2019 ,نومبر 5
ستمبر 1929 میں علامہ اقبال جب گول میز کانفرنس کے لیے برطانیہ گئے ہوئے تھے تو ان کو وہاں اطالوی حکومت کی طرف سے ایک پیغام ملا جس میں مسولینی نے علامہ صاحب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
27 نومبر 1929 کو مسولینی کی خواہش پر علامہ اقبال نے اُس سے ملاقات کی۔ رسمی مزاج پرسی کے بعد مسولینی نے علامہ اقبال سے پوچھا:
"میری فاشٹ تحریک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟“
علامہ اقبال نے جواب دیا ۔۔۔ “ آپ نے ڈسپلن کے اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام اسلامی نظام حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے لیکن اگر آپ اسلام کا نظریہ حیات پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہو سکتا ہے“
مسولینی نے علامہ اقبال سے اٹلی کے قیام کے بارے میں اُن کے تاثرات پوچھے۔ آپ نے فرمایا : “ میں اطالویوں کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ ایرانیوں سے کافی مشابہت رکھتے ہیں اور بڑے ذہین و فطین خوبصورت اور فن پرست ہیں۔ ان کے پیچھے تمدن کی کتنی ہی صدیاں ہیں مگر ان میں خون نہیں۔“
مسولینی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا “ایرانیوں کو ایک فائدہ میسر رہا ہے جو اطالویوں کو میسر نہیں اور وہ یہ کہ ان کے ارد گرد مضبوط اور توانا قومیں افغان، کرد اور ترک آباد ہیں جن سے وہ تازہ خون حاصل کر سکتے ہیں آپ اطالوی ایسا نہیں کر سکتے۔“
اس پر مسولینی نے پوچھا “اچھا ہم اہل اٹلی کو کیا کرنا چاہیے ؟“
علامہ اقبال نے جواب دیا "یورپ کی تقلید سے منہ موڑ کر مشرق کا رُخ کرو اس لیے کہ یورپ کا اخلاق ٹھیک نہیں۔ مشرق کی ہوا تازہ ہے اس میں سانس لو“
مسولینی نے علامہ اقبال سے کوئی اچھا مشورہ طلب کیا جو خاص اٹلی کے حالات کے لیے موزوں ہو۔ انہوں نے فرمایا “ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اُسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دو اس سے زیادہ آبادی کے لیے نئی بستیاں مہیا کی جائیں۔“
مسولینی نے اس کی وجہ پوچھی تو علامہ اقبال نے فرمایا “شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے اُس کے تہذیبی و اقتصادی توانائی بھی کم ہوتے ہیں اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکاتِ شر لے لیتے ہیں۔“
علامہ اقبال نے مزید کہا “یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم نے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔“
یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مارتے ہوئے کہنے لگا “کتنا خوبصورت خیال ہے۔“
علامہ اقبال نے “مسولینی“ کے عنوان سے دو نظمیں بھی لکھیں تھیں، ایک نظم بال جبریل میں ہے جبکہ دوسری نظم ضرب کلیم میں ہے۔
بال جبریل کی نظم مسولینی ملاحظہ فرمائیں:
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ذوق انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ملت کا شباب
ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی
ندرت فکر و عمل سے سنگ خارا لعل ناب
رومتہ الکبرے ! دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر
اینکه می بینم به بیدار یست یا رب یا به خواب
چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ
نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب
یہ محبت کی حرارت ! یہ تمنا ، یہ نمود !
فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیرِ حجاب
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
فیض یہ کس کی نظر کا ہے ؟ کرامت کس کی ہے؟
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاع آفتاب
ضرب کلیم کی نظم مسولینی:
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم !
بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی، میں چھاج
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟
یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں
راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج
آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے
اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج !
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاج
پردہ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج
اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد جب مسولینی نے حبشہ پر چڑھائی کر دی تو آپ نے مسولینی کی جوع الارض کی حرص کی سخت مذمت کی۔
18 اگست 1935ء کو ایک نظم “ابی سینیا“ کے عنوان سے لکھی:
یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر
ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش
ہونے کو ہے یہ مردہ دیرینہ قاش قاش
تہذیب کا کمال ، شرافت کا ہے زوال
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
ہر گُرگ کو ہے بزہ معصوم کی تلاش
اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ
روما نے کر دیا سرِ بازار پاش پاش
ایک دفعہ کسی نے علامہ اقبال کو لکھا کہ آپ نے مسولینی کے متعلق دو نظمیں لکھی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس پر آپ نے مختصر سا جواب دیا۔ “اگر اُس بندہ خدا میں رحمانی اور شیطانی دونوں صفات موجود ہیں تو اس کا میرے پاس کیا علاج ہے ؟“
سید قاسم محمود کی کتاب
“پیامِ اقبال بنام نوجوانانِ ملت“ سے اقتباس