تباہی کے حوالے سے 2022ء کا سیلاب اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ بستیوں کی بستیاں پل حتیٰ کہ کالام میں ایک بڑے ہوٹل کی مضبوط عمارت خش و خاشاک کی طرح منہ زور ریلوں کے طوفان میں بہہ گئی۔کئی اور بھی ہوٹل اور عمارتیں تنکوں اور پتوں کی مانند پانی میں تیرتی نظر آئیں۔قدرت کوشاید ٹائی ٹینیک کے مالک کے یہ متکبرانہ الفاظ پسند نہ آئے ہوں۔”میں نے اتنا مضبوط جہاز بنا دیا کہ اسے خدا بھی نہیں ڈبو سکتا۔“یہ جہاز اپنے پہلے ہی سفر کے دوران 1912ء میں برف کے گالے کیساتھ ٹکرا کے ٹوٹا اور ڈوب گیاتھا۔
ہمارے ہاں زلزلے میں 86ہزار افراد جان سے چلے گئے تھے جبکہ لاکھوں گھر اور بڑی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ جاپان اور امریکہ میں سونامیوں کی شدت ہمارے ہاں آنے والے سیلابوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، مگر وہاں حفاظتی اقدامات کر لئے گئے ہیں۔ اس لئے کم نقصان ہوتا ہے۔ ہم بڑی محنت اور جانفشانی سے کماتے ہیں۔گھر بناتے ہیں۔ فصلیں اگاتے ہیں۔ ترقی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پانچ سات سال بعد سیلاب کے ریلے سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ سیلاب کیا ہے؟ پاکستان دریاؤں اور ندی نالوں کی سرزمین ہے۔ ان میں پانی اعتدال کے ساتھ بہتا ہے۔ اتنا پانی کسی بھی وجہ سے آجائے کہ دریا اورندی نالے نہریں نہ سنبھال سکیں تو یہ پانی سیلاب بن جاتا ہے۔
بارشوں نے پورے پاکستان میں پانی کی اس قدر بہتات کر دی ہے ہم عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ بارش کو رحمت کہا گیا ہے۔ تھوڑی ہو یا زیادہ، رحمت تورحمت ہی ہوتی ہے۔ اگر اس سے نقصان ہوتا ہے تو ہماری کوتاہیوں سے ہوتا ہے۔اب بارشیں اتنی زیادہ ہوئیں کہ سارے ڈیم بھر گئے۔کچھ چھوٹے تو ٹوٹ بھی گئے۔ خدانخواستہ کسی ایک بڑے ڈیم کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے سپل ویز کھول دیئے جاتے ہیں تو سیلاب کی تباہی میں مزید اضافے کا خدشہ منہ کھولے کھڑا ہے۔ جس آبی ریلے میں ہوٹل کی مضبوط عمارت بہہ گئی وہاں پانی کا بہاؤ گولی کی سی تیزی رکھتا تھا۔آج کل لندن میں مقیم ہمارے دوست ناول پُشپاکے رائٹرشبیر بٹ جوانی میں انہی علاقوں میں پھنس گئے تھے۔ وہ فوج میں تھے۔ ایک ندی کو کراس کرنے لگے، پاؤں پھسلا تو لڑھک گئے۔ ایک پتھر پر ہاتھ پڑگیا تو اسے جپھا مار لیا۔وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگا کہ کسی نے یہ پتھر مجھے پکڑا دیا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں اس ندی میں گھوڑا داخل ہوجائے تو اس کی کُھریاں تک بھی سلامت نہیں رہتیں۔ کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو ہم چند برسوں بعد کی متواتر تباہیوں سے کافی حد تک محفوظ رہ سکتے تھے۔ اس ڈیم کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ کے پی کے میں کچھ عناصر کو نوشہرہ شہر کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے۔ اب کے پانی اتنا چڑھا کہ نو شہرہ شہر کو خالی کرا لیا گیا تھا۔
کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ کے ڈوبنے کا خدشہ تھا تو وہ بارش میں بھی ڈوب گیا۔2010ء میں بھی نو شہرہ کے لوگ عذاب سے گزرے تھے۔ کالا باغ ڈیم نہ بنے تب بھی نو شہرہ کو کہیں اور منتقل ہونا ہے۔ قدرت کے آج کے نظام کے تحت یہ نوشتہ دیوار ہے۔ اُدھر سندھ میں وڈیرے کالا باغ ڈیم بننے پر جن خدشات کا اظہار کرتے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔یہ لوگ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں مگر عوام کو گمراہ کرنے کے لئے پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ایک لیڈر نے کہا تھا کہ کالا باغ بنا کر بجلی پیدا کی جائے گی۔ جو پانی سندھ میں آئے گا اس میں سے پنجاب بجلی نکال لیا کرے گا۔ اس سیاستدان کو اپنے لوگوں کی سوچ اور سمجھ کا اندازہ تھا۔ سند ھ میں اول تو کالا باغ ڈیم بننے سے خشک سالی نہیں آئے گی، جس کا واویلا کیا جاتا ہے بالفرض پانی کی کمی ہو جاتی ہے تو اس سے اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا سیلابوں سے چند سال بعد ہو جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے فنڈ کی اپیل کی گئی ہے۔بہت سی این جی اوزاور ٖفلاحی تنظیموں کی طرف سے بھی امدادی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ عوام فراخ دلی سے فنڈز دے رہے ہیں۔فنڈ دینے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوسیلاب متاثرین کی ہڈیوں سے ماس اتارنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ ایسے لوگ اذانیں بھی دیتے ہیں۔ متاثرین کو آج خیموں کی اشد ضرورت ہے۔ کل جس ٹینٹ، تمبو اور خیمے کی قیمت 6ہزار تھی آج وہ دس ہزار میں مل رہا ہے۔ نوہزار والا پندرہ ہزار کا کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں جس پروڈکٹ کی مانگ زیادہ ہو اس کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔
ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا فارمولا بتایا جاتا ہے۔ یہ منافع خوری کا ایک جواز ہے۔ آپ دیانت داری سے تجارت کریں۔ جو چیز جتنی موجود ہے بھلے مارکیٹ میں کم ہو رہی ہے آپ اسی ریٹ پر فروخت کریں جس پر کر رہے تھے۔ اب رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ محکمہ موسمیات نے حکومت کو بارشوں کی بہتات سے آگاہ کردیا تھا مگر سیاست میں اُلجھی ہوئی حکومتوں نے مناسب اقدامات نہیں کئے۔ایک طرح سے سیاستدانوں پر ملبہ ڈالا جارہا ہے۔ان کوبری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتامگر بیوروکریسی نے کیوں غفلت اور کوتاہی کی۔۴ ارب روپے کی گندم ضائع ہو گئی۔ چیونٹی بھی سردیوں میں روح اور سانس کا رشہ برقرار رکھنے کے لئے کئی ماہ کی خوراک جمع کرلیتی ہے۔بیوروکریسی نے اپنے فرض کا احساس کیا ہوتا تو گندم کا ایک دانہ بھی ضائع نہ ہوتا۔ پاک فوج سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لئے روایتی طور پر جانفشانی سے کام کررہی ہے۔
آرمی چیف جنرل باجوہ بھی فیلڈ میں موجود ہوتے ہیں۔ایک گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ 2010ء کے سیلاب میں کئی ہوٹل گرگئے تھے۔اسی جگہ پھر تعمیر کرلئے گئے۔جنرل صاحب کی رائے ہے کہ ایسا کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔کئی ممالک نے سمندروں میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی ہوئی ہیں۔امارات نے تو سمندرکی سرکش لہروں کے باوجودتین سو مصنوعی جزیرے بنالئے۔ہوٹل ایک بار گرگئے تو پانی کی تباہ کن شدت کا اندازہ ہوگیا تھا۔دوسری بارگرنے کا مطلب ہے کہ تعمیرات میں کوتاہی کی گئی۔ ایسی تباہیوں سے بچنے کے لئے ڈیمز کی ضرورت ہے۔ان میں کالا باغ ڈیم سب سے اہم ہے۔جو کہتے تھے ہماری لاشوں پر یہ ڈیم بنے گا۔ان کی فصل بھی سیلاب میں ڈوب جاتی ہے اُن کو شاید تباہ ہونے والی فصلوں کا معاوضہ مل جاتا ہے لہٰذا ان کی سوئی مخالفت پر اٹکی ہوئی ہے۔