شہباز شریف اور جنرل رضوان اختر میں جھڑپ،حقیقت کیا ہے؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 07, 2016 | 08:30 صبح

اسلام آباد (مانیٹرنگ) وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان نے 6 اکتوبرکو ایک اخبار میں شائع ہونے والی قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے حوالے سے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خبر کے مندرجات قیاس آرائی پر مبنی بلکہ گمراہ کن اور غلط ہیں اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر ترتیب دیا گیا۔ رپورٹ میں خود بھی درج کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ بیانات کو منسوب کیا گیا ان میں سے کسی فرد نے تصدیق نہیں کی۔ اس سے خبر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی مثال ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جو بہترین بین الاقوامی طریقوں کے مطابق اطلاعات کے حق کام
طالبہ کرتے ہیں۔ انہیں بین الاقوامی رپورٹنگ کی اقداراور معیار کے مطابق کام کرنا چاہئے۔ ترجمان نے اخبار کی طرف سے پیدا کئے جانے والے تاثر کی تردید کی اور کہاکہ انٹیلی جنس ادارے خصوصاً آئی ایس آئی صوبائی اور وفاقی سطحوں پر ریاست کی پالیسی کے عین مطابق ملک کے بہترین مفاد میں کام کر رہے ہیں تمام دہشت گردوں کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کرائی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں فوج اور آئی ایس آئی کا کردار بے حد متحرک اور موثر ہے۔ یہ خبر حقائق کے برعکس ہے، خبر کا مواد تخیل اور جھوٹ کا امتزاج ہے، ترجمان وزیراعظم نے وضاحت میں کہا ہے کہ خبر کی تصدیق نہ ہونے کا اقرار غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی کھلی مثال ہے، عالمی معیار کی آزادی اظہار کا مطالبہ کرنے والے رپورٹنگ میں معیار مدنظر رکھیں۔دریں اثناءوزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے دفتر نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی کا سامنا، سویلینز نے ملٹری کو آگاہ کر دیا“ کے عنوان سے خبر میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف سے منسوب ریمارکس کی سختی سے تردید کی گئی ہے اور اسے بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ خبر دینے والے صحافی نے ریمارکس کیلئے وزیراعلیٰ کے دفتر رابطہ کیا تھا تاہم انہیں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ سے منسوب ریمارکس بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں لیکن افسوس کہ واضح طور پر تردید کے باوجود وزیراعلیٰ سے منسوب ریمارکس کو خبر میں حقیقت کے برعکس غلط انداز سے شائع کیا گیا۔ وزیراعلیٰ آفس کے بیان کے مطابق وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ہیڈلائن بنانے کیلئے سچائی اور راست گوئی کے بنیادی صحافتی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی پر گہرے تاسف کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ”ڈی جی آئی ایس آئی سے تخیلاتی گفتگو“ کے دوران ان سے منسوب ریمارکس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ خبر کے مندرجات کا سچائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پاک فوج آئین اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاک فوج کے افسر اور جوانوں نے وطن عزیز سے ملک دشمن عناصر کے خاتمے کیلئے ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، ایسے عناصر کو مدد دینے کے حوالے سے خبر میں دیا گیا تاثر مضحکہ خیز ہے۔ وزیراعلیٰ نے خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ وہ نہ صرف مسلح افواج کے بطور ادارے کے بے پناہ احترام کرتے ہیں بلکہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کے پیشہ ورانہ انداز سے فرائض سرانجام دینے، ان کی فرائض سے لگن اور اپنے مقصد سے مخلص ہونے پر بھی بہت احترام رکھتے ہیں۔ مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف جو غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کی ہیںاسے عالمی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔ پوری پاکستانی قوم مسلح افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے اور آل پارٹیز کانفرنس سمیت وزیراعظم محمد نواز شریف نے جن حالیہ اجلاسوں کی صدارت کی ان میں بھی قیادت نے مسلح افواج پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارتی اشتعال انگیزیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں، اس طرح کی من گھڑت اور حقائق کے منافی خبرانتہائی قابل افسوس ہے۔ اس تردیدی خبر میں اس خبر کا ذکر جس کی تردید کی جارہی ہے اور نہ ہی اس اخبار کے بارے میں بتایا گیا ے جس ایسی جسارت کی ہے۔تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ خبر نہیں کالم تھا جو انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہوا جس کے رائٹرسیرل المیڈا ہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمایئے انہوں نے کیا لکھا: جمعرات کو پارلیمانی سربراہی کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کی وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے جھڑپ بھی ہوئی۔ جب سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔ شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکا ششدر رہ گئے تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورت حال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ وزیر اعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی کو ہدایات جاری کی کہ وہ چاروں صوبوں کا ہنگامی دورہ کرکے اپنے افسران تک یہ پیغام پہنچائیں کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کی صورت میں وہ لوگ مداخلت نہ کریں۔ جس پر ڈی جی آئی ایس آئی نے اس پر عملدر آمد کی یقین دہانی کروائی۔ ایک عہدے دار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عزم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی ساری زندگی یہ سننے کی دعا کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘۔ ایک اور سرکاری عہدے دار نے کہا کہ ’اقدامات کیے جارہے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ نومبر تک کئی معاملات طے ہوجائیں گے‘۔