2019 ,نومبر 8
میں رینجرز بول رہا ہوں
جون ایلیا کے ایک ہمدم و ہمراز بیان کرتے ھیں کہ ایک دفعہ رات کے ڈھائی بجے ان کے پھاٹک پر گھنٹی بجی
وہ آنکھیں ملتے ھوئے پہنچے تو جون ایلیا کھڑے تھے
فرمایا جانی !!
میں اس وقت پیئے ہوئے نہیں ہوں۔ میں اس وقت رینجر بن کر بڑے بھائی (سید تقی صاحب) کو فون کرنا چاہتا ہوں
جن سے انکا جائیداد کا جھگڑا تھا کہ یا تو جائیداد کے تقاسمے میں جون کے ساتھ زیادتی بند کرو ورنہ وغیرہ، وغیرہ
ان دنوں کراچی میں قتل و غارت کا زور تھا اور شہر میں رینجرز گشت کر رھے تھے
لوگ رینجرز سے بہت خوفزدہ تھے
دوست انہیں فون تک لے گیا، ان کے ہاتھ میں بیحد رعشہ تھا اس کے علاوہ انہوں نے ڈائل کے سوراخ یکے بعد دیگرے غلط طرف گھمائے انہیں نمبر بھی یاد نہیں تھا
کہنے لگے جانی !!
تمھارے فون کے سوراخ غلط جگہ بنے ھوئے ھیں۔ ھم نے سب ٹرائی کر کے دیکھ لیے ذرا تم فون ملا دو
دوست نے فون ملایا جب بڑے بھائی صاحب جو روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر تھے، فون پر آ گئے تو جون نے کانپتے ھوئے ہاتھ سے ریسیور پکڑ کے مہکتے ہوئے ہونٹ اس پر رکھ کر کہا،
"بھیا میں رینجرز بول رہا ہوں"
(بھائی صاحب قبلہ نے جواب میں جو کچھ کہا اسے یہاں دہرانا ضروری نہیں)۔
فون پھینک کر جون ایلیا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ,
"صاحب اس تہذیب نے ہمیں تباہ کر دیا
اس تہذیب نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا
اماں خفگی اور عصومت میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا
امروہے کی تہذیب نے مجھے تباہ کر دیا"
("مشتاق احمد یوسفی" لاس اینجلس میں پڑھی گئی تحریر)