اقبال کا نوجوان

2017 ,نومبر 9



لاہور(عیشتہ الراضیہ):اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی بے مقصد پیدا نہیں ہوا۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ مقصد کو سمجھا جائے۔

جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان ناامید ہوگئے، وہ اپنا مقصد بھول کر غلامی کی زندگی گزارنے لگے۔ ایک انسان تب تک غلام نہیں بن سکتا جب تک اس کا ذہن غلامی کو قبول نہ کرلے، اور مسلمانانِ ہند کے ذہنوں نے غلامی قبول کرلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ابتر حال تک پہنچ گئے۔ اقبال ایک دردِ دل سوز، دور اندیش اور فکرِ قومیت رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کیلئے پریشانی میں مبتلا ہوجاتے۔ انہیں یاد آتا کہ کبھی مسلمان دنیا پر راج کرتے تھے۔ انہی مسلمانوں نے برصغیر پر ایک صدی تک حکومت کی تھی اور آج اس حال میں ہیں کہ اپنے ہی قابل رشک ماضی سے ناآشنا ہیں۔ اپنی نظم ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ میں وہ جوانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ:

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

قلم کی طاقت سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اقبال نے بھی قلم کو اٹھایا اور اس کے ذریعے مسلم جوانوں کو جگایا۔ وہ ان جوانوں کے ذہنوں کو آگہی سے منور کرنا چاہتے تھے۔

نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ اس سرمایہ کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لئے تھے۔ کیونکہ جب تک کسی قوم کو جگایا نہ جائے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اور سب سے پہلی بات لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ شعور ملنے پر ہی وہ قوم اپنا آئندہ کا نصب العین طے کرتی ہے۔ اقبال ناامید دِلوں میں امید کی رمق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ مسلم جوانوں سے بہت پر امید تھے۔ اپنے ایک شعر میں مسلم جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

نہیں ہے نوامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

1905ء سے قبل علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں کچھ ایسی نظمیں ملتی ہیں جن میں وہ ایک پکے قوم پرست نظر آتے ہیں جیسا کہ:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا

تاہم یورپ پہنچ کرانہوں نے ایک نئی دنیا دیکھی۔ یورپ کا طرزِ حیات ، اندازِ فکر انہیں بہت پسند آیا لیکن دوسری طرف ان کی خرابیاں دیکھ کر اس سے بڑی بیزاری پیدا ہوئی۔ ان تجربات نے علامہ اقبال کے خیالات اور غوروفکر کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس لئے جب وہ 1908ء میں یورپ سے واپس آئے تو اسلام، اسلامی عقائد اور اسلامی اتحاد کے پرجوش مبلغ بن چکے تھے۔

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدق سلمانیؓ

اقبال نوجوانوں کو عقاب سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ عقاب ایک ایسا پرندہ ہے جو بلندی پر اپنا مسکن بناتا ہے۔ اپنی تیز نگہی کے باعث وہ بلندی سے ہی اپنا شکار تلاش کرلیتا ہے۔ اقبا ل عقاب کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر کا مسلم جوان تیز، چست اور اپنے ہدف کو پورا کرنے والا بنے اور اس کا اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے تھے۔

علامہ اقبال بالِ جبرائیل کی نظم ’’ایک نوجوان کے نام‘‘ میں اپنے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

تیرے صوفے فرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

٭٭٭

امارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل

نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی ؑ

٭٭٭

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں

کہ پایا میں نے استغنا میں معراج سلمانی!

٭٭٭

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

٭٭٭

نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امید مردِ مومن ہے‘ خدا کے راز دانوں میں

٭٭٭

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہین ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

علامہ اقبا ل کی شاعری کا مسلم جوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ الگ وطن حاصل کرکے ہی دم لیا۔ مسلم جوانانِ ہند نے کردکھایا کہ ان میں عقابی روح موجود ہے۔ مگر افسوس کہ اقبا ل نے الگ ریاست کا جو خواب دیکھا، وہ شرمندۂ تعبیر ہوا تو آپؒ حیات نہ تھے۔

علامہ اقبا ل کی شاعری کسی ایک دور کے جوانوں کے لئے مختص اور محدود نہیں ہے۔ جب بھی مسلم جوان غفلت میں پڑیں گے، اقبا ل کی شاعری ان کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔ عصرِ حاضر کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو آجکل کے جوانوں کو وہی عقابی روح بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج پاکستان کی آبادی کا 60% حصہ جوانوں پر مبنی ہے اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہمارا یہ سرمایہ صحیح منزل کی طرف گامزن ہے؟ آج کا جوان بھی اقبالؒ کا جوان ہے مگر کیا وہ اقبا ل کاجوان بن کے دکھا رہا ہے؟ یا اس کے تقاضوں کو پورا کرپارہا ہے؟ سوشل میڈیا پہ ہر وقت اَپ ڈیٹ رہنے والا جوان اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ اس کی پوسٹ پر Likes کم ہیں یا زیادہ؟ 9 نومبر کو اقبا ل کا شعر فیس بک پر لگا کر وہ سمجھتا ہے کہ اقبا ل کا شاہین ہونے کا فرض نبھا دیا۔ ہمارے جوان کس منزل کی طرف چل پڑے ہیں؟ ہمارے جوانوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا زندگی کے مقاصد اتنے ہی محدود رہنے چاہئیں؟ ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جو جوان کچھ کر دکھانے اور کچھ بننے کا جذبہ رکھتے ہیں انہیں بے روزگاری اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر حکومت ِ وقت اس 60% سرمایہ کے مستقبل کا سنجیدگی سے سوچے تو ممکن ہے ان نوجوانوں کو صحیح منزل تک پہنچنے میں مد دملے۔ اقبا ل نے کہا تھا کہ:

سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

افسوس کی بات ہے کہ ہم نے صداقت کا سبق پڑھا نہ عدالت اور شجاعت کا، گر پڑھتے تو قدرت شاید ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیتی۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی اقبا ل یہ دعا فرما رہے ہیں کہ:

خرد غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

آج کے نوجوانوں کے لئے اقبا ل کایہی پیغام ہے کہ وہ اپنی منزل کا صحیح تعین کریں۔ دنیا میں کوئی بے مقصد نہیں بھیجا گیا۔ اقبال نے یہ ہمارے لئے ہی کہا ہے کہ:

پَرے ہے چرخ نیلی فارم سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

 

متعلقہ خبریں