انتقام

2020 ,ستمبر 1



سکول سے واپسی پر گھر سے پہلے گائوں میں داخل ہوتے ہی چپکے سے کتے نے ٹانگ پر کاٹنے کی کوشش کی۔ ٹانگ تو بچ گئی ، لُنگی البتہ نوکیلے دانتوں کی دستبُرد میں آگئی۔۔ تھوڑا اوچھا وار پڑا ہوتا تو بے لُنگی ہونے کی نوبت آ سکتی تھی۔کندھے پر لٹکے بستے سے تختی نکالی ، کتے کی طرف لپکا تاہم وہ مستعدی سے بھاگ نکلا۔ 

سکول گائوں سے تھوڑے فاصلے پر قبرستان سے متصل اور قبرستان ٹیلے (ٹِبّے) پر ہے۔ اُن دنوں سکول کی خاص یونیفارم نہیں ہوتی تھی۔ شلوار اور پاجاما بھی زیادہ مروج نہیں تھا۔ پرائمری تک عموماًدھوتی چلتی تھی لُنگی اور لاچا دھوتی کی قسم ہے۔ لاچا خوش پوشی اور سٹیٹس میں شمار ہوتا تھا۔ سکول کا تذکرہ ہوا ہے تو یادوں کے دریچے بھی کھلنے لگے ہیں۔ سکول میں شروع سے شاہ جی اُستاد ہوتے تھے۔ انہوں نے بھینسیں پال رکھی تھیں جس کے چارے کا بندوبست بڑی کلاسوںِ، چوتھی، پانچویں کے لڑکے کرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے ماسٹر دین محمد بھی ٹرانسفر ہو کر آ گئے تھے۔ وہ ایک مہم جو، اُلجھی ہوئی داستاں اور معمہ خیزشخصیت تھے۔ ان کی اس خوبی نے دلوں میں بڑا مقام اورا حترام پالیا :کچی اور پکی جیسی کلاسوں کے چھوٹے بچوں کی نوزی کسی ماں کی طرح ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے اکراہ و کراہت محسوس نہیں کرتے تھے۔ اسی ٹبے سے ایک بار گزرتے ہوئے مجھے بھوری اور پیلی رنگت کا تین چار فٹ کا سانپ نظر آیا۔وہ بل کھاتا میرے سامنے دائیں سے بائیں جارہا تھا۔میں بڑی بے نیازی سے اسکے اوپر سے گزر گیا۔ اُس وقت عمر سات آٹھ سال ہو گی۔ سُن رکھا تھا، ٹبے پر بابوں کی کرامات سے سانپ اندھا ہو جاتا ہے اور اسی یقین کے تحت خوف محسوس نہیں ہوا تھا مگر اب ۔۔۔؟ 

یہ وہ دور تھا جب گائوں میں بجلی تھی نہ کسی بھی گھر میں ٹوائلٹ تھا۔ مسجدوں میں ایک غسلخانہ اور اس سے جڑا ایک استنجا خانہ ہوا کرتا تھا۔ اُس دور کے دیہات جنگل کی زندگی سے قریب اور شہرشاید قریب تر تھے۔ 

آئیے پھر کُتے کی طرف ، اس کا زیادہ پیچھا نہیں کیا ، البتہ پیچ و تاب کھاتا اور"کچیچی وٹتا" دانت پیستاگھر چلا آیا۔ اشتعال اور انتقام میں ذہن اُبل رہا تھا۔ معاً دماغ میں ایک خیال کوندا۔ امی نے چھابے میں روٹی رکھی ، روٹی چنگیر سے اٹھائی اور مقامِ سَگ گزیدگی پر چلا آیا، تھوڑی دور کتا کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھا تھا۔ اُن دنوں گائوں کے باہر ہر کسان کے گھر کا اپنا اپنا ڈھیر ہوتا تھا۔ گوبر وغیرہ وہیں پھینکا جاتا جو سردیوں میں مویشیوں کی "خواب گاہیں"پُر آسائش بنانے کیلئے خشکے (سُک) کے طور پر اورفصلوں میں کھاد اور خصوصی طور پر مونجی،چاول کی پنیری کی کاشت میں استعمال ہوتا تھا۔رُوڑی پر بیٹھے کتے نے دیکھ کر غوں غوں کیا اورکھسک لیا تاہم روٹی کا ٹکڑا پھینکنے پر جھجکتے واپس مُڑا اور اسے اُٹھا کر کھا گیا۔ پھر میں ٹکڑے پھینکتاگھر آنے لگا۔ منجے پر بیٹھ کر روٹی کھانا شروع کی تو کتا قریب بیٹھا تھا ، اس کا اعتماد کافی بحال ہو چکا تھا مگر میرے جذبہ انتقام کو قرار نہیں آیا تھا۔ چھابے میں باقی گھر والوں کے لئے روٹی بچی یا نہیں اس وقت اس کی پرواء نہیں تھی۔ اسی دوران "دواکھی" سے دیا اُٹھا کر مٹی کا تیل کتے کی دُم پر انڈیل دیا ، اس کی شاید ٹھنڈک سے یا میرا خطرناک ارادہ بھانپ کر وہ اُٹھ کے بھاگا تو میں نے ایک اور ٹکڑا پھینک دیا۔ وہ پھر بیٹھ گیا۔شاید وہ ہم انسانوں جیسی مکاری سے نابلد تھا۔ اس کے بعد تیلی دکھا دی تو وہ چانگریں مارتا بھاگا، گھر سے نکل کر گائوں سے باہر کھیتوں میں وہ شعلہ جوالہ بنی دُم اور چانگروں سمیت گُم ہو گیا۔ اسکے بعد وہ گائوں میں نظر نہیں آیا۔ شاید بچپن تھا ، انتقام کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی اب سوچتا ہوں تو۔۔۔

 ایک تو یہ انتقام تھا اور کچھ انتقام کی شکلیں ایسی بھی ہوتی ہیں: میرے ایک دوست کو اُس کے عزیز نے کہا موٹرسائیکل پر گائوں جا رہا ہوں۔ چلنا ہے تو آئو، وہ بڑی خوشی سے تیارہونے لگا۔ اسی دوران بائیک والا بولا، ٹینکی تم فُل کرائو گے۔ یہ بات ناگوار ہی گزرنا تھی۔ میرے دوست نے تیاری ختم کردی تاہم کہنے سننے پروہ آدھی ٹینکی بَھرانے پر راضی ہو گیا۔ واپس آکر بتانے لگا کہ گائوں میں بیلنا دیکھ کر وہ مجھے سڑک پر چھوڑ کر رس پینے چلا گیا۔ اس دوران میں نے پٹرول کا لیور کھول دیا۔ اس کے آنے پر بائیک تھوڑی آگے کھڑی کر دی۔۔۔ ہمارے رشتہ داروں میں ایک طلاق ہو گئی۔ لڑکی کا سُسر دُکاندار تھا۔ وہ قصبے سے دیگر سامان کے ساتھ تانگے میں برف رکھ کے بیٹھا تھا۔اس دوران مطلقہ لڑکی آئی جس نے تانگا سالم کرا کے سابق سسر کا سامان اتروا دیا،اسی تانگے والے نے واپسی پر دُکاندارکو آکے بٹھایا تو اس کا بزنس پانی بن کر سڑک پر بہہ چکا تھا۔

ہماری سیاست میں اپوزیشن کی طرف سے سدا سے انتقام انتقام کی گردان کی جاتی ہے۔انتقام کا کوئی سبب اور محرک ہوتا ہے۔ انتقام کی رَٹ لگانے والے سب سے پہلے تو اعتراف کر لیتے ہیں کہ انہوں نے ایسی پرکاری اور ملمع سازی ضرور کی ہے جس کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں انتقامی سیاست کا نوے کی دہائی ’’سنہرا ‘‘ دور تھا۔ اس میں اگر کوئی حقیقی کارروائی بھی ہوئی تو انتقامی سیاست کے وچاروں کی نذر ہو گئی۔یہ انتقامی سیاست میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے گرد گھومتی رہی۔ (جاری) 

متعلقہ خبریں