اقبالؒ اور عشق رسولﷺ

2017 ,اپریل 21



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک / طلعت جبیں): برصغیر پاک و ہند میں جنم لینے والی عظیم ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا بھی ہے جنہیں اہل پاک وہند ’’مفکر پاکستان‘‘اور شاعر مشرق کے نام سے جانتے ہیں دین اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو اقبال کو وراثت میں ملاتھا۔ دوران تعلیم میر حسن جیسے اساتذہ کی تربیت نے اِس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی ۔آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی مَرے کالج سے انٹر کرنے کے بعد آپ لاہور آگئے ۔اسی زمانے میں باقاعدہ شاعری کا آغاز ہوا اور مولانا میر حسن جیسے اساتذہ نے آپ کی شاعرانہ صلاحیت کو نکھار بخشا۔ فروری 1900ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں شیخ محمد اقبال نے پہلی بار ’’نالہ یتیم‘‘ کے عنوان سے نظم پڑھی جسکا روئے سخن حضور ؐکی طرف ہے اس نظم میں جذبہ عشق رسولؐ کا والہانہ اظہار ملتا ہے۔اقبال جب بھی ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کو چشم تصور میں لاتے تو برملا کہ اٹھتے۔

تاشعار مصطفے ازدست رفت

قوم را ر مزبقاازدست رفت

وہ جب پوری امت کا مجموعی تنقیدی مطالعہ کرتے تو انہیں مسلمانوں کو حضورؐسے تعلق عشق میں جمالِ مصطفوی سے آشنائی کی تاکید فرماتے۔

عصر مامارا زما بیلانہ کرد ازجمال مصطفی بیگانہ کرد

اقبال جیسا فلسفی اور جدید دنیائے علم و فکر کا نامور محقق تمام یورپی علوم و فنون کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جب حقیقت حال تک پہنچتا ہے تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے؎

ذکر و علم و عرفانم تُوئی کشتی و دریا وطوفانم تُوئی

علامہ کے قریبی دوست مرزا جلال الدین بتاتے ہیں کہ میرا ایک ملازم مسدس حالیؔ ستار پر ایک خاص طرز سے سنانے میں مہارت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب میرے ہاں آتے تو التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے روز اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائنات کی تعریف میں جب وہ یہ بند :

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

سنتے تو اکثر بے اختیار ہو کر رو پڑتے۔اسی طرح کوئی نعت رسول مقبولؐ سنائی جاتی تو انکی آنکھیں پُرنم ہو جاتیں۔ مولاناغلام رسول مہر کا بیان ہے کہ: سرور کائنات ؐکا اسم پاک تو زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضور ؐ کے متعلق ہیں ان کی تعدا بہت زیادہ ہے ۔ان میں کوئی ایک بھی شعرایسا نہیں جسے انہوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں ۔

جواب شکوہ کے آخری شعر میں تو علامہ نے مسلمانوں کو دو ٹوک الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی رضا سے آگاہ کر دیا اور دنیا و آخرت کی کامیابی کو حضورؐ کی غلامی سے مشروط کر دیا۔

کی محمدؐ سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے نزدیک دنیاوی زندگی کی کامیابی ہو یا آخرت کی فلاح‘عشق رسولؐ کے بغیر سب ناممکن ہیں۔

جس خوش قسمت کو عشق مصطفیٰ ؐکی گراں بہا دولت نصیب ہو گئی یہ کائنات بحر و بر اس کے گوشہ و امان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی۔ اس لئے ملت اسلامیہ کی زندگی حضورؐ کے عشق سے ہی وابستہ ہے۔ حضرت علامہ نے جب ایک باشعور اور صاحب درد مسلمان کی طرح خوب سوچ سمجھ کر امت کے ملی بگاڑ کا جائزہ لیا اور دیکھا ہے اب اور کوئی نسخہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا تو انہوں نے مسلمانوں کو ایمان کی پختگی اور سلامتی کیلئے حضورؐ سے عشق و محبت کا پیغام عام کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے نظم و نثر میں اس دولت عظمیٰ کے حصول پر زور دیتے ہوئے بڑا واضح انداز اختیار کیا۔

دراصل علامہ نے عشق و محبت رسولؐ کی دولت والدین سے ورثہ میں لی تھی۔والد گرامی کو بھی حضورؐ سے عشق تھا۔ اسی تربیت کا اثرتھا کہ انہیں جلوہ دانش فرنگ خیر نہ کر سکا بلکہ وہ ہمہ وقت عشق و محبت کے نغمے الاپتے رہے ۔آپ خود اپنی ابتدائی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرتے ہیں کہ ایک دن ان کے گھر کسی سائل / فقیر نے صدا دی۔ بار بار کہنے کے باوجود جب وہ دروازے سے نہ ہٹا تو لڑکپن میں اس فقیر کو پیٹ کر سختی سے پیچھے دھکیل دیا ۔اتنے میں والد ماجد تشریف لے آئے۔ فقیر کی بے بسی اور میری زیادتی پر دل گرفتہ ہو گئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے بیٹا ذرا تصورکرو قیامت کے روز جب حضورنبی اکرمؐ کے سامنے میری پیشی ہو گی اور یہ گدائے درد مند تیری شکایت عرض کریگا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے فرزند تو دیا تھا مگر تو اسے احترام انسانیت نہ سکھا سکا۔علامہ نے اپنے والد گرامی کے ان الفاظ کو اپنے شعروں میں بیان کیا جو انہوں نے اس وقت کہے۔

اُند کے اندیش و یاد آں اے پسر !

اجتماع امت خیرالبشرؐ

باز ایں ریش سفید مَن نگر

بر زہِ بیم و امید مَن نگر

ترجمہ: اے بیٹے ذرا سوچ جب قیامت کے دن حضور پاکؐ کی امت کا اجتماع ہو گا اس جواب پر طلبی پر سفید داڑھی کے ساتھ مجھے امید و خوف کی حالت میں کانپنا دیکھ ۔اقبال اگلے اشعار میںکہتے ہیںبیٹے اپنے باپ پریہ ناروا ظلم نہ کر اور اسے اپنے مولا کے سمنے شرمندہ نہ کر۔یہ اشعار اس حقیقت حال نشاندہی کرتے ہیں جو والد محترم کی نصیحت سے ان کے دل پر گزری ہیں۔

مولانا ابوالحسن ندوریؒ لکھتے ہیںکہ :

زندگی کے آخری ایام میں پیمانہ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینہ منورہ کا نام آتے ہی اشک محبت بے ساختہ جاری ہو جاتے۔آخری عمر میں انہیں یہ فکر دامن گیر رہی کہ ان کی عمر آنحضورؐ سے زیادہ نہ ہوجائے کیونکہ وہ اسے سوئے ادب سمجھتے تھے۔ حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں کہ ’’جب وہ ایک طویل بیماری کے باعث بہت ضعیف ہو گئے تو ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا :اب میں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ رسول مقبول کا زکر کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔آواز بھر آئی اور آپ سسکیاں بھر کر رونے لگے۔ یوں 21 اپریل 1938ء کو مفکر اسلام اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔

 

متعلقہ خبریں