے ہیں کہ انہوں نے ایسی پرکاری اور ملمع سازی ضرور کی ہے جس کاحساب دینا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں انتقامی سیاست کا 90کی دہائی ’’سنہرا ‘‘ دور تھا۔ اس میں اگر کوئی حقیقی کارروائی بھی ہوئی تو انتقامی سیاست کے وچاروں کی نذر ہو گئی۔یہ انتقامی سیاست میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے گرد گھومتی رہی۔اپوزیشن کو دبانے اور زک پہنچانے بلکہ کردار کُشی تک چلے جانے کی بات کریں تو ن لیگ کاپلڑا بھاری رہا، سیاست میں شائستگی کا جنازہ اُن ادوار میں بڑی دھوم سے نکلا۔ایک دوسرے پر جھوٹے سچے مقدمات تو معمول تھا۔اس میں انیس بیس کافرق ہو سکتا ہے لیکن کردار کُشی میں پی پی پی کے مقابلے میں لیگی لا ثانی رہے۔حسین حقانی نے ساری سائنس محترمہ کی جعلی فحش تصاویر بنانے پر صرف کردی اور پھر اس سائنسدان کو بیظیر بڑے پن سے اپنا ساتھی اور میاں نواز شریف نے بینظیر کو بہن بنالیا۔
نوے کی دہائی کے بعد کسی بھی کارروائی کو انتقامی نہیں کہا جا سکتا۔ جوکچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ الزام لگانے والوں کے اپنے کرموں کا پھل اور کرتوتوں کاثمرہے جو کرپشن کا جنازہ بن کر اُٹھ رہا ہے، جنازوں پر آہ و بکا اور بین تو ہوتے ہی ہیں۔ احتساب جسے انتقام کہا جارہا ہے، یہ اس کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے جو کچھ ملکی خزانے اور قومی وسائل کے ساتھ کیا گیا۔ یہ آخرالذکر 2 واقعات کی طرح ہے جبکہ اول الذکر واقعہ کے مطابق کارروائی بھی کرپٹ لوگوں کے "کارناموں" کے سامنے ہیچ ہے۔مافیا کی تو چانگریں نکلنی چاہئیں،ان کا تعلق خواہ کسی بھی گروہ، گروپ، طبقے اور پارٹی سے ہو۔ہر حکومت نے احتساب کی بات کی جو ادھوری رہی۔آج وہی لوگ احتساب کے تازیانے کی زد پر ہیں۔موجودہ حکومت نے بھی مصلحت سے کام لیا تو کل یہ بھی اسی صف میں ہوگی۔کسی بھی چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، کرپشن تمام حدیں عبور کرچکی جو منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس انجام سے آج کی حکومت مافیائوں کو دوچار نہیں کرے گی تو کل کوئی اور کردے گااور آج کے ذمہ داروں کے گلے میں بھی اپنی ممکنہ غیر ذمہ داری کی وجہ سے پھندہ کسا ہوگا۔
کراچی ڈوب گیا۔ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بارش کو سماوی آفت بنا دیا گیا ہے۔اللہ کی رحمت کاآج عذاب بنناحکمرانوں کی بدترین نااہلی اور نالائقی کا شاخسانہ ہے۔قومی خزانہ لوٹنے کے بجائے حفاظتی اقدامات کئے گئے ہوتے تو اللہ کی رحمت کبھی زحمت نہ بنتی۔سندھ میں 12سال سے پی پی کی حکومت ہے، اس سے کراچی کی حفاظت نہ ہوسکی۔اس حکومت کو کئی ارسطو ثابت کرنے پر تُلے ہیں۔اہلیت ملاحظہ کریں۔پنجاب میں کرونا کے 96ہزار جبکہ سندھ میں ایک لاکھ 30ہزار کیسز سامنے آئے، ان کے حمایتی مراد علی شاہ حکومت سے رہنمائی لینے پر زور دیتے رہے۔شدید بارشوں سے لاہور ڈوبتا نظر آتاہے لیکن بارش کے ایک دو گھنٹے بعد پانی اتر جاتا ہے کیونکہ اگر کچھ کھایا ہے تو لگایا بھی ہے اگر سارا لگایا ہوتا تو پانی کا ایک قطرہ بھی بارش کے رکنے پر نظر نہ آتااور لگانے والے در بدر بھی نہ ہوتے۔کراچی میں سارے کا سارا کھا لیا گیا،اسے عوام سے انتقام کے کس درجے میں رکھ جائے؟کراچی میں کنٹینر اور گاڑیاں تیر رہی ہیں۔ منچلے دوسری تیسری منزل سے سڑکوں پررواں دریائوں میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کہتے ہیں کسی میں کراچی کوسندھ سے الگ کرنے کی جرأت نہیں ہے۔بارش میں لانگ بوٹ پہن کر نکلوں گا۔اب لانگ بوٹوں سے کام نہیں چلنے والا، بوٹ Boat لے کر نکلیں۔انگریز نے ریلوے لائن بچھانا شروع کی تو افواہ پھیلادی گئی کہ ہندوستان کوانگریز لوہے کے سنگلوں سے کھینچ کر ولایت لے جائے گا۔مراد علی شاہ کے کان میں شاید کسی نے کراچی کو سندھ سے کہیں اور کھینچ کے لے جانے کا کہہ دیا ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔ بھارت کی پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔ پاکستان نے بلیک لسٹ سے بچنا اور گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت ہرممکنہ کوشش کر رہی ہے۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہوتی‘ یہی کرتی۔ گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ایف اے ٹی ایف نے بھی کچھ مشورے دیئے اور رہنمائی کی جس کے تحت پارلیمنٹ سے قانون سازی کیلئے کہا گیا۔ اس معاملے میں اپوزیشن کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ اپوزیشن نے ایک دو بار قانون سازی میں ساتھ دیا مگر منی لانڈرنگ بل کے خلاف دُم پر کھڑی ہو گئی۔ اب معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جائے گا تو حکومت قانون منظور کرا لے گی۔ عمران خان کہتے ہیں ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن اور بھارت ایک پیج پر ہیں۔ دہلی سرکار پاکستان کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن نے قوانین کی منظوری روک کر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔
اپوزیشن کا پیغام تو یہ رہا۔ اِدھر ایک ہاتھ سے احتساب چھوڑ دو‘ اُدھر دوسرے ہاتھ سے قوانین پر حمایت لے لو۔ اپوزیشن نے یہ انتقام کس سے لیا ہے؟ عمران خان سے یا مادروطن سے؟ بھارت کو سی پیک کھٹکتا ہے۔ وہ اس کا انتقام پاکستان اور سی پیک سے وابستہ اداروں اور فعال شخصیات سے لینے کیلئے تہیۂ طوفاں کئے ہوئے ہے۔چیئر مین سی پیک اتھارٹی جنرل عاصم سلیم باجوہ کے خلاف بھارتی سابق میجر نے زہر اگلا‘ اسے ہمارے کچھ احمقوں نے اچھالا‘ جنرل باجوہ سے منی ٹریل کے تقاضے مریم نواز تک نے شروع کر دیئے اور جنرل سلیم باجوہ نے منی ٹریل دیکر مخالفین کے منہ بند کردیئے۔ بھارت کا انتقام اس کے گھٹیا پن کے باعث اس کے نکتہ نظر سے بجا نظر آتا ہے لیکن پاکستان کا کھانے والے کس سے انتقام لے رہے تھے؟
میاں نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے بھی انتقام سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ پانامہ میں قید کی سزا بعد میں ہوئی ، سپریم کورٹ نے اقامہ پرپہلے نااہل قرار دیدیا ۔کوئی مانے نہ مانے ان لوگوں کی بات درست لگتی ہے جو میاں نوازشریف اور ان کی خاندان کی خدائی پکڑ کی بات کرتے ہیں۔ یہ سو تدبیر کرنے میں کایاں ہیں مگر تدبیریں الٹی پڑتی دیکھی ہیں۔ توشہ خانہ کیس اقامہ سے بھی ہلکا تھا۔ یہ کیس میاں نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار کر گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا ان کی واپسی سے متعلق فیصلہ چھچھوندر بن گیا۔ بلاشبہ خدا نیک نیتوں کا مددگار ہے۔ خدائی مدد کیلئے بدنیتی چھوڑ دی جائے تو ستے خیراں ہیں۔ (ختم شد)